اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شامل 9جماعتوں نے قبل از وقت انتخابات کو آئینی قرار دیتے ہوئے متفقہ مطالبہ کیا ہے کہ فوری نئے شفاف اور غیر جانبدار انتخابات ناگزیر ہیں۔ اس کے علاوہ ہر صورت میں آئین کی بالادستی کو قائم رکھا جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہیں یہ گاڑی دونوں کے باہمی رابطے اور افہام و تفہیم سے ہی منزل کی جانب رواں رہتی ہے لیکن اگر اس گاڑی کا ایک پہیہ آگے کی طرف چلے اور دوسرا پیچھے زور لگائے تو اس افراتفری میں جمہوری گاڑی کے ٹریک سے اترنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اپوزیشن کی 9جماعتوں نے حکومت کے خلاف ایکا کر کے پی ٹی آئی کو اقتدارسے محروم کرنے کی ٹھان لی ہے حالانکہ اس سے قبل اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے لوٹ مار اور کرپشن کے باوجود آئینی مدت پوری کی تھی۔ اس بار اگر دونوں جماعتیں سیاسی بالغ نظری کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو بھی مدت اقتدار پوری کرنے دیں تو اس سے جمہوریت مستحکم ہو گی ،لیکن اگر سیاسی جماعتیں ایسے ہی آپس میں دست و گریباں رہیں تو سیاست دانوں کی باہمی لڑائی سے کوئی تیسرا فریق فائدہ اٹھا کر سب کو چلتا کرے گا ،جس کے بعد ماضی کی طرح تمام سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر طویل جدوجہد کرنا پڑے گی۔ مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں نہ پہلے کچھ تھا نہ ان کی جماعت اس سسٹم کو چلانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ وہ تو دوسری پارٹیوں کی بیساکھیوں کے سہارے شریک اقتدار ہو تے ہیں۔ خدانخواستہ اگر جمہوریت کو کچھ ہوا تو اس کا نقصان دونوں بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن )کو ہو گا۔ اس لئے یہ دونوں جماعتیں ذرا احتیاط کے ساتھ چل کر ماضی کی طرح مفاہمانہ پالیسی اختیار کریں تاکہ جمہوریت کی گاڑی آہستہ رفتار سے ہی سہی اپنے ٹریک پر رواں دواں رہے ۔ استعفے کا مطالبہ کرنا یا پھر بزور بازو ایک جمہوری حکومت کو ختم کرنے کا طریقہ درست نہیں۔ اگر اپوزیشن جماعتوں نے اپنی روش نہ بدلی اور اسی ڈگر پر چلتی رہیں تو ہم ایک بار پھر 90ء کی دہائی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ آج اپوزیشن جماعتوں نے حکمران جماعت پی ٹی آئی کے خلاف اتحاد کر لیا ہے، تو کل کو حکمران جماعت جب اپوزیشن میں آئے گی تو وہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلائے گی ،اس طرح یہ کھیل تو جاری رہے گا لیکن عوام نے جن ارمانوں اور وعدوں کے ساتھ اپنے نمائندوں کو اقتدار میں بھیجا تھا، وہ مایوس ہو جائیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں اگر سسٹم میں موجود رہ کر ہی حکمران جماعت پر دبائو ڈالیں ‘جمہوریت کے لئے بھی یہی بہتر ہے اور عوام کی بھی اسی میں بھلائی ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوری نظام میں تمام حکمرانوں کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ اگر کوئی بھی حکمران جماعت عوام کی طرف سے تفویض کردہ مینڈیٹ پر پورا نہیں اترتی تو آنے والے الیکشن میں عوام اس کااپنے ووٹ سے احتساب کرتے ہیں۔ ماضی میں مسلم لیگ( ق) جب عوامی امنگوں پر پورا نہ اتری تو 2008ء کے عام انتخابات میں عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے اسے اقتدار سے محروم کیا۔ اس کے بعد عوام نے بڑی امیدوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے حق میں فیصلہ دیا، لیکن کامل پانچ برس گزارنے کے باوجود جب پیپلز پارٹی نے عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیلا۔ لوٹ مار اور کرپشن پر سرے سے قابو نہ پایا بلکہ اقرباپروری کی تمام حدیںتوڑ دیں، تو عوام نے 2013ء میں اس کا بوریا بستر گول کر دیا ۔2013ء کے عام انتخابات میں عوام ایک بار پھر تین ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے ‘ مہنگائی کنٹرول کرنے اور کرپٹ لوگوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے جیسے پرکشش نعروں کے اسیر ہو ئے لیکن تین ماہ تو کیا پانچ برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود نہ عوام کو اندھیروں سے چھٹکارا ملا نہ ہی لوٹ مار کرنے والوں کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ بلکہ اس کے الٹ مسلم لیگ(ن) نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنا لی۔ یوں عوام نے ان دونوں بڑی جماعتوں سے مایوس ہو کر 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو اقتدار سونپا۔35برس سے اقتدار کے ساتھ چمٹے سیاستدانوں نے پہلے تو اس کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔اے پی سی میں حلف نہ اٹھانے کے اعلانات کئے گئے لیکن اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کی اس پالیسی سے علیحدگی اختیار کر کے پارلیمنٹ کے وقار کو بحال رکھا ،لیکن پندرہ ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن کے جال میں پھنس گئی ہیں۔ اگر ان دونوں جماعتوں نے اپنی سمت درست نہ کی اور یوں افراتفری کی سیاست کو فروغ دئیے رکھا تو خدشہ ہے کہ اقتدار کی بوٹی کوئی تیسری قوت لے اڑے گی اور پھر یہ پچھتاتے پھریں گے۔ 2018ء کے الیکشن میں عوام نے پی ٹی آئی پر اعتماد کا اظہار کیا ، عمران خان اپنے وعدے کے مطابق کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کے لئے عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت احتساب کے شکنجے میں ہے۔ جبکہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے بھی حکومت نے بڑے اقدامات اٹھا رکھے ہیں۔ اس لئے اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں پی ٹی آئی کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں اگر وہ اپنی مدت کے اندر اندر عوام کے ساتھ کیے وعدوں پر پورا نہیں اترتی تو ماضی کی طرح عام انتخابات میں عوام اس سے خود ہی بدلہ لے لیں گے اور کسی سیاسی جماعت پر کوئی الزام بھی نہیں آئے گا۔ اس لئے اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سسٹم کو خراب ہونے سے بچائیں اور جمہوریت کی مضبوطی اور عوام کو ریلیف دلوانے کے لئے اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی سیاسی قوت بروئے کار لائیں تاکہ عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف مل سکے۔