بالآخر وہ سوانگ جوکرپشن کی پاداش میں میاں نواز شریف کی نااہلی سے شروع ہواتھاکا ڈراپ سین ہونے والا ہے۔ عام انتخابات میں جزوی کامیابی اور آزاد امیدواروں نیز کچھ چھوٹے گروپوں کو ساتھ ملا کر پاکستان تحریک انصاف بالآخر وفاق میں حکومت بنانے کے قابل ہو گئی۔ ان شاء اللہ 18 اگست کو خان صاحب بطور وزیراعظم حلف اٹھا لیں گے اور اس طرح پاکستان میں تبدیلی لانے کیلئے ایجنڈے پر کاربند ہونگے۔ ویسے تو متحدہ اپوزیشن کا ’جعلی انتخابات نامنظور‘ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج فلاپ شو ہی رہا۔ یقینا اس علامتی احتجاج جس میں چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا، تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک تھے لیکن ٹاپ لیڈرشپ عنقا تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف جن کے لیے حالیہ انتخابات کے نتائج سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا ثابت ہوئے، یہ جواز بنا کر کہ ’اسلام آباد میں موسم ٹھیک نہیں تھا ان کی فلا ئٹ پرواز نہیں کر سکی‘ منظر سے غائب تھے۔ بدھ کی شام اکثر اینکر خواتین و حضرات نے مسلم لیگ (ن) کے صدر کے خوب لتے لئے کہ ان کا موسم کی خرابی کی بنا پر اسلام آباد نہ پہنچنا محض عذر لنگ تھا۔ بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ شہباز شریف، آصف زرداری اوربلاول بھٹو کے ساتھ الحاق کرنے کے باوجود ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے ورنہ وہ بھائی جان کی تعمیر شدہ موٹروے پر سفر کرتے ہوئے موسم کی خرابی کے باوجود بآسانی پہنچ سکتے تھے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو بھی صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں، اس نام نہاد اتحاد کی کسی میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ اسی روز میں نے اپنے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے‘ میں محترمہ شیری رحمن کا انٹرویو کیا۔ انھوںنے عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں کئی نکات اٹھا ئے لیکن تسلیم کیا کہ نئی حکومت کی بھرپور اپوزیشن کریں گے لیکن اسے کام کرنے کا موقع دیں گے۔ یہی بات قریباً زیادہ دوٹوک اندازمیں سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہی کہ عمران خان کی حکومت کو پانچ سال دیں گے۔ اینکر پرسن وسیم بادامی کے پروگرام میں میرا ’ٹاکرا‘ مفتاح اسماعیل سے ہوا، ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ حکومت کو وقت دیں گے، ایسا ہی ہے توپھر جھگڑ اکس بات کا ہے؟۔ بلاول پارٹی کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی کی دھاندلی کی جملہ شکایات کے باوجود اس نے2013ء کی نسبت قدرے بہتر نتائج حاصل کیے ہیں، سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے میں تو ناکام رہی ہے لیکن تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پنجاب اسمبلی میں نصف سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے۔ غیر موافق حالات کے باوجود قومی اسمبلی میں بھی مسلم لیگ (ن) کو 64 نشستیں بھی مل جانا معجزے سے کم نہیں۔ اصل نقصان تو مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، اسفند یار ولی اورمحمود اچکزئی کا ہوا ہے۔ یہ لیڈر تو بالکل فارغ ہو گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی تو13برس بعد کشمیر کمیٹی کی کھڑپینچی بھی جاتی رہی اور وہ وفاقی لاجز میں بنگلہ بھی شاید، ’ہم چھوڑ چلے ہیں محفل کو، یاد آئیں تو مت رونا‘ گنگناتے ہوئے خالی کر کے رخصت ہو گئے۔ اس لحاظ سے ان رہنماؤں کے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں تحفظات قابل فہم ہیں اور اس لحاظ سے ہارڈ لائن لینا ایک فطری عمل ہے۔ آصف زرداری اوران کی ہمشیرہ فریال تالپور کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس جو 2015 سے چل رہا تھا کو یکدم فعال کر دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس کی یہ ٹائمنگ اور مقصد آصف زرداری کو نکیل ڈالنا ہے کہ میاں برادران کو ایک حد سے زیادہ جپھی نہ ڈالیں ۔جہاں تک حالیہ عام انتخابات کی منصفانہ حیثیت اور شفافیت کا تعلق ہے اس پر بجا طور پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ایک تو وہ مرحلہ تھا جب ’’پری پول انجینئرنگ‘‘ کے ذریعے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے بہت سے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے اور سینیٹ کے انتخابات میں اپنے ڈھب کا چیئرمین لایا گیا اور اسی طرح انتخابات سے پہلے یہ دعویٰ کہ سب کو ’لیول پلینگ فیلڈ‘ مہیا کیاجا رہا ہے، کھوکھلا ثابت ہوا۔ خیال یہ تھا کہ 25جولائی کو عام انتخابات کے روز پولنگ اور گنتی کا عمل شفاف ہو گا۔ بدقسمتی سے یہاں بھی الیکشن کمیشن کی نااہلی اور بعض ناقدین کے مطابق بدنیتی کی بنا پر کئی سوالات اٹھے۔ اس وقت اپوزیشن پولنگ کے حو الے سے تین اعتراضات اٹھا رہی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ فارم 45پولنگ ایجنٹس کو نہیں دیا گیا بلکہ بہت سے مقامات پر سادہ کاغذ پر ووٹ لکھ کر دیئے گئے ۔ دوسرا یہ کہ بہت سے پولنگ سٹیشنزپر گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹس کو زبردستی باہر نکال دیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ آر ٹی ایس سرے سے ناکام ہو گیا اور اس کی شکایت تو خود آنے والی حکمران جماعت تحریک انصاف نے بھی کی ہے۔ الیکشن کمیشن ان تینوں اعتراضات کا تسلی بخش جواب دینے میں قطعاً ناکام ہے۔ اس لحا ظ سے یہ مطالبہ کہ چیف الیکشن کمشنر استعفیٰ دیں، یکسر غلط بھی نہیں ہے۔ عمران خان نے اپنی وکٹری سپیچ میں یہ پیشکش کی تھی کہ جس جس حلقے میں شکایت ہوئی انھیں تحقیقا ت کیلئے کھو لنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ تاہم عملاً ایسا نہیں ہوا۔ وہ یہ بھی کہہ چکے تھے کہ میں خود کو مثال کے طور پر پیش کرونگا اورآپ سب کو بھی مثال بننے کی تلقین کروں گا لیکن جب مسئلہ ان کے حلقے این اے 131 کا آیا جہاں خواجہ سعد رفیق ان سے صرف 680 ووٹ پیچھے تھے تو لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر کہ تمام ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی جائے، ان کے وکیل بابر اعوان سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس ثاقب نثار،جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے، ہائیکورٹ اس ضمن میں مداخلت نہیں کر سکتی اور جب فاضل جج کی توجہ عمران خان کی پیشکش کی طرف دلائی گئی تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ یہ سیاسی نوعیت کے بیانات ہوتے ہیں، عدالت نے قانون کو دیکھنا ہوتا ہے۔ عمران خان نے یہ عندیہ دیا ہے کہ نئے پاکستان کا آغاز پنجاب سے ہی ہو گا۔ نیز وزیراعلیٰ پنجاب نوجوان اور کلین ہو گا جس پر کوئی سوالیہ نشان نہیں ہو گا۔ یہ بڑی خوش آئند خبر ہے، لیکن خیبرپختونخوا جہاں ان کی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہے، ارب پتی محمودخان کو وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا ہے۔ پرویز خٹک جو دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کے لیے بے تاب تھے نے گونگلوؤںسے مٹی جھاڑنے کے لیے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے، ویسے بھی انہوں نے وزیراعلیٰ کی دوڑ میں سب سے آگے عاطف خان کو بلاک کردیا تھا۔ محمود خان کوئی نیا چہرہ نہیں ہیں، وہ سابق دور حکومت میں صوبائی وزیر کھیل، ثقافت و سیاحت اور آبپاشی کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ محمود خان تحصیل مٹہ کے ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ ایک مرحلے پر انھیں اٹھارہ لاکھ روپے کی گڑ بڑ پر فارغ بھی کیا گیا تھا۔ بعدازاں انھوں نے یہ کہہ کر ایسا غلطی فہمی کی بنا پر ہوا ہے،پیسے واپس جمع کرا دیئے تو انھیں دوبارہ وزیر بنا دیا گیا تھا ۔اپوزیشن کی پارلیمنٹ سے باہر نیم دلانہ تحریک کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حکمران جماعت کو اسمبلیوں میں ٹف ٹائم نہیںدے گی۔ اس کے لیے عمران خان کو تیاری کرنی چاہیے اور اپنے لڑائی جھگڑے اور دنگا فساد کرنے والے کھلاڑیوں کو ٹھنڈا رکھنا ہو گا کیونکہ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر ان کا نئے پاکستان کی تعمیر کا ایجنڈا آگے نہیںچل سکے گا۔