بھانت بھانت کی بولیاں سنتے سنتے ہم تنگ آ چکے ہیں۔ عمران خاں نے بھاشا ڈیم کا ایک ایک بار پھر افتتاح کرتے ہوئے یہ فلسفہ سنا ڈالا ہے کہ پہلے والوں نے ہائیڈرو پاور کے منصوبے شروع نہ کر کے اس ملک میں امپورٹڈ فیول کے مہنگے بجلی گھر کے منصوبے لگا کر ہماری معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ شاید وہ بھول گئے کہ وہ بھی اس منصوبے کا آغاز اقتدار میں آنے کے دو سال بعد کر رہے ہیں جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس ان کی مکمل حمایت میں دنیا بھر سے چکر لگا کر 11ارب روپے اکٹھا کر سکے تھے۔ ان عطیات میں سب سے پہلے ہماری مسلح افواج نے اپنی تنخواہوں سے کٹوتی کرائی پھر سرکاری ملازمین کی باری آئی اور آخر میں اظہار یکجہتی کے طور پر ملک کے دوسرے نجی اداروں نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ ثاقب نثار دنیا بھر میں گھومتے پھرتے رہے۔ پھر جا کر یہ رقم اکٹھی ہوئی۔ اس میں سمندر پار پاکستانیوں کا حصہ برائے نام تھا جن پر ہمارے وزیر اعظم کو بڑا مان تھا۔ بلکہ ہر زمانے میں ان سے بڑی امیدیں رہی ہیں جو آج تک تو پوری نہیں ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ نادر خیال اس حکومت کے منصوبہ سازوں کو پہلی بار آیا۔ نہیں حضور‘اس کا پہلی بار افتتاح نواز شریف نے گزشتہ صدی میں کیا تھا۔پھر مشرف کے زمانے میں شوکت عزیز اور زرداری کے زمانے میں یوسف رضا گیلانی نے یہ کار خیر انجام دیا اس میں تاخیر ہمارے نظام حکومت کی ناکامی کی منہ بولتی تصویر ہے تاہم اصل مسئلہ کالا باغ پر ڈیم بنانے کا تھا جسے ثبوتاژ کرنے میں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ان کے دست راست اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے گورنر فضل حق نے بنیادی کردار ادا کیا جنہوں نے شور مچا دیاکہ نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ پھر سندھ سے آوازیں اٹھیں ہماری جنگلی حیات تباہ ہو جائے گی۔ بہت دکھ بھری کہانی ہے جس کو دہرانانہیں چاہتا۔ آخر جنرل مشرف نے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیا آخر کار یوں ہتھیار ڈالے کہ اعلان کر دیا کہ پانچ ڈیم 2018ء تک اکٹھے مکمل کئے جائیں گے بھاشا ‘ کالا باغ‘ مہمند‘ دوسو اور ایک شاید اور۔یہ کالا باغ سے جان چھڑانے کا ایک نسخہ تھا۔ کالا باغ چار پانچ سال میں کم لاگت سے بننا تھا جبکہ بھاشا میں وقت بھی زیادہ درکار تھا ‘ سرمایہ بھی۔ بہت سی تکنیکی رکاوٹیں بھی تھیں۔ یہ اصل مسئلے سے انحراف کا طریقہ تھا۔ سندھ والوں کے جو اعتراض کالا باغ پر تھے عین وہی بھاشا پر بھی ہو سکتے ہیں‘ صرف ایک کے سوا اور وہ یہ کہ بھاشا کی ’’ٹونٹی‘‘ کالا باغ کی طرح پنجاب میں نہیں ہے۔ آخر میں زرداری کے زمانے میں ان کے پنجابی وزیر آبی وسائل راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ کالا باغ کو ایک مردہ مسئلہ سمجھو اس قصے کو ختم جانو۔ آج جب بھاشا کا پھر اعلان ہوا تو پرانے زخم پھر تازہ ہو گئے ہیں۔پاکستان کو جتنا نقصان کالا باغ نہ بننے سے پہنچا کسی اور بات سے نہ پہنچا ہو گا۔ یہ ڈیم اتنا فطری اور آسان تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہم نے تربیلا کو کالا باغ پر اس لئے ترجیح دی کہ یہ تو ہم اپنے وسائل سے بھی بنا لیں گے‘ عالمی اداروں کی امداد سے تربیلا بنا ڈالو۔ یہ بن گیا ہوتا تو کبھی بجلی کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا کبھی یہ سوال نہ اٹھتا کہ بجلی پانی سے بنائیں یا کوئی اور راستہ اختیار کریں۔ یہ سوال ہی کالا باغ کے خلاف سازش سے پیدا ہوا۔ پھر جب بھاشا کا معاملہ شروع ہوا تو عالمی ادارے بھارت کے ہم نوا ہو گئے کہ دیامر بھاشا تو گلگت و بلتستان کے متنازعہ علاقے میں ہے‘ اس لئے ہم فنڈز فراہم نہیں کر سکتے۔جب حالات ٹھیک تھے تو منگلا کے بارے میں کسی نے اعتراض نہ کیا کہ اس کی جھیل کشمیر میں ہے جو اس وقت بھی متنازعہ علاقہ تھا۔ مری ایک طویل عرصے سے یہ رائے رہی ہے کہ اس ڈیم کو کوئی فنڈز فراہم نہیں کرے گا۔ سوائے چین کے ماضی قریب میں ہم نے اسے چین کے سی پیک سے علیحدہ کیا۔ خارجہ پالیسی کی مصلحتوں کا مجھے علم نہیں۔ ان دنوں شہباز شریف کا بیان آیا کہ وہ اس کی چین سے فنڈنگ کرا سکتے ہیں۔ اس وقت بھی اس منصوبے کے افتتاح کے وقت دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ آرمی چیف اس کے افتتاح میں شریک ہوتے ہیں۔ مری نظر میں یہ صرف ایک رسمی بات نہیں کہ آج کل فوج ہر کام میں شامل ہے چاہے کورونا ہو یا ٹڈی دل کا خاتمہ فوج کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور بھی بہت کچھ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور فوج بھی ایک حقیقت ہے۔ مگر اس منصوبے کے تناظر میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ فوج اسے قومی سلامتی کا ایک مسئلہ سمجھ رہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ بھی سرگرم عمل ہیں جو سی پیک اتھارٹی کے سربراہ ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں اس میں چین کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔ گلگت و بلتستان تک جا پہنچے کوئی منصوبہ ایسا نہیں ہو سکتا جس میں چین دلچسپی نہ لے۔ یہ اس کے بھی وقار کا معاملہ ہے اور خطے کی جغرافیائی و تاریخی حیثیت بھی اس کا تقاضا کرتی ہے۔ ہمارے ایک وزیر سے جب یہ پوچھا گیا کہ 1400ارب کا یہ منصوبہ آپ کیسے پورا کریں گے تو ان کا فرمانا تھا کہ 80فیصد سرمایہ ہم فراہم کریں گے۔ پوچھنے والا چکرا گیا ۔ دو سال گزر چکے کچھ بھی نہیں ہوا۔ زیادہ پوچھو تو تحریک انصاف والے عمران خاں کے چندہ اکھٹا کرنے کی صلاحیتیں گنوانے لگتے ہیںاگر پاکستان اپنے تارکین وطن سے توقع رکھتا ہے تو وہ غلط فہمی دور کر لی جائے۔ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ ثاقب نثار کا تجربہ ہی بہت کچھ بتانے کے لئے کافی ہے۔ بھاشا کی تعمیر کا ایک ابتدائی معاہدہ ہو گیا ہے۔ ہم شاید اسے ٹکڑوں میں مکمل کریں گے۔ ہم اسے نو سال کا منصوبہ بتا رہے ہیں‘ مگر ہم نے جو 2047ء تک کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اس میں بھاشا کو شاید 2043ء میں مکمل ہوتا دکھایا ہے۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ پہلی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا یا یہ کہ ہائیڈرو پاور کے بارے میں سوچا تک نہیں۔بھاشا کی 130ارب کی زمین کس نے خریدی ہے۔ پہلے والے بھی بہت کچھ سوچتے رہے ہوں گے۔ مجھے ایک بار نواز شریف نے بتایا کہ فنڈز میسر نہیں ہو رہے۔ بعض مسائل ہوتے ہیں جن کا تذکرہ نہیں آتا۔مثال کے طور پر ایران تیل پائپ لائن بچھانے میں کیا رکاوٹ ہے اور جو وسط ایشیا سے پائپ لائن یا بجلی کی لائن لانے کا ہمیں لارا دیا جاتا ہے وہ کہیں نظر آتا ہے؟ دیکھنا یہ کہ ہم بھاشا کا بھی یہ حال نہ کر دیں۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج درمیان میں آتی ہے۔ علاقے کی سکیورٹی کے لئے یہاں فوج کی 120کمپنیاں تعینات کی جا رہی ہیں۔اندازہ ہے یہ 120کمپنیاں کتنی ہوتی ہیں۔ صرف یہ معاملہ نہیں کہ علاقائی قبائلی مسائل پیداکریں گے۔ ایسا تو ہر ایسے منصوبے میں ہوتا رہتا ہے۔ منگلا اور تربیلا کے مسائل کب تک حل کرتے رہے۔اوکاڑہ چھائونی کے معاملات کا کب تک شور مچتا رہا۔ برخلاف اس کے پنو عاقل کے بارے میں بڑا ہنگامہ تھا۔ نعرے لگتے تھے پنو عاقل نہ کھپے‘ کالا باغ نہ کھپے۔ پنوں عاقل بن گیا اور لوگ اس سے خوش ہیں۔بہرحال فوج کی اتنی بڑی نفری بتاتی ہے کہ یہ منصوبہ ہماری سکیورٹی کا مسئلہ بھی ہے۔ اس پر ہمیں کوئی دبائو قبول نہیں کرنا۔ ایک بات اور عرض کر دوں۔ اس کی تکمیل میں جو مدت درکار ہے وہ یہ بتانے کو کافی ہے کہ پہلے والوں نے کیوں متبادل منصوبے سوچے تھے۔ایک نیلم‘ جہلم منصوبہ تھا جو ایک طرح ترک کرنے کا سوچا جا رہا تھا‘ اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ پھر جو سستے ترین منصوبے ہو سکتے تھے‘وہ اس تیز رفتاری سے مکمل کئے گئے کہ اس کی داد دینا پڑتی ہے۔ کوئلہ‘ گیس ہر آپشن آسان نہ تھا اور ان کی تکمیل بھی وقت مانگتی تھی۔ ایسا نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی رینٹل پاور کے ناکام منصوبہ کا تجربہ نہ کرتی۔ جس کم مدت میں یہ منصوبے مکمل کئے گئے‘ تاریخ کا طالب علم اسے کبھی فراموش نہ کر سکے گا۔ ہوا اور سورج میں اتنی گنجائش نہ تھی کہ ہماری سب ضرورتیں پوری کرنے‘پھر بھی آزمائے گئے جوہری توانائی کی اپنی محدودات تھیں۔ پھر بھی یہ منصوبے بھی حتی المقدور آگے بڑھتے رہے۔ملک میں صنعت و تجارت کیسے ترقی کرتی اگر انرجی نہ ہوتی۔ اس کے بعد ٹیک آف کا مرحلہ تھا‘ مگر ہم نے تو سب کچھ گرائونڈ کر دیا۔خیر کوئی بات نہیں۔اب بھی نئی نئی بولیاں نہ سنائو۔ایک ہی بھاشا درکار ہے اور وہ ہے بھاشا ڈیم کو تیزی سے مکمل کرو اور باقی نامکمل منصوبوں کو بھی تکمیل کی راہ پر ڈالو۔ بات سمجھ آ گئی یا نہیں۔ آ جانا چاہیے۔