وہ ایک نظریاتی جیالا ہے جو اب خال خال نظر آتے ہیں، سوشلزم اور بالشویک انقلاب کا خواب دیکھنے والے، لیکن نسل در نسل کے وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو کے عشق میں گرفتار۔ پیپلز پارٹی نے اسکے ساتھ وہی سلوک کیا جو بے نظیر بھٹو نے اپنے دونوں بھائیوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی میتوں کے ساتھ کیا تھا کہ انہیں اپنے باپ ذوالفقار علی بھٹو کی قبر سے اتنی دور دفن کیا کہ کہیں برسی پر آنے والے کیمروں کی نظر ان تک نہ پڑ جائے یا پھر جیالوں کا ہجوم انکی قبروں پر بھی پھول نچھاور کرنا نہ شروع کر دے۔اقتدار بھی کسقدر ظالم چیز ہے۔ وہ نسلاً گوئندی راجپوت ہے لیکن انگریزوں کے آباد کیے گئے شہر سرگودھا میں پیدا ہوااور اس سے محبت بھی کرتا ہے۔ ایسے بہت سے شہر اور بستیاں نہری نظام کے بعد آباد کی گئی تھیں اور یہاں جنگ عظیم اول کے جانثاروں، فرمانبرداروں اور سہولت کاروں کو وسیع جائدادیں عطا کی گئیں۔اسکے ساتھ ساتھ عام زمین داروں کو بھی حصہ ملا تھا اور انہیں دوسرے شہروں سے بلا کر یہاں آباد کیا گیا تھا۔ انہی شہروں کے وہ چوہدری جو انگریز کو فوج میں بھرتی کرنے کیلئے افراد مہیا کرتے تھے ، ملکہ وکٹوریہ کی تاج پوشی کی تقریبات میں بلائے جاتے، ریذیڈنٹ مجسٹریٹ یا آنریری کپتان بنائے جاتے اور جب علاقے میں انکی دھاک بیٹھ جاتی پھر ایک دن ان سے الیکشن لڑوا کر، انہیں ممبر لیجسلیٹو کونسل بنا کر انکی سیٹ "پکی "کروا دی جاتی۔ انکی اولادیں ہی آج تک اس ملک کی جمہوری نمایندہ ہیں۔ میرا یار فرخ سہیل گوئندی جسکے آباؤاجداد سیالکوٹ سے ہجرت کر کے یہاں "آباد کار" کے طور پر آئے تھے لیکن اس ہجرت کے باوجودبھی فرخ سہیل گوئندی کیلئے کوئی سیٹ "پکی" ہو سکی اور نہ راج دربار میں اسے کوئی کرسی میسر آسکی۔ وہ ایک پیدائشی جہاں گرد ہے اور بقول برٹینڈرسل" جس طرح یہ لازم ہے کہ بچپن میں ہر کسی کو خسرہ ضرور نکلتا ہے اسی طرح تھا یہ بھی ضروری ہے کہ ذہین آدمی کے دماغ میں عین جوانی کے عالم میں باغیا نہ خیالات جنم لیں، دل الحاد کی طرف مائل ہو اور اسے دنیا بدلنے کی دھن میں سوشلزم کا نظریہ دل کو بھانے لگے۔ میرے ساتھ بھی عنفوان شباب میں یہی ہوا تھا اور میرے دوست فرخ سہیل گوئندی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ میں تو اس گرداب سے جلدی نکل آیا اور میرا یہ انقلابی دوست آج بھی لاہور میں قیمتی علاقے "کینٹ" میں گھر، شاندار گاڑی، گورنر ہاؤس کے سامنے بہت بڑے پبلیشنگ ادارے کے دفتر اور حضرت یوسف علیہ السلام کے وطن لبنان سے ایک محبت کرنے والی بیوی، جیسی نعمتوں کے باوجود، ابھی تک سوشلزم کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔وہ ان بچوں کی طرح ہے جو میلوں میں پنگوڑے میں بیٹھ جائیں تو پھر انکا اترنے کو جی نہیں چاہتا، ہر چکر پر وہ ایک اور چکر کی طلب میں اسی میں بیٹھے رہتے ہیں۔ آج کے بوڑوا گوئندی کو ابھی تک سوشلزم مزا دیتا ہے۔لیکن اس سب کے باوجود وہ ہمیشہ میری دعاؤں میں رہتاہے اس لئے کہ وہ ایک صاحب ایمان عطرفروش باپ کا خدمت گزار بیٹا ہے۔ جتنا وہ والدین کی خدمت کر کے خوش ہوتا ہے، انکے حج پرجانے اور مذہب پر کاربند ہونے کا احترام کرتا ہے، اسقدر تو اکثر صاحبان ایمان بھی نہیں کرتے۔ وہ جنرل ضیاء کو آمر لکھتا ہے لیکن میں ضیاء کو ذولفقارعلی بھٹو کی بدترین فیوڈل اور وڈیرہ ذہنیت والی آمریت کا نجات دہندہ تصور کرتا ہوں۔ ہم دونوں نظریات کی دو انتہاؤں پر ہیں ،لیکن مجھے اس سے بات کرکے، اسکے پاس بیٹھ کر، اس سے بحث میں الجھ کر مزہ آتا ہے۔ ایک معاملے میں تو میں اسکا مداح ہوں۔ اس نے وہ کام کیا ہے جس کا رونا میں مدتوں سے روتا چلا آیا ہوں۔ معاملہ یہ ہے کہ دنیا میں علمی و سائنسی ترقی و عروج اور تخلیقی برتری صرف اور صرف اپنی زبان میں علم حاصل کرکے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں دو بڑے علمی انقلابات اس سچ کی گواہی کے طور پر موجود ہیں۔ ایک مسلمانوں کا علمی و سائنسی عروج جو آٹھویں صدی عیسوی سے پندرھویں صدی عیسوی تک دنیا پر چھایا رہا اور دوسرا مغرب خصوصی طور پر انگریز کا عروج جو سترہویں صدی سے آج تک قائم ہے۔ ان دونوں علمی انقلابات کی بنیاد صرف اس حقیقت پر ہے کہ دونوں نے دنیا بھر کے علم کو اپنی زبان میں منتقل کیا تھا۔دونوں نے ترجمے کی تحریکیں شروع کی تھیں۔ عربی اور انگریزی دونوں کا دامن سائنس، فلسفہ، حساب، جغرافیہ، طب، غرض ہر قسم کے علوم سے خالی تھا۔ لیکن دونوں قوموں میں ایک جنون پیدا ہوا کہ پوری دنیا کے علوم کو ترجمہ کر کے اپنی زبان میں منتقل کیا جائے۔خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں ایک مترجم کی تنخواہ تیس ہزار دینار تھی اور برطانیہ میں مترجم کی عزت و تکریم مصنف سے زیادہ تھی۔ میرا دوست فرخ سہیل گوئندی سیاست چھوڑ ،لکھنا لکھا نا پس پشت ڈال اور میڈیا سے کچھ عرصہ کنارہ کش ہوکر صرف اسی دھن میں جت گیا کہ وہ ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کرے اور دنیا کی بڑی کتابوں کا ترجمہ اردو میں شائع کرے۔ کاروباری آداب سے ناآشنا راجپوت، سوشلزم کی سان پر چڑھا ہوا انقلابی اور پیپلزپارٹی کی سیاست کا ڈسا ہوا جیالا، کوئی ایک بھی تجربہ ایسا نہ تھا جو اسے پبلیشنگ کے کاروبار میں کامیاب کرواسکتا ۔ ایک ایسا کاروبار جس پر چھائے بے شمار اجارہ دار کسی کو راستہ نہیں دیتے تھے۔ لیکن اس نے سوشلزم کی دنیا میں ناکامی کے غصے اور پیپلز پارٹی کی سیاست سے ملنے والی نفرت کو جمع کیا اور اس غصے اور نفرت کو توانائی میں بدل کر کتابوں پر کتابیں چھاپنے لگا۔ اتنی کتابیں چھاپتا کہ اگر اس کے دفتر جاتا تو ڈھیر اٹھا کر لے آتا ،مگر ابھی میں پڑھ بھی نہیں پاتا تھا کہ اسکی الماریوں میں نئی کتابوں کی آمد ہو جاتی۔ اس نے صحافت کی لت پوری کرنے کے لیے رسالہ بھی نکالا لیکن شاید یہ اسکے ترجمے اور پبلشنگ کے مشن میں حائل ہو رہا تھا اس لئے اس نے اسے ترک کر دیا۔ وہ ترجمہ اور پبلیشنگ کے کام سے اتنا کم کماتا تھا کہ اسے ضروریات زندگی کی فراہمی کے لیے کالم لکھنے پڑے اور اینکری کرنا پڑی۔ لیکن اس کے "جمہوری پبلیکیشنز" نے کتابوں کا سلسلہ نہ روکا۔ نوم چومسکی سے ترجمے کے حقوق لے کر آیا اور بنگلہ دیش کے بانی مجیب الرحمن کے قتل میں مطلوب و مفرور میجر دالیم کی کتاب شائع کردی، یہی وجہ ہے کہ اپنی جہاں گردی کے باوجود وہ بنگلہ دیش نہیں جا سکتا۔ وہ مجھے حیران کرتا رہتا ہے کبھی اپنے کٹر نظریات سے اور کبھی اپنے جنون سے۔ لیکن اس دفعہ اس نے مجھے مزید حیران کردیا۔ اردو میں خاکہ نگاری یوں تو بہت کم ہوئی ہے لیکن جتنی بھی ہوئی ہے کمال کی ہوئی ہے۔ رشید احمد صدیقی کی" گنج ہائے گراں مایہ" اور "ہم نفسان رفتہ" وہ کتابیں ہیں کہ دل اگر ذرا سا ملول ہو تو انہیں پڑھ لیتا ہوں۔ لیکن پبلیشر اور خاکہ نگار کا باہم ملاپ نقوش کے محمد طفیل کی شخصیت میں تھا۔ وہ آپ، "صاحب" اور "جناب" جیسی کتابوں کے خالق تھے۔ اب کئی برسوں بعد فرخ سہیل گوئندی نے اپنی خاکوں کی کتاب "لوگ در لوگ" مجھے بھیج کر حیران کردیا ہے۔ یہ خاکے ادب کا شاہکار تو نہیں کیونکہ میرا یار سیاسی صحافت کا پروردہ ہے، لیکن ان میں معلومات کا خزانہ ہیں۔ بہت سے خاکے تو چونکا دیتے ہیں، جیسے اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز، خلافت عثمانیہ کی شہزادی، سوبھا سنگھ، اندر کمار گجرال اور خشونت سنگھ جیسے لوگوں کے خاکے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جن تک پاکستان کے لکھاری کی رسائی ممکن نہیں۔ کتاب میں بہت سے ایسے لوگوں کے خاکے بھی ہیں جو میرے بھی ذاتی دوست تھے جیسے منو بھائی، ڈاکٹر انور سجاد اور وارث میر۔ ہوسکتا ہے میں ان شخصیات کے بارے میں لکھتا تو مختلف لکھتا۔ لیکن اس میں میرا تعصب ضرور شامل ہوتا اور اس کتاب کے خاکوں میں فرخ سہیل گوئندی کا تعصب شامل ہے۔ لیکن جب تک ان دونوں تعصبات کو نہ پڑھا جائے صراط مستقیم نہیں مل سکتی۔