ہمارے دوست دیدہ دلیر کا کہنا ہے کہ اتنا لہور تو خود لاہور میں نہیں ملتا، جتنا مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں میں ملتا ہے۔ اپنے اس دوست کی بات کو خواہ مخواہ کے مبالغے کی نظر ہونے سے بچانے کی خاطر ایک سچا واقعہ بھی سن لیجیے۔ دو ایک سال ادھر کی بات ہے کہ لاہور کالج یونیورسٹی سے ایم فِل کی سند کے حصول کے لیے لکھا گیا ایک تحقیقی مقالہ زبانی امتحان کی غرض سے میرے پاس آیا، جو مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں میں لاہور کے مختلف مقامات کی نشان دہی کی ایک کاوش تھی۔ مجھے یہ دیکھ کے حیرت ہوئی کہ محققہ نے اپنے موضوع کو مال روڈ کے اندر کے لاہور تک محدود رکھا ہوا تھا ۔ میرے استفسار پر محترمہ نے وضاحت کی کہ تارڑ صاحب کی تحریروں میں لاہور کا اتنا کھلارا ہے کہ اس درجے کے مقالے میںبہ مشکل اتنا ہی لاہور سمیٹا جا سکتا تھا۔ جب یہی تھیسز اپنے حکیم جی کی نظروں سے گزرا تو وہ ہمیشہ کی طرح ہتھے سے اکھڑ گئے، فرمانے لگے : اگر موضوعات کی تحدید کا یہی عالم رہا تو اس طرح اس عزیزی کے اسی ایک پہلو پہ درجنوں مقالے لکھوانے پڑیں گے!! اور آیندہ لکھے جانے والے مقالوں کے موضوعات ظاہر ہے اس طرح کے ہوں گے: مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں میں گلبرگ… تارڑ اور شاہدرہ… لاہور کی سڑکیںاور تارڑ… لاہور کے سینماؤں میں تارڑ کے نقوش… ڈی ایچ اے میں تارڑ کی فتوحات… لاہور کی منڈیاں اور تارڑ… لاہور ریڈیو میں گونجتا تارڑ… پی ٹی وی لاہور کا لشکارا اور تارڑ… لاہور کے پبلشرز اور تارڑ … لاہور کی غیر معروف آبادیاں اور تارڑ … لاہور کے ممنوعہ مقامات اور تارڑ … لاہور کے ناکے اور تارڑ … گجرات سے لاہور کا جی ٹی روڈ اور تارڑ … پھر ذرا سا مزید متردد ہو کر فرمانے لگے: یہ سلسلہ اسی طرح دراز ہوتا رہا تو ’’ماڈل ٹاؤن اور تارڑ‘‘ کے موضوع پر تو باقاعدہ پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھوانا پڑے گا، کیونکہ یہاں کے گلی کوچوں، بازاروں، دکانوں اور پارکوں، پلازوں کی تو ان حضرت نے اتنی سیر اور ان پہ اس قدر سیر حاصل گفتگو کی ہے کہ یار لوگ پہلے ہی اس کی معروف سیر گاہ کا نام ’ماڈل ٹاؤن پارک‘ کی بجائے ’ تاڑل ٹاؤن پارک‘ رکھنے کاسوچ رہے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر جتنی سیر اس اکیلے نے کی ہے، اتنی سیر اگر اس کے تمام ہم عصر ادیب مل کے بھی کر لیتے تو ان کی اپنی نہ سہی کم از کم ان کے ادب کے صحت مند ہونے کے کافی امکانات ہو سکتے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ لاہور جیسے بڑے اور مفادات سے بھرے شہر میں رہ کے اس نے مقتدر ایوانوں کی جاروب کشی نہیں کی،سیاست دانوں کے تلوے نہیں چاٹے، ریاست برداروں کے بوٹ پالش نہیں کیے، زبان و ادب کے فروغ کے لیے بنے نام نہاد دفاتر کی کرسی کے لیے کسی کی ناز برداری نہیں کی۔ حالانکہ کوئی باقاعدہ روزگار نہ ہونے اور ایک جینوئن قلم کار ہونے کی بنا پر وہ سب سے زیادہ حق دار اور اہل تھا۔ ساری عمر قلم کی مزدوری کی، اور اسی سے اپنا رزق کمایا۔ لاہور کے بڑے بڑے پبلشروں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ادیبوں کی رائلٹی کے بارے میں اس لیے نہیں سوچتے کہ ساری عمر ’’پب‘‘ اور ’’شر‘‘ کے حصار ہی سے نہیں نکلتے۔ یہ غالباً پاکستان کا واحد ادیب ہے جس نے اس مقولے کو سرِ بازار رسوا کیا ہے۔ دریائے چناب کے کنارے واقع موجودہ تحصیل پھالیہ کے ایک گاؤں جوکالیاں ضلع منڈی بہائو الدین کے ایک کسان چودھری رحمت علی تارڑ کے گھر یکم مارچ ۱۹۳۹ء کو پیدا ہونے والے اس بچے نے پہلا سفر لاہور کا کیا ۔ یہ شہر اسے اس قدر بھایا کہ دنیا بھر کے تمام جنت نظیر ممالک میں رہائش اور مستقل قیام کی جملہ سہولتوں کے باوجود یہ ہمیشہ اسی کی کشش میں کھنچا چلا آیا۔ بیڈن روڈ میں منٹو کا ہمسایہ رہا۔گلبرگ کی مکہ کالونی میں حبیب جالب کی’ دھکا کالونی‘ کا چشم دید گواہ اور ’گواہنڈی‘ بنا رہا۔ آج کل ڈیفنس کی نئی اور نفیس آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔ گزشتہ پون صدی کا لاہور اس کی پوروں اور پپوٹوں پہ دھرا ہے۔ جس طرح کل کا اصلی اور سچا دلی آج میر کی غزلوں، سودا کے شہر آشوبوں اور غالب کے خطوط سے برآمد ہو رہا ہے۔ اسی طرح لمحۂ موجودکا کھرا اور خالص لاہور، ان شااللہ مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں میں محفوظ رہے گا۔ یہاں سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ لاہور کس قدر کافر محبوبہ ہے کہ عوام سے خواص تک سب اس کے طلسم میں گرفتار ہیں۔ کہیں سے آوا ز آتی ہے: ’’جِنّے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمیا ای نئیں‘‘ کوئی لاہور کا روڑا اللہ کے گھر پہنچ کے بھی پکارتا ہوا ملتا ہے کہ: ’’ رب دا گھر تے رب دا گھر ، پر لہور لہور ای اے‘‘ کنہیا لعل کی تاریخ سے پطرس کے جغرافیے تک کس کس انداز سے اسے ناپا اور تولا نہیں گیا۔ ناصر کی شاعری سے منٹو کے افسانوں تک ،اس کا کون کون سا پہلو زیرِ بحث نہیں آیا۔ ماضی کے اوراق میںجھانک کے دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ماضی میں یہ کیسے کیسے عظیم اور خبیث لوگوں کی جائے پناہ رہا ہے۔ چھوٹے بڑے ادیب تو باقاعدہ اس کے عاشقوں میں شمار ہوتے ہیں۔گزشتہ دنوں برادرم محمود الحسن کی تازہ ترین کتاب ’’لاہور: شہرِ پُرکمال‘‘ سامنے آئی، جس میں بھارت میں جا بسنے والے معروف ترین ادیبوں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیا لال کپور کی اسی شہرِ بے مثال کی محبتوں کو آئینہ کیا گیا ہے۔ آج بھی دیکھیے کہیں ڈاکٹر فخر عباس اپنے اس عام سے شعر میں اس شہر کے دلچسپ تذکرے سے بے حساب شہرت سمیٹتے نظر آتے ہیں: یہ جو لاہور سے محبت ہے یہ کسی اور سے محبت ہے اور کہیں معروف نوجوان شاعر رحمان فارس اپنی داستان کو اس طرح رنگین بناتے ہیں: جب اس کی زندگی میں کوئی اور آ گیا مَیں بھی گاؤں چھوڑ کے لاہور آ گیا اپنے حکیم جی تو اتنے نَیب نواز واقع ہوئے ہیں کہ ہر بات میں تفتیش و تشویش کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں، فرماتے ہیںکہ اب ایک ٹھیک ٹھاک قسم کی تحقیق اس پہلو پہ بھی ہونی چاہیے کہ : معاملہ یہ اب تو زیرِ غور آ گیا کون کون کس طرح لہور آ گیا