جب سے سنا ہے کہ درجن بھر سیاسی اتحادیوں میں سب سے سِر کڈھویں جماعت کے مقبول ترین لیڈر بہ نفسِ نفیس اپنے ایک گھر سے دوسرے گھر پدھارنے کے لیے کمر بستہ ہیں، دل کی دھڑکنیں تیز ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ اس نیک کام کے لیے انھیں صلح و صفائی کے ماحول کی متمنی بہت سی ملی جلی ہستیوں نے فیض احمد فیض کا یہ شعر سنا کے قائل کیا ہے: ویراں ہے مے کدہ ، خُم و ساغر اداس ہیں تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے ہمارے دل میں صلح صفائی کا مادہ اتنا گہرا ہے کہ حرفِ ’ص‘ سے شروع ہونے والے الفاظ دیکھ کے ہی سواد آنے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں ہم نے اپنی صالحیت، صلاحیت ، صوابدید اور صدقِ قلب سے صحیح صحیح کام لیتے ہوئے ایسے حروفِ صالحہ کی لغت نہایت صفائی سے مرتب کی تھی۔ یہ حرف تو ہمیں اس قدر مرغوب ہے کہ ہم سیدھے سیدھے گرم مسالہ پر ’مصالحہ‘ لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کبھی ہمارا بس چلا تو کسی مناسب لغت بان کے تعاون سے ہم ’س، ث‘ کی جبری ریٹائرمنٹ کروا کے جملہ حروفِ تہجی کی قیادت اس عزیزی ’ص‘ کو سونپنے بلکہ صونپنے کا عزمِ صمیم رکھتے ہیں۔ جس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ اِس روکھی پھیکی اور بے صواد دنیا میں دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو ہر طرف صواد ہی صواد سنائی اور دکھائی دے گا۔ اگر زندگی میں کبھی ہمارا کوئی سیاسی جماعت بنانے کا ارادہ بنا تو مسلم لیگ ن، ض، پ، ش، ج کی رعایت سے اُس کا نام یقینا مسلم لیگ ’ص‘ ہی ہوگا۔ صواد کی ایک تازہ بات یہ کہ جب سے ایک مؤقر ادارے کے آگُو کی میاں نواز شریف کی عیادت کو جانے کی خبر گرم ہے، دل بَلیوں اُچھل رہا ہے، وگرنہ تو یہی رَپھڑی دل ملک کے نزاعی حالات سے برداشتہ ہو کر کب سے سینے میں دھرنا دیے بیٹھا تھا۔ قیادت اور عیادت ویسے بھی اپنے میاں صاحب کے دل پسند مشغلے ہیں اور اگر اس میں سعادت کا عنصر بھی شامل ہو جائے تو اس پر سبحان اللہ کہنا تو بنتا ہے۔ بات صرف اتنی سی تھی مگر یار لوگوں نے نہ جانے اس کے ساتھ ساتھ کیا کیا افسانے منسوب کر دیے۔ کسی نے اسے معافی تلافی کا معاملہ قرار دیا، کوئی اسے توسیعِ خدمت کی خواہش کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ کوئی اس پرانے فارمولے کو دہرا رہا ہے کہ ’بڑا مزہ اس ملاپ میں ہے، جو صلح ہو جائے جنگ ہو کر۔‘ ایک بدتمیز بلاگر نے تو حد ہی کر دی۔ دونوں صاحبان کی تصاویر کے نیچے حکیم مومن خاں مومن کا یہ شعر رقم کر دیا : اِس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کِیا ذلیل مَیں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بَل گیا ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنے بڑے میاں صاحب نہایت صلح جُو طبیعت کے مالک ہیں۔ اتحاد و اتفاق تو گویا اُن کی گھٹی میں پڑے ہیں۔ کسی زمانے میں وہ محض ’اتفاق‘ کی برکتوں سے مستفید ہوتے تھے، آج کل اتحاد کی نعمت سے مالا مال ہیں۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جس طرح ہمیں حرفِ ’ص‘ بہت پسند ہے، اسی طرح اپنے میاں صاحب کو ’ج‘ کا حرف بہت مرغوب ہے۔ کس کو علم نہیں کہ ان کے سیاسی اتار چڑھاؤ میں بھی کئی طرح کی ’جیموں‘ کے بہت کرشمے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک تو وطنِ عزیز کی چار معروف جیموں کا جَیم بنا کے جیب میں رکھنے کی تمنا تو ہمیشہ ان کے بے چین دل میں مچلتی رہی ہے۔ سنا ہے ایک بار اُن کے راستے میں دو جیم والے جونیجو آ گئے تو ترقی کا سفر دوگنا ہو گیا تھا۔ اب اگر ان کی تھوڑی سی جرأت اور جمع تفریق سے ملکی معاملات سدھر سکتے ہیں اور ’ج‘ ہی سے مستقبل کا کوئی جگاڑ لگ سکتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ کسی کو اس رواداری سے منفی مفہوم نکالنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس ملاقات کا ایک مقصد میاں صاحب کو واپسی کا وعدہ یاد دلانا ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں عطا ء الحق قاسمی کی زبان میں یہ بات شاعرانہ وضاحت کے ساتھ سمجھائی جا رہی ہو کہ: گھر کو جانے والے رستے اچھے لگتے ہیں آ جاؤ کہ ساتھ تمھارے اچھے لگتے ہیں ولیم ، پیٹر ، ڈکسن ، ڈیوڈ ، ہیری سے کیا لینا ہمیں تو اپنے ماجھے گامے اچھے لگتے ہیں پھر اس ملاقات کا ایک مفید مقصد میاں صاحب کو یہ باور کرانا بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے سے چھوٹے سے چھوٹے سیاسی امراض کے علاج کے لیے یار لوگوں کو زحمت کر کے لندن یاترا کا کشٹ اٹھانا پڑ رہا ہے، جس میں عقیدت اور معرفت کا سفر تو یقینا تیزی سے طے ہوتا ہے لیکن پیسے اور وقت دونوں کی اچھی خاصی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اس لیے آپ ذرا سی زحمت اور مہربانی کر کے اپنا خاندانی کلینک ہی اٹھوا کے یہیں چلے آئیں۔ اب تو وطنِ عزیز میںآپ کے برادرِ خُرد کی حکومت ہے، چاروں جانب اتحادی وزرا کا پہرا ہے۔ کوتوالِ شہر بھی موافق ہے، جسے کسی خصوصی خدمت کے لیے ہی صوبائی حدود سے اَدھی چھٹی کروا کے وفاقی دارالحکومت منتقل کیا گیا ہے، اس لیے آپ یہ گیت پورے ردھم کے ساتھ گاتے ہوئے بے نظیر ایئرپورٹ سے بے دھڑک برآمد ہو سکتے ہیں کہ: میرے پیا بھئے کوتوال ، اب ڈر کاہے کو اس مبینہ دورۂ خیر سگالی کا ایک سبب یہ بھی ممکن ہے کہ میاں صاحب کو دلائل کے ساتھ سمجھایا جا رہا ہو کہ ان دنوں اتحادی جماعتوں نے چونکہ مفید میڈیا کی مدد سے ایک ماحول بنایا ہوا ہے کہ عمران خان ایک ڈرپوک لیڈر ہے، گرفتاری کے خوف سے جس کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نہ صرف فی الفور واپس تشریف لے آئیں بلکہ رانا ثنا اللہ اور خواجہ آصف کے مضبوط ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر، مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کو میمنہ میسرہ بناتے ہوئے، دبنگ انداز میں اسلام آباد سے لاہور کا ایک پھیرا بھی لگا لیں۔ امیدِ واثق ہے کہ میاں جاوید لطیف اور علیم خاں کی قیادت میں عوام کا ایک جمِ غفیر مینارِ پاکستان سے کالا شاہ کاکو تک آپ کا استقبال کرے گا۔ راستے میں راجا پرویز اشرف، خرم دستگیر اور سالک و شافع کی لگائی ہوئی سبیلیں بھی سفر کو لذیذ بنانے میں معاونت کریں گی۔ اس طرح آپ کی دلیری اور شجاعت کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ لوگ آپ کی شخصیت کے طلسم میں مبتلا ہو کر جُوق در جُوق اُمڈے چلے آئیں گے۔ اس کے بعد بقول مریم اورنگ زیب، مخالفین کے چند سو نفوس پر مشتمل جلسوں کے جواب میں آپ مختلف شہروں میں لاکھوں افراد پر مشتمل آٹھ دس جلسے کر ڈالیں، جو ظاہر ہے کثیر جماعتی اتحاد کے ہوتے ہوئے آپ کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ اس طرح خود ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اگر پی ٹی آئی کے حامی گرفتار افراد کو دیے جانے والے کمزوری و بزدلی کے طعنوں میں رنگ بھرنا ہے تو اپنے کچھ مضبوط اعصاب والے سیاسی حلیف اور چند وفادار صحافی بہادری کی دھاک بٹھانے کے لیے بِلا خوف و خطر پنجاب حکومت کے حوالے کیے جا سکتے ہیں، پرویز الٰہی کو تو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ یہ ساری کی ساری نرسری ہم نے اپنے ان گنہگار ہاتھوں سے لگائی ہوئی ہے!!!