ہر طرف تھا شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا کتنی خوش اسلوبیوں سے اس نے کاٹا یہ سفر پائوں پڑنے والے ہی نے آخر میرا سر لیا سنگین غداری کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ آیا اور شور کچھ اور ڑھ گیا کہ اس کے کئی مضمرات بھی سامنے آ گئے۔ شکاری کا نشانہ چوک گیا ہے یا پھر شکاری خود نشانے پر آ گیا۔ ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ شکاری مچان سے شیر کی کمر پر گرا ہے اور شیر کی کمر سے اب اسے کون اتارے گا۔ وہ منظر بھی دیکھا گیا جس میں ایک شخص کسی کو دبوچ کر اوپر بیٹھا رو رہا تھا۔ پوچھنے والے نے پوچھا کہ تم تو اوپر بیٹھے ہوئے پھر کیوں رو رہے ہو؟ اوپر بیٹھے شخص نے کہا یہ اٹھے گا تو میری خیر نہیں‘ صاحب ! کچھ عجیب صورت حال ہے سامنے پرویز مشرف کی بستر علالت پر بنی ویڈیو دیکھتے ہیں تو فوراً میر کا قطعہ یاد آ جاتا ہے: کل پائوں ایک کاسہ سر پر جو آ گیا یکسر وہ استخوان شکستہ سے چور تھا کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر میں بھی کبھی کسو کا سر پر غرور تھا ہائے ہائے کیا وہ وردی کو کھال بنا کر پہننے والا فولادی کمانڈو، بات بات پر مکہ دکھاتا اور تین جنگیں لڑنے کا ماہر وہ دھمکی آمیز لب و لہجہ، کہ وہاں سے ہٹ ہو گا پتہ بھی نہیں چلے گا‘ وہ تفاخر اور رعونت طائوس و رباب کے دن حامد علی خان سے گائیکی کے مقابلے‘ وہ طبلہ نوازی وہ رنگ رنگیلے دن یہ سب کل ہی کی تو بات ہے اور اب یہ بے چارگی بے بسی لاچاری اور بیماری کہ لفظ ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں۔’’عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ اور پھر ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘ ان ساری باتوں کے باوجود جب اسے غدار کہہ کر 5دفعہ سزائے موت کی سزا سنائی گئی تو ہم نے غدار کے لفظ پر احتجاج کیا۔ اب تفصیلی فیصلہ آیا تو ججوں کے تعصبات بھی سامنے آ گئے کہ ایک جج نے تو مشرف کو مردہ حالت میں ڈی چوک میں لٹکانے کی بات کر کے کہ ظالم کو پل جھپکتے ہی مظلوم بنا دیا۔ ہم تو صرف محبتوں میں ایسا سمجھتے تھے کہ: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے اس کو روبرو کر کے ادھر تو نفرت اور دشمنی میں سب کچھ ہی دھندلا گیا ہے۔ دو تین جملوں میں ایسا زہر تھا کہ بس۔ وگرنہ ہم نے اس کے پیٹی بھائیوں پر ایسا اعتبار نہیں کیا۔ ہم اس فیصلے کو یکسر رد نہیں کر سکتے کہ یہ تو عدل کا قتل ہو گا اور قانون کا انکار۔ اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ جب جج آمروں کے حکم پر سرنڈر ہو کر پی سی او کے تحت حلف اٹھاتے رہے تو وہ بہت سمجھدار اور حقیقت پسند تھے وہی جو نظریہ ضرورت کو نئے سرے سے زندہ کرتے رہے بہت باضمیر اور حق پرست تھے کہ وہ شب خون مارنے والوں کا ساتھ دے کر راستے کے کانٹے چنتے رہے اب یکایک جب کسی نے آئین توڑنے والے کو آئین ہی کے تحت سزا سنائی ہے تو وہ پاگل ٹھہرا‘ قابل گردن زدنی گردانا گیا اور ملک دشمن بن گیا ۔ہاں بات دلیل سے ہو سکتی ہے ‘ اپیل کی جا سکتی ہے اپنا موقف پیش کیا جا سکتا ہے طریقہ کار پر بحث ہو سکتی ہے۔ وکیل اپنی جگہ خوش ہیں کہ ججوں نے ان کی بلا اپنے گلے ڈال لی سب کی توجہ ان کی طرف ہے۔ ہو سکتا ہے ڈاکٹر بھی اپنی جگہ خوش ہوں کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ایسا فیصلہ کرنے والے کو کہ جس میں ذاتی دشمنی اور انتقام نظر آ رہا ہے کسی معالج کو دکھایا جائے یقینا وہ معالج ذہنی امراض ہی کا ہو گا۔ جو بھی ہے سب کچھ کھیل تماشہ ہی تو ہے کچھ بھی ہونے کا نہیں۔ غالب نے ایسے ہی نہیں کہا تھا: بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے ہوتا ہے شب روز تماشہ مرے آگے ایک مثبت پہلو بہرحال اس فیصلے کا ہے کہ آئندہ عسکری مہم جوئی کرنے والے کو کان ہو گئے ہیں۔ ویسے کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا کہ کب قومی مفادات کو ترجیح دے دی جائے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہوں تو سراسیمگی میں لپٹی ہوئی فضا یاد آ تی ہے کہ جب ہم سب ادیب ادبی بیٹھک میں بیٹھے ہوئے ایمرجنسی لگنے کی خبریں ٹی وی پر سن رہے تھے ہر طرف ایک بحران تھا ایک جبر زور اوری اور طاقت۔ ہم لوگ کیا تھے اکثریت اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم حاکم نے جو کہا وہی منقول ہو گیا قانون اس کے راہوں کی بس دھول ہو گیا ہم لوگ ظلم سہنے کے عادی ہوئے تو پھر ظالم کا ظلم کرنا بھی معمول ہو گیا بہرحال اس وقت سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے قوم دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی ہو رہی ہے نقصان وطن کی ساکھ کو پہنچ رہا ہے۔ چیف جسٹس کھوسہ نے بھی واضح کر دیا ہے کہ اس فیصلے میں ان کی حمایت کا تاثر سراسر ظلم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچ جلد سامنے آ جائے گا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل غیر جانبدار ہیں۔ اصل میں پرویز مشرف کی حمایت کرنے والے بھی ان کی ساری خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جرائم پر بھی پردہ ڈال رہے ہیں اور مقابل پر لوگ کہنے پر مجبور ہیں کہ اتنی بڑھا یا کئی داماں کی حکایت‘ بات بنیادی طور پر یہ ہے کہ مشرف کا ماضی اور ان کی گفتگو کہیں بھی ان کو غدار ثابت نہیںکرتی۔یہ بات بھی سوچنے والی ہے کہ مشرف کو بحیثیت سیاستدان اور صدر کے معاملات کا سامنا کرنا پڑا مگر انہیں ان کے ادارے سے جدا کرنا مشکل معاملہ ہے حاصل وصول یہ کہ ساری باتوں کے باوجود اکثریت فوج کے ساتھ کھڑی ہے کہ عوام کے لئے جب بھی نکلتی ہے فوج ہی نکلتی ہے اور ان کی قربانیاں بے انتہا ہیں۔ عدلیہ کے ججز کا ماضی بھی کوئی تابناک نہیں کہ یہ بات عام ہے کہ آپ وکیل کریں گے یا جج دوسرا حالیہ بارگیننگ مووی جج صاحب کی ثابت ہو چکی آخری بات ڈی چوک میں لٹکانے والی بات ہے جس نے سارا کیس مشرف کے حق میں کر دیا۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ فیصلہ کرنے والا اپنا تعصب چھپا نہیں سکا: اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے وہ بھی میری ہی طرح محو دعا لگتا ہے