مولانا فضل الرحمن یا ان کا کوئی حامی چاہے جو بھی کہے، حقیقت یہ ہے کہ نئے سیاسی عمل کا آغاز اچھا ہوا ہے۔ قومی اسمبلی اور تین صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کا پہلا اجلاس ہوگیا۔ اپوزیشن نے خیبرپختون خوا اسمبلی میں کالی پٹی باندھ کر شرکت کی، مگر انہی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی قومی اسمبلی میں احتجاجی سیاہ پٹی باندھے بغیر شریک ہوئے۔ اس کی یقیناً اپوزیشن کے پاس کوئی توجیہہ ہوگی،’’ تہتر کے آئین کے تناظر ‘‘ میں ہی کوئی نکتہ بیان کر دیا جائے گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ احتجاج والی ہنڈیادھری کی دھری رہ گئی۔ پکنا تو درکنار، اسے چولہے پر چڑھایا بھی نہیں جا سکا۔ اپوزیشن جماعتوں کے پہلے اجلاس میں جب اسفند یار ولی نے حلف نہ اٹھانے اور اسمبلیوں کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا تھا تو بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرا۔بات تھی ہی ایسی کہ پورا سسٹم ہل کر رہ جاتا۔ اگر اپوزیشن اسفند یار ولی یا پھر مولانا فضل الرحمن کے مشوروں کو مان لیتی توا یک بحران پیدا ہوجاتا۔ اپوزیشن جماعتیں اسمبلی میں جانے کے بجاے احتجاجی تحریک شروع کر دیں تو اچھی بھلی طاقتور نومنتخب حکومت بھی چکرا جاتی ہے۔ عمران خان کے پاس تو اکثریت بھی معمولی سی تھی۔شکر ادا کرنا چاہیے کہ شدت پسندسوچ ناکام رہی اور آخرکار اپوزیشن کے معتدل عناصر غالب آئے۔، پوائنٹ آف نو ریٹرن تک صورتحال پہنچانے کے بجائے انہوں نے اسمبلیوں میںجانے، سسٹم چلانے اور کچھ وقت لینے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کو ناپسند کرنے والے اس پر یقینا تلملا رہے ہوں گے۔ جو اپنے تجزیوںاور پیش گوئیوں میں یقین کے ساتھ یہ کہہ چکے تھے کہ عمران خان زندگی میں کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتا اور عوام میاں نواز شریف کے بیانئے کوپزیرائی بخش رہے ہیں، ان سب کے لئے اب نئی صورتحال کو ہضم کرنا آسان نہیں۔ گزشتہ روز بی بی سی پر ایک صاحب نے خاصا جلا کٹا بلاگ لکھا، جس میں اپوزیشن کو بے بھائو کی سنائیں۔طنزیہ لکھا کہ ایسی اپوزیشن خدا سب کو دے۔ اپوزیشن کا یہ طرز عمل مگر منطقی ہے، اس کے پیچھے دو تین وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ کوئی مانے یا نہ مانے عمران خان نے پاپولر ووٹ لیا ہے۔ عمران اور تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹ اس کی مقبولیت کی نشاندہی کررہے ہیں۔پاپولر ووٹ لینے والے کو حکومت نہ کرنے دینا زیادہ خطرناک ہوتا ہے، اگلی بار اسے دو تہائی اکثریت لینے سے پھر کوئی نہیں روک پاتا۔خیبر پختون خوا میں تو عمران کے حق میں باقاعدہ لہر چلی اور ان کے کئی خاصے کمزور امیدوار بھی جیت گئے۔ علی محمد خان ، مراد سعید اورشہریار آفریدی جیسے لوگ جو اپنے حلقہ انتخاب سے دور رہے تھے اور الیکشن سے پہلے نسبتاً کمزور پوزیشن میں سمجھے جا رہے تھے، انہوں نے خاصے مارجن سے اپنے حریفوں کو زیر کیا۔ کراچی میں انہیں واضح طور پر پاپولر مینڈیٹ ملا، جن امیدواروں کے نام تک رپورٹروں کو نہیں معلوم تھے، وہ یکا یک ارکان اسمبلی بن گئے۔ پنجاب میں بھی عمران خان کے حق میں واضح طو رپر ایک لہر تھی، مگر یہاں ن لیگ کے مضبوط امیدواروں نے کچھ جگہوں پر اس کے آگے دیوار باندھی۔ شمالی پنجاب میں تحریک انصاف نے صٖفایا کیا، جنوبی پنجاب میں انہیں واضح برتری ملی، سنٹرل پنجاب میں وہ فیصل آباد کو فتح کرنے میں کامیاب رہے، لاہور میں چند نشستیں لیں، گجرات میں کامیاب ٹھیرے، بعض اضلاع میں اکا دکا سیٹیں لیتے رہے،مگر گوجرانوالہ، سرگودھا، سیالکوٹ، ناروال ،اوکاڑہ جیسے شہروں میں جہاں ن لیگی ارکان اسمبلی نے حلقوں میںخاصے ترقیاتی کام کر رکھے تھے اور وہاں پرانا مسلم لیگی دھڑا متحد ویکسو تھا، نتائج تحریک انصاف کے خلاف گئے۔ اگرچہ ان حلقوں میں بھی پی ٹی آئی کا ووٹ بینک پچھلی بار سے بہت زیادہ بڑھا، کئی کانٹے دار مقابلے ہوئے اور چند سو ووٹوں سے ان کے امیدوار ہارے ۔ مسلم لیگ ن کے احباب برہم ہوجاتے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف کا بیانیہ ناکام ہوا اور میاں شہباز شریف کا ٹکرائو سے بچتے ہوئے حلقوں میں ترقیاتی کام اور فنڈز استعمال کر کے مقامی جوڑتوڑ کے ذریعے الیکشن لڑنے کا بیانیہ کامیاب ہوا۔ پچھلے الیکشن میں ن لیگ کو ڈیڑھ کروڑ کے قریب ووٹ ملے۔ میاں نواز شریف کا بیانیہ کامیاب ہوتا تواس بار ن لیگ کے ووٹ بڑھ جاتے، الٹا پچیس تیس لاکھ ووٹ کم ہوگئے۔مسلم لیگیوں کو شہباز شریف کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے مریم نواز کے آتشی بیانئے کا اثر قبول کرنے کے بجائے غیر ضروری ٹکرائو سے کارکنوں کو بچایا ، ورنہ الیکشن میں ن لیگ کی ایک تہائی نشستیںمزید کم ہوجانی تھیں۔ اپوزیشن کی قیادت کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوگا کہ کہیں ٹکرائو کی سیاست میں سسٹم ہی لپیٹ نہ لیا جائے۔ اے این پی کا توالیکشن میں صفایا ہوگیا، مولانا فضل الرحمن اپنی دونوں نشستیں ہار گئے، ان کا تو کچھ دائو پر نہیں لگا۔پیپلزپارٹی نے سندھ میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے، اس کے پاس موقعہ ہے کہ اس بار اچھی گورننس کر کے دوسرے صوبوں میں بھی جگہ بنائے ۔ بلاول بھٹو پہلی بار اسمبلی میں پہنچے ہیں، ان کے لئے بطور اپوزیشن لیڈرتجربہ حاصل کرنے کا اچھا موقعہ ہے۔ پیپلزپارٹی احتجاج کر کے یہ سب کچھ دائو پر کیوں لگاے؟ ن لیگ بھی شدید دبائو اور ٹوٹ پھوٹ کے خدشے سے دوچار ہے۔ اگر اندھا دھند ٹکرائو پر گئی تو اس میں فارورڈ بلاک بن جانے اور مقامی شخصیات کے پارٹی چھوڑ کر حکمران جماعت کا حصہ بننے کے قوی امکانات ہیں۔ خود ایم ایم اے کے اندر جماعت اسلامی بھی شدید ٹکرائو کے حق میں نہیں۔ مولانا فضل الرحمن تو جو چاہے فیصلہ کریں، ان کے مقلد اس پر سوال کم ہی اٹھاتے ہیں، جماعت اسلامی کے امیر کو البتہ کڑے احتساب سے گزرنا پڑتا ہے۔ جماعت میں چاہے ہزار خامیاں ہوں، وہ بہرحال ایک حقیقی جمہوری پارٹی ہے، جہاں امیر یا مجلس شوریٰ کو لامحدود اختیارات حاصل نہیں، ایک عام کارکن کے سوالات کا بھی اسے جواب دینا پڑتا ہے۔ سراج الحق صاحب نے بڑی عقلمندی سے خود کو مولانا فضل الرحمن کے شدت پسندانہ رویے سے فاصلے پر کیا اور اسمبلیوں میں جا کر سیاسی جدوجہد کرنے کی راہ اپنائی۔ یہ درست حکمت عملی ہے۔ جماعت اسلامی کو اس الیکشن میں اپنی شکست پر غور کرنا چاہیے۔ ان کی نشستیں چار سے ایک پر آ گئی ہیں، کے پی اسمبلی میں تو مزید برا حال ہوا۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ ایم ایم اے میں شامل ہونے سے کیا حاصل ہوا اور نقصان کس قدر ہوا؟لگ یہ رہا ہے کہ اپوزیشن اپنی اننگز احتیاط سے کھیلے گی، اندھا دھند کریز سے نکل کر شاہد آفریدی ٹائپ چھکا لگانے کے بجائے وکٹ پر ٹھیر کر رنز بنانے کا ارادہ ہے۔ جمہوریت کے لئے یہ خوش آئند ہے۔ عمران خان نے وزرارت عظمیٰ کا حلف سنبھالے بغیر ہی جو ابتدائی فیصلے کئے ہیں، وہ خوشگوار حیرت کا باعث بنے ہیں۔ یہ وہ عمران لگ نہیں رہا، جو اپنی جلد بازی، منہ پھٹ ہونے، ہر وقت بیان دینے کے چکر میں اکثر پریشانیاں مول لیتا تھا۔ میڈیا سے دور رہ کر عمران خان سنجیدگی سے حکومت بنانے اور سمجھداری سے اپنے ساتھی چننے میں مصروف ہے۔ پہلی بار وہ اپنے تمام فیصلے اس قدر راز میں رکھے ہے کہ اس کے قریبی صحافی تک سن گن نہیں لے پا رہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کے لئے اس نے سرپرائز دیا۔ ڈپٹی سپیکر کی نامزدگی اس سے بھی زیادہ سرپرائز تھی۔یہ دونوں عہدے بالترتیب خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو دے کر ایک سمارٹ موو بھی کر ڈالی۔ پنجاب کے گورنر کا انتخاب بھی میڈیا کے لئے سرپرائز ثابت ہوا۔ عمران خان نے سپیکر کے لئے جاٹ برادری کے سرکردہ رہنما چودھری پرویزالٰہی کو منتخب کیا اور گورنر کے لئے پنجاب کی معروف ارائیں برادری کے ایک ممتاز فرد کو چنا۔چودھری سرور تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی گروپ کا حصہ سمجھے جاتے تھے۔ وزارت اعلیٰ کیلئے اگر اب جہانگیر ترین گروپ کے کسی فرد کا انتخاب ہوا تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ پنجاب میں عام طور سے وزیراعلیٰ اگر سنٹرل پنجاب سے لیا جائے تو گورنر جنوبی پنجاب کا مقرر کیا جاتا ہے، شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں لطیف کھوسہ اور رفیق رجوانہ اور ان سے پہلے مخدوم احمد محمود جنوبی پنجاب کی نمائندگی کرتے رہے۔ اس بار گورنر اور سپیکر سنٹرل پنجاب کے ہیں تو وزارت اعلیٰ کے لئے جنوبی پنجاب سے انتخاب کیا جانا بعید از قیاس نہیں۔دیکھیں عمران خان کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں اشارے دئیے کہ انہیں وزارت عظمیٰ کی بھاری ذمہ داریوں کا اندازہ ہے اوروہ شاہانہ پروٹوکول سے دور رہ کر سادگی کے ساتھ حکومت کرنے کی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔اچھی سوچ ہے ، مگر عمران خان کو اپنے پرجوش ساتھیوںکو کنٹرول کرنا ہوگا جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر بدمزگی پیدا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں نہ رہنے کا جواز اور دلیل موجود ہے، مقصد اخراجات کم کرنا اور اللوں تللوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے، مگر تحریک انصاف کے بے شمار ترجمانوں نے کبھی پنجاب ہائوس ، کبھی وزیراعظم ہائوس کی انیکسی اور کبھی کچھ اور کے نام دے کر میڈیا پر تماشا کھڑا کیا۔ عمل ہزاروں الفاظ اور نعروں سے زیادہ موثر ہوتا۔عمران خان باتوں کے بجائے عمل کر دکھائے اور اپنے ان خود ساختہ ترجمانوں کو روکے کہ وہ میڈیا کی بریکنگ نیوز کا سبب نہ بنیں۔ چیلنجز بہت بڑے ہیں، خان کو چھوٹے چھوٹے ایشوز میں اپنی انرجی ضائع ہونے سے بچانی چاہیے، اصل فوکس ان بڑے کاموں پر کیا جائے ،جو حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔