میرا خیال خام خیالی ہی نکلا کہ نواز شریف جیل جا کر فخر محسوس کریں گے اگر واقعی وہ چور نہیں اور اگر واقعی انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی، پاکستان جیسے ممالک میں کسی بھی سیاستدان کے جیل جانے کو سراہا جاتا ہے، اسے خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، نواز شریف لوگوں کو باور کرا رہے ہیں کہ انہیں سیاسی ،عدلیاتی اور عسکری انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،اگر ان کی سوچ درست ہے تو پھر وہ رو کیوں رہے ہیں؟ پرویز رشید بھی جیل میں نواز شریف کو جاتی عمرہ والی مراعات نہ ملنے کی شکایت کر رہے ہیں، ہمارا خیال تھا کہ پرویز رشید کی ٹریننگ پیپلز پارٹی میں ہوئی ہے اور وہ نواز شریف کا حوصلہ بڑھائیں گے، پھر ہمیں اچانک ن لیگ کا وہ دور یاد آگیا جب نوازشریف پہلی بار وزیر اعظم بنے تھے،پرویز رشید روزانہ رات کو حسین حقانی کے ہمراہ اخبار کے آفس آیا کرتے تھے، وہ نیوز روم سے آنکھیں نیچی کئے ہوئے گزرتے اور ایک دوسرے روم میں اس اخبار کو سنسر کیا کرتے جو آزادی صحافت کے جذبے کے ساتھ میں بحیثیت نیوز ایڈیٹر تیار کیا کرتا تھا، نواز شریف اور ان کی حکومت کیخلاف کچھ لکھنے کی اجازت نہ تھی، جس طرح ضیاء الحق کے زمانے میں ایک میجر رینک کا افسر تعینات تھا اور اس کی چیکنگ اور خبروں کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد اخبار کی کاپی پریس میں جاتی تھی، ویسا ہی برتاؤ نواز شریف کے دور جمہوریت میں ہو رہا تھا،فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے ایک وردی والا اخبار سنسر کرتا تھا اور نواز کے زمانے میں سیاسی ڈکٹیٹر یہ فرائض انجام دیا کرتے تھے، خطرہ صرف ہمارے اخبار سے تھا کیونکہ اس زمانے میں اس اخبار کی سرکولیشن لاکھوں میں تھی، اس دور میں یہ ایک مکمل غیر جانبدار اور متوازن اخبار تھا۔ پھر نواز شریف کی جانب سے اخبار کے چیف ایڈیٹر اور مالک سے فرمائش کی گئی کہ فلاں فلاں صحافی کو ملازمت سے نکال دیا جائے جس میں میرا نام بھی شامل تھا، یہ بھی کہا گیا کہ نواز شریف کے کاسہ لیس نام نہاد صحافیوں کو اخبار کی اہم سیٹوں پر بٹھا دیا جائے، کچھ صحافیوں کے بارے میں حکم دیا گیا کہ ان کی تنزلیاں کر دی جائیں، اس وقت اس اخبار کی انتظامیہ نے نواز شریف کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا تھا، نواز شریف ہی کے پہلے دور حکومت میں ایک دور وہ بھی آیا تھا جب اخبار کے مالکان کو پاکستان بدر ہونا پڑا تھا اور مجھے بھی ان کے ساتھ لندن جا کر جلا وطنی کاٹنا پڑی تھی۔ آپ لوگ میرے انکشاف پر چونکے تو ہوں گے ،مگر اس دور میں ٹھیک ایسا ہی ہوا تھا، پھر نواز شریف کے ہی دور حکومت میں اسی اخبار کے دفاتر کی جانب جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے، اخبار چھاپنے اور اسے مارکیٹ پہنچانے پر بھی پابندی عاید کر دی گئی تھی، اخبار چھاپنے کیلئے کاغذ بھی ختم ہو گیا تھا، کئی دن تک دو صفحات کا اخبار نکالنا پڑا، پھر دو صفحات کا اخبار چھاپنے کے لئے بھی کاغذ ختم ہو گیا تو امیر العظیم نے کسی نہ کسی طور ہمیں تھوڑا سا نیوز پرنٹ بھجوایا تھا،اور ایک دن وہ خود بھی تھوڑا سا نیوز پرنٹ لے کر آئے تھے، ڈیوس روڈ کے تمام اطراف میں ایجنسیوں کے لوگ کھڑے کر دیے گئے تھے، ہم آفس میں محصور ہو کررہ گئے تھے، اگر غلطی سے گھر چلے جاتے تو پھر دفتر واپسی ناممکن ہو جاتی،آج بہت کچھ الٹ پلٹ ہو چکا ہے لیکن ماضی میں نواز لیگ صحافت کے ساتھ کیا کچھ کرتی رہی ؟ میں نے آپ کو صرف کہانی کا خلاصہ سنایا ہے، بتانے کو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ نواز شریف صاحب ! آپ نے تو جیل جا کر بھی ابھی جیل نہیں دیکھی، جیلیں تو وہ تھیں جو آپ کے سیاسی سرپرست جنرل ضیا نے ہمیں دکھائی تھیں، میرے جیسا ایک غریب صحافی بھی پاکستان کی نو جیلوں میں مختلف اوقات میں پانچ سال کی با مشقت قید بھگت چکا ہے، جیلوں میں ہمارا جو روزانہ ملاحظہ ہوتا تھا آپ تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو ایک لائن میں جیل کے صحن میں بٹھایا جاتا تھا،اور حکم ہوتا تھا کہ ہم سر نہیں اٹھا سکتے، ہمیں زبردستی سر جھکا کر بٹھایا جاتا تھا،جیل میں جو دو روٹیاں ملتی تھیں وہ ہم چھپا لیا کرتے تھے تاکہ جب بہت زیادہ بھوک لگے تو ہمارے پاس کھانے کیلئے کچھ تو ہو۔ حیدر آباد جیل میں ہم نے بھوک ہڑتال کی دھمکی دی تو ہمارا راشن بند کر دیا گیا تھا، ہمیں انتیس دن درختوں کے پتے کھا کر گزارنا پڑے، نلکے کا گرم پانی ہمارے سانس زندہ رکھے ہوئے تھا، کئی صحافی اس قید سے رہائی کے بعد مر بھی گئے تھے، ان کے گردے فیل ہوگئے تھے، اور کئی کو خطرناک امراض لگ گئے تھے،انہی مرنے والوں میں گوالمنڈی لاہور کے مکین صحافی الطاف ملک بھی شامل تھے،ان کی بیوی اور بچوں کی کفالت کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا، ہمارے عزم اور استقلال کی وجہ ہمارے صحافتی قائد نثار عثمانی اور منہاج برنا جیسے لوگ تھے اور آپ کے قائد تو آج بھی مارشل لائی جرنیل ہیں، آپ اپنے آقا جرنیلوں کی راہ آج بھی دیکھ رہے ہیں اور آپ کو اصل شکایت بھی یہی ہے کہ آج کے جرنیلوں میں آپ کی پرورش کرنے والے جرنیلوں جیسے اوصاف کیوں نہیں ہیں۔ نواز شریف کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے کہ انہیں شاہی قلعہ کا دروازہ عبور نہیں کرنا پڑا، یہ ہم سے پوچھئے کہ شاہی قلعہ اور وارث روڈ والے لال قلعہ کے زیر زمین سیلوں میں ہم پر کیا گزری؟ جناب ہمیں تو کئی کئی مہینے سورج کو دیکھنے کی بھی اجازت نہ تھی، ہمیں تو دن چڑھنے کا پتہ چلتا تھا نہ رات ڈھلنے کا، ایک بندے کو روٹی دی جاتی تھی اور دوسرے کو اس کے سامنے ننگا کرکے چھتر مارے جاتے تھے،روزانہ نئی نئی اذیتیں دی جاتی تھیں، آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر جسمانی تشدد کئے جاتے تھے،ہزار ہزار وولٹ کے بلبوں تلے اور برف کے بستروں پر لٹایا جاتا تھا ہمیں۔ ہم یہ سب سزائیں مارشل لاِ کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لئے برداشت کر رہے تھے، ہم پاکستان میں نیا سویرا طلوع کرنا چاہتے تھے، ہم غریبوں کی دنیا بدلنا چاہتے تھے، ہم مساوات لانا چاہتے تھے، ہمارے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہماری قربانیوں کا صلہ ہمیں نواز شریف کی مصنوعی جمہوریت کی صورت میں ملے گا، مزدور کو بھٹیوں میں جھلسانے والے ہی مزدوروں کے آقا بن جائیں گے۔۔۔۔ خدا کی قسم ! ہم نے اپنی جدوجہد کا یہ بدلا نہیں چاہا تھا، ہم تو سماج کو بدلنے نکلے تھے کہ کالی دھند نے ہمیں نگل لیا۔مجھے شرم آ رہی ہے کہ تین بار پاکستان کا وزیر اعظم بننے والا شخص جیل پہنچ کر بچوں کی مانند رو رہا ہے، اس نے تو ان لوگوں کو بھی شرمندہ کر دیا ہے جو کبھی اسے ووٹ دیا کرتے تھے۔