یہ بڑے میاں، جو نعمت ِغیر مترکبہ بھی تھے، خاصی ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہے تھے۔ انہوں نے سرسید کی جو مخالفت کی، اس سے بعضوں کے نزدیک، ان کی علم دشمنی اور دقیانوسیت، مسلم ہو جاتی ہے! میں نے پہلے اسی بابت پوچھا- سرسید کی مخالفت، آپ نے کی اور خوب ڈٹ کر کی۔ ہاں، جب وہ چل بسے تو آپ ع ہماری باتیں ہی باتیں ہیں، سید کام کرتا تھا کِہ کر، نِلوہ نکل گئے! آپ کی دعائے مغفرت، مرنے والے کے درجات، ہزار بلند کرتی رہے، زندگی اس کی آپ نے، دْوبھر کیے رکھی۔ سرسید کی مخالفت، کیا علم کی مخالفت نہیں تھی؟ علم کی روشنی پھیلانے کو، وہ آدمی عمر بھر، سر گاڑی پائوں پہیہ کیے، زمین کا گز بنا رہا۔ اور آپ کْنج ِعافیت میں بیٹھے، اس پر تیر برساتے رہے۔ یہ بھی کہ اپنی مطعون کردہ تعلیم دلانے، خود اپنے بیٹے کو آپ، ولایت بھیجتے ہیں! اپنی صفائی میں کیا کہیے گا؟ اکبر نے غور سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا- بھائی، آج دنیا اتنی بدل چکی ہے کہ تمہارے لیے میری بات سمجھنا ہی نہیں، خود میرے لیے سمجھانا بھی خاصا دشوار ہے۔ خیر، سْنو! جان لو کہ میں انگریزی پڑھا ہوا ہوں، لیکن انگریزوں کا پڑھا ہوا نہیں ہوں! جو دلیل میرے خلاف لائی جاتی ہے، دراصل وہی میری برأت ثابت کرتی ہے۔ اگر میں علم دشمن ہوتا تو اپنے بیٹے کو، جدید تعلیم دلانے، ولایت کیوں بھیجتا؟ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اسے بھیج کر، بعد میں جو حالات پیش آئے، میں پچھتایا بھی۔ جدید نہیں، میں اس تعلیم کا مخالف تھا جو جدت کے پردے میں ہمارے تہذیب و تمدن اور مذہب کو بھی مٹانے چلی تھی۔ اسی لیے کہا تھا کہ خود تو ہیں مست بادہ ء عشرت کے خْم سے آپ اْلجھا رہے ہیں مجھ کو، ستاروں کی دْم سے آپ اس کے برعکس، سید، سر ہونے کے باوجود، انگریزی اور جدید تعلیم کے باب میں، ٹھوٹ اور کوڑھ تھے! انگریز اور انگریزیت، دونوں سے وہ، متاثر ہی نہیں، بے حد مرعوب بھی تھے۔ مصلح بننا تھا تو اپنی قوم کے زوال کے اسباب، انہیں، اپنی تاریخ میں مل سکتے تھے۔ مگر وہ، اس زوال کے خاتمے کے لیے، فاتح قوم کی مدد چاہتے تھے! حاکموں کے اقبال نے, سید کی آنکھیں، کھولی نہیں، بلکہ چْندھیا دی تھیں! یہی وجہ تھی کہ اپنی قوم کو وہ جاہل، گنوار، احسان فراموش اور خدا جانے کیا کچھ گردانتے رہے۔ ایسا آدمی ہزار نیک نیتی سے بھی چلے، منزل کبھی نہیں پا سکتا۔ میاں! کیا بتائوں، جب میں سرسید کی برکت سے، اپنی قوم کو مشرقی وضع قطع ترک کرتے اور فاتحین کی تقلید میں، چولا بدلتے دیکھتا تو میرا جگر کیا کیا خون ہوتا تھا۔ میری شاعری پڑھ کر، تم لوگ ہنستے ہو، لیکن یہ خون کے آنسو ہیں، جنہیں ہنسی کے پردے میں چھپایا گیا ہے۔ ایک عزیز کو، جن کی گاڑھی سانولی رنگت کوئلے جیسی تھی، جب میں نے سولے کا ہیٹ پہنے دیکھا، تو کہا تھا۔ واہ کیا دھج ہے میرے بھولے کی شکل کولے کی، ہیٹ سولے کی اور بھائی، اس تعلیم میں اگر ایسی ہی خوبیاں تھیں، تو فاتح قوم، شکست خوردوں کو کیوںکر دیتی؟ دراصل یہ ایک جال تھا، جس میں پھنسنے والا، کل خود صیاد ہو جاتا تھا۔ اکبر کی یہ بات سن کر، مجھے ان کا شعر یاد آ گیا میرے صیاد کی تعلیم کی ہے دھوم گلشن میں یہاں جو آج پھنستا ہے، وہ کل صیاد ہوتا ہے یہ شعر مجھے، ہمیشہ ہالی ووڈ کی ان فلموں کی یاد دلاتا ہے، جن میں کسی ابتلا یا بلا کے مارے، رفتہ رفتہ، اسی بلا کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پھر خود بھی شکار کرنے کو, نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اکبر کِہ رہے تھے کہ اگر اس تعلیم میں محکوموں کا ذرہ بھر فائدہ ہوتا، تو حاکم اس کی ہوا بھی نہ لگنے دیتے۔ دراصل، شکست خوردہ قوم کا تہذیب و تمدن مٹانے اور پوری طرح ناس مارنے کے لیے، یہ سارا دھندہ پھیلایا گیا۔ اچھا یہ بتائو کہ انگریزوں کو ہندوستانیوں سے، ذرا سی بھی ہمدردی ہوتی، تو ہمارے ساتھ سب سے بڑی بھلائی وہ کیا کرتے؟ میں نے بے اختیار کہا کہ جدید اور اعلٰی تعلیم! اکبر زہر ِخند کے ساتھ بولے۔ جی نہیں! آزادی اور کامل آزادی! میں نے دبی دبی آواز سے کہا کہ ہمارے اکثر دانشور، اس آزادی کی جان کو، آج بھی رو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ترقی ہم نے کی، انگریزوں ہی کے دور میں کی۔ ہمارا تقریبا سارا نظام، حتیٰ کہ ریلوے لائن تک پر ان کی چھاپ لگی ہوئی ہے! جوابا, وہ تاسف کے ساتھ بولے زیر ِپا ہے ریلوے, اور سر پہ ہے انجن کی بھاپ اب یہ کہنا ہے صحیح، نیچے بھی آپ، اوپر بھی آپ پھر ذرا بحال ہو کرگویا ہوئے-" بعد میں سید سے میری دوستی اور باہمی احترام کا تعلق ہو گیا تھا۔ میری ججی کے زمانے میں، سید پوری کوشش کرتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ تقرری علی گڑھ میں رہے۔ علی گڑھ میں میرا تبادلہ، انہی کی کوششوں سے ہوا۔ اپنے اکثر خطبے، پڑھنے سے پہلے، وہ مجھے دکھا دیا کرتے تھے۔ اب سید میرے ہمسائے ہیں اور خواہش کر کے، میرے پڑوسی بنے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ سید کے بعد، ایسا سردھرا بھی، کم ہی ہوا"۔ مجھے یاد آیا کہ علی گڑھ کالج کے بانی اور دارالعلوم دیوبند کے موسس، استاد بھائی تھے اور مولوی مملوک العلی سے دونوں کو تعلیم پہنچی تھی۔ سرسید کے زمانے میں یہ تجربہ بھی کیا گیا کہ دونوں درس گاہوں کے منتہی طلبہ کا، تبادلہ کیا گیا۔ لیکن اسے کیا کیا جاتا کہ بقول انہی بزرگ کے، جو میرے سامنے بیٹھے تھے ع سر میں تھا سید کے قرآں، زیر ِپا مے خانہ تھا سرسید کے بعد، یہ بڑے میاں، اب میرا بھی ناطقہ، بند کیے دے رہے تھے۔ اس موضوع پر آخری سوال کرتے ہوئے، میں نے پوچھا کہ مسلمان آخر کرتے تو کیا کرتے؟ اقتدار چھِن چکا تھا۔ اس ملک میں، جہاں ان کے نام کا سکہ چلتا تھا، اب وہ اقلیت تھے۔ انگریزوں کی قدرت اور قوت، بڑھتی جا رہی تھی اور پرانی تہذیب اور تمدن، توپ اور تفنگ کا مقابلہ کیسے کرتا؟ خود آپ بھی، طنزا، کہہ چکے ہیں کہ ع جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو انہوں نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا- میں پھر کہتا ہوں کہ اپنے زوال کے اسباب، دوسروں کی ترقی میں نہیں تلاش کیے جاتے! چاہیے یہ تھا کہ پلٹ کر اس راہ کو پکڑا جاتا، جس کے چھوٹنے سے، یہ دن دیکھنے پڑے۔ یہ کیسی پستی ہے کہ شیخ سعدی کو پڑھنے والے، گلستان کو چھوڑ کر، ملٹن کی نظموں پر سر دھننے لگیں۔ کیا غلط کہا میں نے؟ یا الٰہی! یہ کیسے بندر ہیں ارتقاء پر بھی آدمی نہ ہوئے مسلمان جب جب دنیادار ہوئے، عیش پرستی میں پڑے۔ اور یہ خدائی مار، قوم کے بڑوں کی وجہ سے چھوٹوں پر بھی پڑی۔ بغداد، قرطبہ اور دلی۔ ان تینوں کا زوال اور تباہی دیکھ لو۔ اسباب بہت کچھ ایک جیسے ملیں گے۔ یہ قوم بادشاہی کرنے اور بادشاہی بھگتنے کے لیے نہیں پیدا ہوئی۔ یہ اس کے مزاج اور قِوام کے خلاف ہے۔ ان کی یہ باتیں سن کر، میں سوچ میں پڑ گیا۔ میری نپی تلی رائے تھی کہ اکبر کی شاعری تصوف کے میدان میں، میر درد سے بھی, منزلوں آگے ہے۔ فلسفے جیسے دقیق مضمون کو بھی، اس نادر ِروزگار شاعر نے، پانی کر دیا ہے۔ اور اس میدان میں وہ وہ نکات نکالے ہیں کہ باید و شاید۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ، اردو شاعری کو، جو "کمر پتلی، صراحی دار گردن" جیسے "آسمان" سے گر کر "میں اور اندیشہ ہائے دور دراز" کے کھجور میں اٹکنے والی تھی، زمین پر اتارنا تھا! اس اعتبار سے یہ، میر کے بعد، اردو کے سب سے بڑے محسن ہیں۔ ابھی ابھی، جو کچھ مْوشگافیاں انہوں نے کی تھیں، اس کا خلاصہ ان کا یہ بے مثال شعر تھا۔ اپنی منقاروں سے، حلقہ کَس رہے ہیں جال کا طائروں پر سِحر ہے، صیاد کے اقبال کا اردو کے اگر صرف پانچ بڑے شعروں کا انتخاب کیا جائے، تو اکبر کا یہ شعر اس میں ضرور شامل ہو گا- ایسی تصویر کشی کسی اور سے، ہو ہی نہیں سکتی! (جاری)