میں ان دنوں ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی پی) میںر پورٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔میری ذمہ داریوں میں سپریم کورٹ کی دن بھر کی کارروائی کی رپورٹنگ تھی جو کہ ایک تھکا دینے والا کام تھا کیونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ایک ایک لفظ گھنٹوں تک غور سے سننا اور پھر اسے درست طریقے سے رپورٹ کرنا بہت محنت طلب کام تھا۔ میری رہائش سپریم کورٹ سے کافی قریب تھی تو میں نے ایک ایسی روزانہ کی روٹین بنا لی تھی کہ صبح عدالتی وقت ساڑھے نو بجے شروع ہونے سے پہلے سپریم کورٹ پہنچ جاتا ۔ زیادہ تر اہم مقدمات جس میں سیاسی بھی ہوتے ، وہ کورٹ نمبر1 میں مقرر ہوتے تھے اس لئے زیادہ تر وقت اسی کمرے میں گزر جاتا۔ عدالتی کاروائی کے اختتام پر ساتھی رپورٹرز کے ساتھ وکلاء کے لئے مخصوص کمرے میں دن بھر ہونے والی کارروائی پر تبادلہء خیال ہوجاتا اور نوٹس بھی شئیر ہو جاتے۔ پھر وکلاء حضرات کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر کسی قانونی نکتے کے بارے میں ابہام ہوتا تو وہ بھی سمجھ لیا جاتا۔ان دنوں جسٹس افتخار چوہدری کی طرح عدالت رات گئے تک نہیں ہوتی تھی۔ دوپہر ایک بجے عدالت کا کام سمٹ جاتا اور ہمیں نکلتے نکلتے قریباً دو بج جاتے۔میں وہاں سے گھر واپس آتا جہاں ذاتی کمپیوٹر سے جو بھی سٹوریز ہوتیں وہ بنا کر ای میل کے ذریعے دفتر بھیج کر کنفرم کر لیتا کہ ڈیسک پر پہنچ چکی ہیں۔ اسی دوران دوپہر کا ہلکا پھلکا کھانا بھی ہو جاتا۔ گرمیوں میں پانچ بجے شام اور سردیوں میں بعد دوپہر تین بجے میں اپنی کرکٹ کٹ لے کر جو کہ اکثر گاڑی میں ہی پڑی ہوتی تھی مرغزار گرائونڈ پہنچ جاتا جو کہ اسلام آباد کے سب سے بڑے کلب اسلام آباد جمخانہ کا گھر تھا۔ اب یہ گرائونڈسید پور گائوں میں منتقل ہو چکا ہے اور اسکا نام بھی مرغزار کرکٹ گرائونڈ ہے جبکہ پرانا گرائونڈ سیونتھ ایوینیو کی زد میں آ چکا ہے۔ 12اکتوبر 1999ء کو بھی شام کرکٹ کھیلتے ہوئے گزری ۔ اس روز پریکٹس جلد ختم کر دی گئی کہ اگلے روز میچ کے لئے پچ تیار کرنا تھی۔ پچ رول کرتے ہوئے ہمارے ایک جونئیر ساتھی رومان طلعت کے پائوں کا انگوٹھا رولر کے نیچے آ گیا جس کو لے کر میں بھاگم بھاگ پولی کلینک پہنچا ۔ شام کے پانچ بجے کا وقت تھا، ابھی ڈاکٹر نے معائنہ شروع کیا تھا تو ہمارے کلب کے سیکرٹری یوسف بھائی کا فون آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ریڈکو پلازہ میں ہیں وہاں سے انہیں پک کر لوں۔انکی آواز خاصی گھمبیر لگی میں رومان کو فوراً ساتھ آئے ہوئے دوستوں کے حوالے کر کے یوسف بھائی کو پک کرنے نکلا تو ایک صحافی دوست کا فون آیا کہ نواز شریف نے جنرل مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔اس بات کا خدشہ بہر حال موجود تھا۔ میں نے جنرل مشرف کے ایک ماتحت جن سے میرے پرانے مراسم تھے کو فون کیا تو انہوں نے چھوٹتے ہی کہا کہ خبر درست ہے، تھوڑی دیر بعد رابطہ کرتا ہوں۔میں نے یوسف بھائی کو پک کیا، انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی نواز شریف اور سیف الرحمٰن جو احتساب سیل کے اس وقت سربراہ تھے ،کے بھائی مجیب الرحمٰن کو بد دعائیں دینی شروع کر دیں۔ مجیب الرحمٰن کو بھائی کی سفارش پر اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ میں نے پوچھا خیریت ہے تو انہوں نے کہا کہ مجیب الرحمٰن نے ان سے بہت بد تمیزی کی ہے اور کہا ہے کہ اسلام آباد کرکٹ ایسوی ایشن ہم نے اپنے بندے کو دینی ہے آپ لوگ اس کو چھوڑ دو۔میں نے کہا کہ یہ حکمران پاگل ہو چکے ہیں، ابھی ابھی نواز شریف نے جنرل مشرف کو ہٹا دیا ہے۔ یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے دوست نے فون پر دوبارہ رابطہ کر کے بتایا کہ ذرا ڈھوکری چوک تک چکر لگا آئیں، فیصلہ کر لیا گیا ہے۔میں نے یوسف بھائی سے کہا کہ کوئی قبولیت کی گھڑی تھی کہ آپ نے انکے برباد ہونے کی دعا مانگی اور اس عمل کا آغاز ہو گیا۔ہم دونوں ہی غصے میں تھے اس لئے اس عمل کو بہت مستحسن سمجھ رہے تھے ۔دوست کی ہدایت کے مطابق میں ڈھوکری چوک پہنچا جو سیرینا ہوٹل سے مری روڈ کی طرف جانے والی سڑک پر واقع ہے، وہاں پر فوجی گاڑیوں کی نقل و حمل جاری تھی۔ چند گاڑیوں کی لائن بنی ہوئی تھی اور وہ آہستہ آہستہ رینگ رہی تھیں۔ تصدیق کے بعد میں بازار روڈ پر واقع فرنٹئیر پوسٹ کے دفتر پہنچا جہاں پر شام چھ بجے کا انگریزی خبر نامہ جاری تھا۔نوید معراج بیورو چیف اور منیر حسین مارکیٹنگ ہیڈ موجود تھے دونوں بہت پیارے اور پرانے دوست ہیں اور یہ دوستی گزشتہ 28برس سے قائم ہے۔انگریزی بلیٹن کا اختتام ہوا اور انائونسر نے کہا کہ ایک خصوصی اعلان سنیئے۔ اس نے ابھی پڑھنا شرع کیا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل مشرف کو برطرف کر دیا ہے،کہ ٹی وی کی سکرین blank ہو گئی۔ نشریات بند ہوتے ہی میں نے دوستوں کو بتایا کہ کیا سین چل رہا ہے اور ہم گاڑی دوڑاتے ہوئے پی ٹی وی سٹیشن پہنچے، اس پر فوج قبضہ کر چکی تھی لوگ باہر کھڑے تھے اور اندر ہونے والا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اس وقت وزیر اعظم کے چیف آف سیکیورٹی پرویز راٹھور، ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر جاوید ملک اور نواز شریف کے حاجی نامی ذاتی سیکیورٹی گارڈ عمارت کے اندر موجود تھے۔ وہاں پر موجود فوجی افسر نے پرویز راٹھور اور جاوید ملک کو جانے دیا جبکہ حاجی کو گاڑی میں بٹھا کر وہاں سے لے کر چل دئیے۔ سیف الرحمٰن اور مجیب الرحمٰن بھی گرفتار ہو گئے اور اتفاقاً انہی صاحب کی تحویل میں تھے جو ہمارے دوست اور جنرل مشرف کے ماتحت تھے۔ ایک دن پہلے لوگوں کو دھمکیاں اور گالیاں دینے والے دونوں بھائیوں کی جو حالت ہمارے دوست نے بتائی اسکو سن کر صرف اللہ کی پناہ ہی مانگی جا سکتی ہے کہ وہ کیسے لوگوں کو عرش سے فرش پر لا کر پھینک دیتا ہے۔