کالج ہوسٹل میں داخلہ لئے مجھے تیسرا دن تھا۔یہ سردیوں کے آغاز کی بات ہے! شام کے دُھندلکے میں ہوسٹل کینٹین کے لان میں بیٹھا میں دودھ جلیبی سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔میں نے دیکھا کہ میرے پاس ہی ایک صاحب منٹوؔ کے سے انداز میںکُرسی پر آلتی پالتی مارے کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔وہ ’’ قِصّہ چہار درویش ‘‘ کا کوئی درویش لگ رہے تھے۔ بظاہر وہ بڑے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔’ میں ان درویش کی جانب مُتوجّہ ہوا۔سلام دُعا کے بعد عرض کی،’’حضرت ! نومبر کی یہ خُنک شام واقعی بڑی اُداس کُن ہے، لیکن آپ کے اس انداز نے تو ماحول کو باقاعدہ سوگوار بنا دیا ہے! خیر تو ہے !‘‘ وہ صاحب فرمانے لگے کہ میرا نام گلزارہے، میں نے ایم ایس سی سائیکالوجی میں داخلہ لیا ہے، بعض وجوہات کی بنا پرہوسٹل میں داخلہ نہیں لے سکا۔ایک دوست کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہ رہا تھا ،وہ کسی مسئلے کی وجہ سے مُستقل گائوں چلا گیا ہے ۔سرِدست کوئی رہائش نہیں ہے،دو ایک روز میں کہیں بندوبست ہو جائے گا ،لیکن ابھی پریشانی ہے کہاں جائوں!!‘‘ میرادل پسیج گیا،میں نے فوراً کہا ،’’ کوئی مسئلہ نہیں ہے ،میرا کمرہ حاضر ہے۔، جب تک انتظام نہیں ہوتا آپ میرے پاس ٹھہریں۔‘‘ کہنے لگے آپ کو تکلیف ہو گی، ویسے ہے تو صرف دو چار دن کی بات‘۔ میں نے کہا، ’ کوئی بات نہیں ، آپ اپنا سامان وغیرہ لے آئیں ‘۔ اس پر گلزار صاحب نے ساتھ پڑا اپنا بیگ اُٹھایا اور میرے ساتھ چل دئیے۔ گلزار صاحب سے ملاقات اور اُن کا میرے کمرے میں قیام میری زندگی کے اُن عجیب ترین واقعات میں سے ہیں۔ آپ ایک انتہائی عجوبہ قسم کی شخصیّت کے مالک تھے ۔آپ کا تعلّق انسانوں کی اُس قسم سے تھا جنہیں دیکھ کر خودکُشی کی تمام "Theories" بالکل "Justified" لگنے لگتی ہیں۔ ایم ایس سی سایئکالوجی میں داخلہ لیا تھا اور سچّی بات ہے کہ انہیں ضرورت بھی اسی سبجیکٹ کی تھی۔یہ بالکل ایسے ہوا تھا جیسے کوئی دمے کا مریض چیسٹ سپیشلسٹ بننے چلا ہو۔موصوف میرے کمرے میں تشریف لائے تو صرف دوچارروز قیام کی بات کی تھی لیکن صاحب ! دو چار روز گُزر گئے۔دوچار ہفتے گُزر گئے۔گلزار صاحب نے ناجانا تھا نا گئے۔ جب کبھی اُن سے بصد احترام پوچھا جاتا کہ جناب آپ کے دوچار دن کب ختم ہو رہے ہیں تو وہ بگڑ جاتے اور اگر آگے سے اُن کے غصے کے جواب میں ذرا زیادہ غصہ دکھایا جاتا تو مُنہ نیچے کر کے ممیانے لگتے۔ ایسے میں ہماری وضع داری اور مُروّت آڑے آ جاتی اور بات آئی گئی ہو جاتی ۔ اُن کی ’’دو چار‘‘ دن کی بات بھی شاید شاعرانہ انداز میں پوری زندگی کی طرف اشارہ تھا ، یعنی ’’ عمرِ عزیز مانگ کے لائے تھے چار دنــ‘‘ ۔اُن کا عمل تو بس ’’بیٹھ گئے حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے ‘‘پر پورا اترتا تھا۔اُن کی ہر عادت اُن کو دوسروں سے مُنفرد اور ’مُمتاز‘ بناتی تھی۔ مثلاً نہانا آپ کے نزدیک ایک قبیح عمل اور وقت کا ضیاع تھا۔ڈھٹائی آپ کا واحد ایجنڈا تھا جس پر وہ بڑی مُستقل مزاجی سے عمل پیرا تھے۔ ایک رات ہوسٹل انتظامیہ کی طرف سے چھاپا پڑا ! مقصدکمروں میں گھُسے "Out Siders" کو نکالنا تھا۔ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ چلو آج ہمارے ’’ گھُس بیٹھیے ‘‘ سے بھی جان چھوٹ جائے گی لیکن ہوسٹل وارڈن صاحب کمرے میں تشریف لائے اور گلزار صاحب کے متعلق جاننے کے بعدہماری ہی انکوائری شروع کر دی کہ، ’ یہ کون ہیں؟کب سے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ایسے میں ہمیں وہ دیہاتی یاد آ رہا تھا جس کے گھرمیں چوری ہوگئی،اُس کی شکایت پر تھانیدار صاحب آئے اور موقعہ ملاحظہ کے بعددیہاتی کو دھمکاتے ہوئے اُس پر سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی کہ ’ تالہ بڑا کیوں نہیں لگایا تھا؟ تمہاری چارپائی دروازے پر کیوں نہیں تھی؟نقدی وغیرہ بینک میں کیوں نہیں رکھی تھی؟دیہاتی نے عرض کی ،’ حضور میری غلطی بجا ! لیکن کوئی تھوڑا بہت قصور اُس چور کا بھی بنتا ہے یا نہیں !‘‘ ۔ میں بھی وارڈن صاحب سے یہی کہنا چاہ رہا تھا۔۔خیر ! گلزار صاحب اس کے بعد بھی کہیں نہیں گئے اور ہوسٹل میں ہمارے قیام کے پورے دو سال وہیں براجمان رہے۔ کامل دو سال گزرنے کے بعدجس دن میں ہوسٹل چھوڑتے ہوئے اپنا سامان لے کر نکل رہا تھا تو گلزار صاحب کمرے میں آرام کر رہے تھے۔میں نے ارادہ پوچھا توکہنے لگے،’ آپ بے فکر ہو کے جائیں ، ’’ دو چار‘‘ گھنٹے آرام کر کے میں بھی نکل جائوں گا۔ میں انہیں اللہ تعالیٰ اور وارڈن کے سپرد کر کے نکل گیا۔اس کے بعد بیس سال ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ چند دن پہلے میں انٹرنیٹ پر لوگوں کے مُتشدّد اور نامناسب رویّوں اور قتل و خودکشی کے بڑھتے رجحان کی وجوہات ڈھونڈ رہا تھا۔اس دوران فیس بُک پر کسی گلزار نامی شخص نے "Friend Request" بھیجی جسے میں نے "Accept" کر لیا۔ اگلے دن ـ"Chat" کے دوران کھُلا کہ یہ وہی ’کرم فرما‘ ہیں جن کی طفیل ہوسٹل لائف کے سہانے لمحات اک ڈرائونا خواب بن کے رہ گئے تھے۔انہوں نے ملاقات کی خواہش کی جسے میں نے نا چاہتے ہوئے قبول کر لیا۔اُسی شام وہ میرے گھر چائے پے تشریف فرما تھے۔گلزار صاحب کو دیکھ کر مجھے اپنے ہاسٹل کا کمرہ اور اُس کمرے میں ان کے مسلسل دوسال کے ’’عاجزانہ قبضے ‘‘ کے مناظر نظر آ رہے تھے۔ بات چیت کے دوران گلزار صاحب نے بیتے بیس سالوں میں اپنی مسلسل ناکامیوں کی اک طویل داستان سُنائی اور اس کے بعد کہنے لگے، ’’روزی روٹی کی تلاش میں مُختلف شہر پھرتا رہا، چند دن پہلے ہی لاہور آیا ہوں، ابھی رہائش کا بندوبست نہیں ہے۔اچھا تو نہیں لگتالیکن !! کُچھ مناسب انتظام ہونے تک۔ اِدھر اپنے پاس جگہ دے دیں تو!! ‘‘۔ چائے کی پیالی میرے ہاتھ سے گرتے گرتے بچی۔میں نے لرزتے ہوئے پوچھا، ’ کب تک؟‘۔ کہنے لگے،’’ یہی دو چار دن‘‘، گلزار صاحب کے الفاظ،گویا،دو چار ہتھوڑے تھے جو میرے سر پر لگے۔ ایک منظر میری نظروں کے سامنے گھوم گیا۔ نامناسب رویّوں اور قتل و خودکُشی کے بڑھتے رُجحان کی ایک وجہ مجھے سمجھ آگئی تھی۔