یہاں امریکہ میں ویک اینڈ بڑی نعمتوں میں شمار ہوتا ہے! جمعے کو کام سے فراغت، بیشتر ملازمت پیشوں کو، اگلے دو روز کے لیے ع اب یہاں کاروبار ہیں سب بند کی نوید سناتا ہے۔ ہفتے کا روز تھا۔ ناشتہ کر کے، چائے کا کپ اٹھا، میں گھر کے پورچ میں آ بیٹھا۔ صبح کا وقت، موسم خوشگوار، ایسے میں دل کی کلی کیوں نہ کھِلتی! تِس پر پرندوں کی چہچہاہٹ، سرخ پھولوں کی ڈہڈہاہٹ اور ساتھ ہی، بقول ِاقبال، اْودے اْودے، پیلے پیلے، نیلے نیلے پیرہنوں کی قطار! دل کی عجیب کیفیت تھی۔ خدا جانے، کتنا وقت یہ سیر دیکھنے میں بیت گیا۔ وقت کیا گزرا، دل پر ایک عالم گزرتا رہا۔ ایسے میں خیال آیا کہ اس ذرا سے منظر کی پہنائی میں آدمی ڈوب ڈوب جاتا ہے، تو کشمیر جنت نظیر کو دیکھنے والے فیضی پر کیا گزری ہو گی، جس نے کہا تھا کہ ہزار قافلۂ شوق می کند شب گیر کہ بار ِعیش کشاید بہ خطۂ کشمیر اس کیف اور کیفیت کا سلسلہ، دروازے کی کھٹکھٹاہٹ نے توڑ ڈالا۔ میری نیند کھٹکے کی ہے، اور یہاں بھی جاگتے میں، گویا خواب دیکھا جا رہا تھا، سو بہت گراں گزرا۔ چھٹی کے دن کسی کے گھر، بن بلائے اور وہ بھی علی الصباح! یعنی ہر اعتبار سے غیر امریکن فعل! میں بڑی بیزاری اور الکساہٹ سے اٹھا کہ دیکھوں کہ یہ بے وقت کی راگنی، آخر کیوں چھیڑی گئی ہے! دروازہ کھولا۔ سامنے ایک خضر صورت بزرگ نظر پڑے۔ ان کا چہرہ مہرہ اور حلیہ، ایسا تھا کہ دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ چوڑی دار پاجامہ، بر میں اچکن، سر پر محراب نما خاصی اونچی اور گول ٹوپی، پیروں میں گرگابی- کم از کم ستر برس کا سِن۔ لگتا تھا کہ چہرہ عمر سے زیادہ تفکر نے جھْریایا ہے۔ چھڑی کے مٹھے پر دونوں ہاتھ ٹکائے، وہ بھی مجھے تک رہے تھے۔ میری محویت کو پچھلی صدی کی ان یادگار بزرگ کے ’’آداب‘‘ نے ختم کیا۔ میں نے گھبرا کر ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا۔ آداب کے جواب میں وعلیکم السلام سن کر، ان بزرگوار کے چہرے پر لمحہ بھر کو، مسکراہٹ کھیل گئی۔ کہنے لگے کہ میاں! بڑی دور سے میں، ٹلکتا ٹلکتا پیدل چلا آ رہا ہوں۔ کیا اندر آنے کو نہ کہو گے؟ میں پہلے ہی کچا ہو رہا تھا۔ اس فقرے نے تازیانے کا کام کیا۔ معذرت کِہ کر، انہیں ساتھ لیے، میں بیٹھک میں آ گیا۔ صوفے پر بڑے تکلف سے, بیٹھ کر، انہوں نے اچکن کا اوپر کا بٹن کھول دیا اور چھڑی یوں سامنے ٹکا لی کہ اس کے دستے پر بایاں اور بائیں پر دایاں ہاتھ تھا۔ گھر میں ان کے لیے ناشتے کا کِہ کر، میں واپس بیٹھک میں، ان کے سامنے آ بیٹھا۔ بْشرے سے وہ کچھ شناسا دکھائی دیتے تھے، مگر ہزار یاد کرنے پر بھی، ذہن میں ان کا تعارف یا نام نہ ابھرا۔ جھجکتے جھجکتے انہی سے دریافت کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میاں، میں اکبر ہوں! بجلی کی طرح ذہن میں، اکبر الٰہ آبادی کی وہ شبیہ آ گئی، جو اواخر عمر کی ہے۔ میں ششدر رہ گیا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں اور رکتی رکتی آواز میں، بدقت کہا کہ اکبر الٰہ آبادی؟ وہ مسکرا کر بولے کہ جی ہاں! اکبر ’’الٰہ آبادی‘‘! ان چند منٹوں میں ہی، ان کی’’مقفع و مسجع‘‘ گفتگو اور ہرچند ’’منقع‘‘ لیکن ساتھ ہی مقطع صورت نے، بڑا اثر ڈالا تھا۔ حواس کچھ بحال ہوئے تو میں نے پوچھا کہ حضرت، آپ یہاں کیسے؟ آپ کے تو انتقال کو بھی پوری صدی ہونے کو آئی۔ کہنے لگے کہ میاں، الحمد للہ خْلد آشیانی ہوں۔ آج ہم سب کو، ایک دن کے لیے، یہ اجازت دی گئی ہے کہ اِس عالم ِرنگ و بو میں واپس آ کر،جہاں جی چاہیں، جا سکتے ہیں۔ امریکہ دیکھنے کا، مجھے یوں بھی اشتیاق تھا اور ان کی ترقیوں کے فسانے کانوں میں گھْسے پڑتے تھے، سو اس ملک کے دارالخلافہ کو منتخب کیا۔ اَور معلومات کے ساتھ، مجھے یہ خبر بھی لگی تھی کہ تمہارا ایک بہت بڑا مداح، اس شہر میں بستا ہے۔ بس پتا پوچھتا پوچھتا، تمہارے دروازے تک آ پہنچا۔ امریکنوں کے بارے میں جو کچھ خبریں سنتا تھا، یہ اس سے بڑے مختلف نکلے۔ تمہارے گھر تک کا سفر کچھ کم اور آسان نہ تھا۔ مگر جس سے بھی راستہ پوچھا، اس نے دس پانچ قدم، ساتھ مشایعت بھی کی۔ شاید ان کی ترقی میں بڑا ہاتھ، ان کی مہمان نوازی کا ہو۔ پھر بولے کہ اِس دنیا کا حال اور اس کی خبریں، مجھ کو پہنچتی رہیں۔ میرے اٹھ جانے کے بعد کی موٹی موٹی باتیں، اب تم بتائو۔ مجھے یاد تھا کہ اکبر الٰہ آبادی کا انتقال، 1921 میں ہوا تھا۔ چنانچہ پچھلی ایک صدی کے اہم واقعات، جو مجھے یاد تھے، انہیں سنانے لگا۔ اکثر قصے ان کے سنے ہوئے لگتے تھے۔ لیکن کہیں کہیں وہ حیرت اور استعجاب میں، آگے کو جھک آئے۔ تاریخ ِعالم جو کچھ حافظے میں تھی، وہ سنا کر، بر ِصغیر کا رخ کیا۔ قیام ِپاکستان اور اس کے جملہ اسباب سے، وہ بخوبی واقف تھے۔ اس لیے صرف اہم واقعات مع تبصرے کے بیان کیے۔ اس دوران وہ بالکل خاموش رہے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے، کھْلتا نہ تھا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ اپنی والی ساری معلومات دے کر، خیال آیا کہ کیوں نہ ایک انٹرویو لیا جائے۔ آغاز میں نے اس طرح کیا کہ آپ نے پچھلی صدی کی ترقیاں، جنہیں آپ تنزلیاں کہتے تھے، دیکھ رکھی ہیں۔ آج کے دور کا حال آپ نے کچھ دیکھ اور سن لیا، اسے کیا کہیے گا؟ وہ پھٹ ہی تو پڑے۔ ارے میاں، کیسی ترقی اور کہاں کی ترقی؟ اس ذرا سی مشی میں، بڑی بڑی چمکیلی موٹریں بھی دیکھ لیں اور سڑک کنارے پڑے، بے گھر اور بھکاری بھی! جس سرمایہ دارانہ نظام میں مجھے ایک صدی پہلے نظر آئی تھی، وہ اَور دے بھی کیا سکتا تھا؟ تم میرے بڑے مداح بنتے ہو، کیا سنا نہیں تم نے؟ لاکھوں کو مٹا کر، جو ہزاروں کو ابھارے اس کو تو میں دنیا کی ترقی نہ کہوں گا شعر مجھے بھی یاد تھا۔ مگر کلام ِشاعر بزبان ِشاعر، اور پھر ان کی خاص پڑھنت! میں پھڑک گیا۔ ایسا لگا کہ کیپٹل ازم پر، اس سے بہتر تبصرہ، ممکن ہی نہیں۔ اب وہ بول رہے تھے اور میں سن رہا تھا۔ کِہ رہے تھے کہ معاشی میدان میں، جب بڑے سرمایہ داروں کے گھوڑے، بگٹٹ دوڑیں گے، تو ما و شما، پِستے اور کْٹتے ہی رہیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ کی بات بجا، لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ اسی نظام کی برکت سے دنیا اور خصوصا امریکہ، کہاں سے کہاں پہنچ گیا! وہ جل کر بولے کہ یہ بتائو کہ اس نظام کی ’’برکت‘‘ سے، دنیا سے غربت، کیا ختم ہو گئی؟ مجھے یاد آیا کہ چند سال پہلے، ایک رپورٹ سامنے آئی تھی، جس کے مطابق دنیا کے وسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اس ایک دنیا میں، کم از کم دو دنیائیں بخوبی بَس اور پَل سکتی ہیں۔ اور صرف امریکہ میں غذا کا اتلاف, اس پیمانے پر ہوتا ہے کہ جس سے آدھے افریقہ سے بھوک کا خاتمہ ہو جائے۔ یہ بات انہیں بتائی تو ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولے کہ اب بتائو، یہ ترقی ہے کہ تنزل؟ معاشیات میں یوں بھی، میں خاصا کمزور ہوں۔ اور ان کے تابڑ توڑ، تْرکی بہ تْرکی جوابات نے مجھے بوکھلا دیا تھا۔ سوچا کہ کیوں نہ بڑے میاں پر چوٹ کی جائے۔ دیکھتے ہیں کہ خود ان میں سہار کتنی ہے۔ موضوع بدلتے، لیکن درحقیقت جان چھڑاتے ہوئے، میں نے کہا کہ آپ کی عیب بینی اور تنگ نظری تو یوں بھی ضرب المثل بن چکی ہیں۔ آپ مرزا غالب کے مزار پر تشریف لے گئے تھے، مگر فاتحہ نہ پڑھی اور اپنے رفیق خواجہ حسن نظامی سے یہ کِہ کر، پلٹ آئے کہ یہ وہی صاحب ہیں نا، جو کہتے تھے ’’ جنت کی حقیقت میں جانتا ہوں، ہاں یہ خیال، دل کو ضرور خوش رکھتا ہے‘‘۔ ’’انہیں فاتحہ کی کیا ضرورت؟‘‘ غالب جیسے صلح ِکل سے آپ کا یہ سلوک ع کم نظر بی تابی ِجانم نہ دید نہیں تو اور کیا ہے؟ اکبر چمک کر بولے کہ صلح ِکلِ؟ یا تھالی کے بینگن؟ میں نے ان کا ربع صدی بھر زمانہ پایا ہے۔ دلی میں رہتے، بادشاہ کی زلہ ربائی کرتے، جو کچھ انہوں نے دیکھا، اس کا عشر ِعشیر بھی، کھول کر بیان کر جاتے تو کتنے عقدے کھل جاتے! لیکن انہیں اپنے پیٹ کے سوا، کچھ نہیں سوجھتا تھا۔ دس پانچ ادھورے خط، اور دو چار شعروں کے سوا، ان کا قلم خاموش ہی رہا۔ جوابا میں کچھ کہنے ہی کو تھا کہ معاً استاذ الاساتذہ پروفیسر رشید احمد صدیقی کا فقرہ یاد آ گیا کہ انگریز اور انگریزیت پر پہلی اور کاری ضرب، اکبر نے لگائی اور اس طرح لگائی کہ پھر انہیں، یہاں پنپنا، نصیب نہ ہوا! سوچا کہ قسمت سے یہ ہاتھ آئے ہیں۔ موقعہ اچھا ہے، انگریز اور انگریزیت سے لے کر علی گڑھ اور دیوبند، اور سرسید سے لے کر اقبال تک، سب کے بارے میں ان کی رائے لوں۔ (جاری )