جمعہ کو پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے حلف اٹھایا ۔گورنر ملک رفیق رجوانہ کی خواہش تھی کہ میں گورنر ہاؤس میں ہونے والی اس تقریب میں ضرور شریک ہوں ۔دوسرا میری بھی خواہش تھی کہ اپنے استاد محترم کی سب سے بڑے صوبے کے اعلیٰ ترین سیاسی منصب پر فائز ہو نے کی حلف برداری میںحاضر ہوں۔ ڈاکٹر حسن عسکری سے میرا تعلق بہت پرانا ہے، جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیتے تھے تو میں ان کے شاگردوں میں شامل تھا ۔جب وہ پنجاب یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں لیکچر دیتے تھے،اس وقت بھی ان سے تعلق قائم رہا ۔بعدازاں ’دی نیشن ‘اور ’پاکستان ٹوڈے‘جو دونوں ہی میری کاوشوں کا نتیجہ ہیں میں باقاعدہ کالم نگاری کرتے رہے ۔عسکری صاحب اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا پر تجزیئے کرنے لگے ۔چینل 24جس کا میں سی ای او تھا وہ وہاں کل وقتی تجزیہ کار تھے۔ لیکن بعدازاں یہ ادارہ انھوں نے بھی چھوڑ دیا اور میں نے بھی ۔ حسن عسکری ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی اور امریکہ کی یونیورسٹی ’فلاڈیفیا ‘سے بھی سند یافتہ ہیں ۔فوج اور سیاسی حکومتوں کے تعلقات کے حوالے سے ان کی کتاب The Military and politics in Pakistanکے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔اگر کسی کو پاکستان میں فوج اور سویلین حکمرانوں کے موضوع سے تھوڑا سا بھی شغف یا دلچسپی ہے تو اس کے لیے اس کتاب کو ٹیکسٹ بک کہا جا سکتا ہے ۔ حسن عسکری مرنجان مرنج طبیعت کے مالک ہیں ،انھوں نے شادی نہیں کی ۔ پروفیسرانہ طبیعت کے مالک ہیں ۔ان کی نہ کوئی لمبی چوڑی جائیداد ہے اور نہ ہی ضروریات ۔ پس اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ۔ان کے ایک ماموںجو ویسے عمر میں ان سے کم لگتے ہیں، ضیاحیدر رضوی ان کی زندگی کے مدوجزر کے ساتھی ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں ۔ پروفیسر حسن عسکری پر مسلم لیگ (ن) نے نکتہ چینی کے تیروں کی بھرمار کر رکھی ہے ۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ،سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ،سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ ،ڈاکٹر مصدق ملک اور مریم اورنگزیب سب کہہ رہے ہیں کہ حسن رضوی غیرجانبدار نہیں ہیں اور تحریک انصاف اور جسے اب ’خلائی مخلوق ‘ کہا جاتا ہے کے انتہائی قریب ہیں ۔ڈاکٹر صاحب پر اس اعتراض کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ ٹیلی ویژن پر اپنے تجزیوں میںکھلم کھلا اور دو ٹوک انداز میں مسلم لیگ (ن) کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور نیز عمران خان کے لیے اپنے سافٹ کارنر کو کبھی خفیہ نہیں رکھا ۔اسی بنا پر میں نے ان کی تقرری کے اعلان سے پہلے اور بعد میں بھی ان کے اس حالیہ جانبدارانہ موقف پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں خود کو غیر جانبدار اور ایماندار منصف ثابت کرنے کے لیے بڑی محنت کرنا پڑے گی ۔ حسن عسکری نے حلف اٹھانے سے پہلے اور بعد میں بھی اس عزم مصمم کا اظہار کیا کہ وہ غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دیں گے اور منصفانہ الیکشن کرانے کی کوششوں میں ممدومعاون ثابت ہو نگے ۔عسکری صاحب کا سب سے بڑا طرہ امتیاز یہی ہے کہ وہ ایک عام سے متوسط طبقے کے پڑھے لکھے اور روشن خیال شخص ہیں، نہ وہ ہمارے روایتی سیاستدانوں کی طرح جاگیر رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ سرمایہ دار ہیں ۔ ایسا شخص تو نگران سیٹ اپ میں آ سکتا ہے یا سینیٹ کے ذریعے ۔ لیکن اب سینیٹ بھی زیادہ تر خوشامدی سیاست دانوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی ہے۔ شاید کچھ لوگوں کو یہ بات بھی کھٹکتی ہو یہ کیسا وزیراعلیٰ ہے جس کی نہ تو رانا ثناء اللہ جیسی مونچھیں ہیں جن کو وہ تاؤ دے سکیں یا بڑھکیں لگائے ۔ ڈاکٹر حسن عسکری پنجاب یونیورسٹی شعبہ سیاسیا ت میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے اور اپنے کام سے کام رکھتے تھے ۔جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ایک ریٹائرڈ جرنیل لیفٹیننٹ جنرل (ر) ارشد محمود کو پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا گیا ۔انھوں نے آتے ہی یونیورسٹی میں بھی ’’مارشل لا‘‘نافذ کر دیا۔یونیورسٹی اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری ان کا مشن تھا ۔انھوں نے یونیورسٹی کے بجلی کے بڑھتے ہوئے بل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہنگامی اقدامات کا حکم دیا ۔سردیوں کا موسم تھا اور یونیورسٹی کے اساتذ ہ کے لیے مختص کمرے کچھ زیادہ ہی ٹھنڈے محسوس ہوتے تھے لیکن وائس چانسلر صاحب نے حکم صادر فرمایا کہ آج ہی سے اساتذہ کے لیے ہیٹر کا استعما ل ممنوع ہو گا ۔حسن عسکری صاحب جنہیں نسبتا ً زیادہ سردی لگتی تھیں نے کہا ایسی پابندی کی صورت میں مستعفی ہو جائیں گے۔ جرنیل صاحب کو ان کے مشیروں نے باور کرانے کی کوشش کی کہ اس طرح پنجاب یونیورسٹی ایک فارن کو الیفائیڈ دانشور استاد سے محروم ہو جائے گی۔جرنیل صاحب نے فوجی انداز میں ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی جاتا ہے تو جائے ،اساتذہ تو مل جائیں گے میں نے بجلی کا بل بچانا ہے ۔اس طرح ڈاکٹر عسکری نے کل وقتی تدریس کو خیرباد کہہ دیا اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کر دیئے اور چینلز پر تجزیئے کرنے لگے اور یہیں سے نگران وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے کے مصداق عمران خان سے لے کر باقی کھلاڑی بھی واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ 2013کے انتخابات انھیں نجم سیٹھی اور ان کے 35پنکچروں اور شہبازشریف کی حامی انتظامی مشینری نے ہروائے ۔حسن عسکری رضوی کے ہوتے ہوئے یہ یقین ہو گا کہ عسکری صاحب مسلم لیگ (ن) کے حق میں ڈنڈی نہیںماریں گے ۔ وزیراعلیٰ کے طور پر وہ کس قسم کی کابینہ چنتے ہیں اور بیوروکریسی میں کس حد تک تطہیر کرتے ہیں اس سے پتہ چل جائے گا کہ وہ کس حد تک اپنی غیر جانبداری کے دعوؤں پر پورا اترتے ہیں ۔ اس ضمن میں انھوں نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ وہ ٹیکنوکریٹس کی کابینہ کی تشکیل اور بیوروکریسی میں ردوبدل کریں گے۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے۔ انھیں اتنا زیادہ دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔اتنے برس اقتدار میں رہنے کے بعد شاید ان کو سارا ماحول ہی اداس اور سونا لگ رہا ہو۔ سابق برسر اقتدار جماعت کے ارکان کو جس اندازسے وفاداریاں بدلنے پر مجبورکیا جا رہا ہے اور شریف برادران کو طرح طرح کے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔ اسے وہ پری الیکشن دھاندلی قرار دے رہے ہیں تاہم یہ وہ دھاندلی ہے جو وہ خود برسہا برس سے کرتے آ رہے ہیں۔سابق حکمران جماعت نے پنجاب میں الیکشن ’مینج ‘کرنے کے فارمولے بنا رکھے ہیں جو کئی مرتبہ کامیابی سے آزمائے جا چکے ہیں۔2013کے عام انتخابات سے قبل وزیر اعلیٰ شہبازشریف نے بیوروکریسی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دو ماہ بعد میں واپس آ رہا ہوں اور پھر ایسا ہی ہوا۔لیکن اس بار وہ یہ دعوی یقین سے نہیں کر سکتے ۔ عام انتخابات منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونگے اور اس ضمن میں پروفیسر حسن عسکری رضوی یا کوئی وزیراعلیٰ یا اور وزیراعظم کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ۔ کیونکہ اصل کام جس کا آغاز سا ل2014 کے شروع میں بلوچستان میں ہوا تھا عام انتخابات کے انعقاد تک ہو چکا ہو گا۔