کیا ڈاکٹر عشرت بیورو کریسی میں اصلاحات لا سکیں گے؟ کیا وہ اس کے اہل ہیں؟ تین عوامل ایسے ہیں جو انہیں ایک مخصوص دائرہ فکر سے نکلنے نہیں دیں گے یہ ان کی شخصیت کا حصہ بن چکے ہیں ۔اول وہ سول سروس کے ’’مشہور‘‘ زمانہ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ(ڈی ایم جی) سے ہیں اور اس بیچ سے ہیں جو کچھ زیادہ ہی مشہور ہوا۔ یعنی 1964ء بیچ ‘سابق صدر فاروق لغاری بھی اسی بیچ سے تھے ان کے نزدیک ہر ریفارم کا تقاضا یہ ہے کہ اس گروپ (ڈی ایم جی) کی برتری کو نقصان نہ پہنچے اور اگر پہنچا ہے تو یہ برتری بحال ہو جائے۔ اگر اس کالم نگار کا حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بھی وہ ریفارم کمیشن کے سربراہ بنائے گئے۔ انہیں ہر موقع پر ’’اِن‘‘ ہونے کا فن خوب آتا ہے۔ ڈی ایم جی ان کے اعصاب پر اور لاشعور پر اس قدر چھایا ہوا ہے کہ ایک اجلاس میں انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو دوبارہ ایگزیکٹو مجسٹریٹ بنانے کی تجویز پیش کی۔ خوش قسمتی سے جنرل پرویز نے اس سے اختلاف کیا۔ اس امر کا وسیع القلبی سے اعتراف کرنا چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف نے ڈپٹی کمشنر کا سامراجی ادارہ ختم کر کے ضلع ناظم کا جمہوری اور عوامی ادارہ قائم کیا آخر ایک ڈپٹی کمشنر کا ضلع کی ترقی سے کیا جذباتی تعلق ہو سکتا ہے؟ تبادلہ ہو جانے کے بعد اس نے یہاں کبھی آنا ہی نہیں! اس کی اولین ترجیح کمشنر اور وزیر اعلیٰ کو خوش رکھنا ہے اور اپنی آئندہ تعیناتی اور ترقی کی راہ ہموار کرنا۔ ضلع ناظم کو اس کے مقابلے میں اسی ضلع میں رہنا ہے ۔اس کے مخالفین اور حمایتی وہیں کے ہیں۔ اس نے آئندہ بھی عوام سے ووٹ لینے ہیں اس لیے وہ عدم دلچسپی اور نااہلی کا خطرہ مول ہی نہیں لے سکتا! ڈاکٹر عشرت حسین نے جنرل پرویز مشرف کو ایک اور حد سے زیادہ کائونٹر پیداواری تجویز پیش کی جو ترقی معکوس کے مترادف تھی‘ وہ یہ کہ جتنے وفاقی سیکرٹری ہیں وہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہو جائیں۔ یعنی بیورو کریسی کے سرخ فیتے میں ایک اور فیتے کا اضافہ ہو جائے۔ اس پر وہاں بیٹھے ہوئے وفاقی سیکرٹریوں نے اعتراض کیا۔ مثلاً سیکرٹری خزانہ کی دلیل یہ تھی کہ اس کے پاس ملکی مالیات کی ایسی معلومات ہیں جو وہ سوائے وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کے کسی کو نہیں بتا سکتا۔ یہی صورت حال دفاع کی ہوئی تھی۔ یعنی وزارت دفاع کا سیکرٹری ‘ سیکرٹری کابینہ ڈویژن کا ماتحت ہو جائے پھر تو دفاع کی تمام خفیہ اطلاعات تک سیکرٹری کابینہ کی رسائی ہو جائے گی۔ یہ تجویز بھی رد کر دی گئی۔ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے‘ وہ جان لیں کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی ہر ’’ریفارم‘‘ میں ڈی ایم جی کا غلبہ اور ایگزیکٹو مجسٹریسی کا احیا ضرور شامل ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو! اور خدا کرے کہ ایسا نہ ہو! دوم وہ امریکہ سے ڈگریاں لے کر ورلڈ بنک کے ملازم ہو گئے ورلڈ بنک کا ملازم‘ وہاں سے فارغ یا ریٹائر ہو کر بھی ذہنی طور پر ورلڈ بنک ہی کا نمائندہ رہتا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں کے مسائل امریکی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل بابوئوں نے اور ورلڈ بینک کے نمائندوں ہی نے تو الجھائے ہیں۔ ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف‘یہ ایسا جال پھیلاتے ہیں کہ غریب ملک اس جال سے کبھی باہر نہیں آ سکتے یہاں اعداد و شمار کا وہ گورکھ دھندا ہے کہ الامان والحفیظ! چند دن پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں ایسے ہی ایک بابو سے واسطہ پڑا جو شہباز شریف کے عہدِ ہمایونی میں تعلیمی’’ترقی‘‘ کا کرتا دھرتا بنا رہا۔ اس نے اعداد و شمار پیش کیے جن کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان تعلیم کے میدان میں آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ پوچھا کہ شہباز شریف نے کسی سرکاری سکول کا معائنہ کیا؟ جواب سُن کر حیرت ہوئی اور رحم بھی آیا۔ فرمانے لگے دانش سکول سرکاری سکول ہی تو ہیں! پھر انہیں چیلنج کیا کہ کسی ایک سرکاری سکول میں بھی وزیر اعلیٰ نہیں گئے۔ الغرض ان بابوئوں نے ساری عمر کسی گائوں یا کسی قصبے کی شکل نہیں دیکھی ہوتی۔ یہ انگریزوں اور امریکنوں کی لکھی ہوئی معاشیات کی کتابیں پڑھتے ہیں ایسے مضامین اور رپورٹیں لکھتے ہیں جن سے کچھ بھی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے مثلاً کیا عشرت حسین صاحب کو اندازہ ہے کہ گائوں کے لوگوں کو فرد یا لٹھا نکلوانے میں کتنی دقت ہوتی ہے؟پٹواری اور تحصیل دار کے مناصب کس درجہ اذیت رساں اور فرسودہ ہو چکے ہیں؟کیا ساری زندگی میں انہوں نے کسی کچہری میں انتقال زمین یا انتقال جائیداد کا کوئی کام کرایا ہے؟ سوم وہ 2016ء سے ’’وُڈ رو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز Woodrow Wilson International Centre for Scholars کے پالیسی فیلو ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اس سنٹر کا مشن ہی ایک امریکی صدر وڈ رو ولسن کے تصورات اور فلسفے کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ ایک تھنک ٹینک ہے جو سر سے پائوں تک امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس کے اخراجات کا ایک تہائی حصہ امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ نہیں معلوم ڈاکٹر عشرت حسین اس سے کوئی مالی معاوضہ وصول کرتے ہیں یا نہیں‘مگر اس کی فیلو شپ سے ان کی ترجیحات ان کے انداز فکر اور ان کے ذہنی رجحانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے! بیورو کریسی کی اصلاحات میں اولین ترجیح تحریک انصاف کی حکومت کی یہ ہونی چاہیے کہ ضلعی حکومتوں کا احیا ہو۔ ڈپٹی کمشنر کا سامراجی ورثہ اپنے انجام تک پہنچے۔ ڈپٹی کمشنر یا ڈی سی او کی موجودگی میں مقامی حکومت کبھی پنپ نہیں سکتی۔ ضلعی ناظم کو ڈی ایم جی گروپ اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ پھر وفاقی اور صوبائی سیکرٹریٹ پر اس گروپ کی اجارہ داری ختم کرنی ازحد ضروری ہے۔ ہر سروس گروپ کو سیکرٹریٹ سے حصہ بقدر جثہ ملنا چاہیے!کچہریوں میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس کا ذمہ دار یہ ڈی ایم جی گروپ ہی ہے۔ یہ کالم نگار ایسے ڈپٹی کمشنروں کو جانتا ہے جن کا ضلع سے تبادلہ ہو جاتا تھا پھر بھی ’’منتھلی‘‘ وہاں سے آتی رہتی تھی۔ کیا کبھی ڈپٹی کمشنر نے یا کمشنر نے سوچا کہ کچہری سے رشوت ختم کرنی چاہیے؟ ان افسروں نے پٹواریوں اور تحصیلداروں کو سیاست دانوں کی خدمت کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال کیا۔ عوام چلاتے رہے۔ باپ نے مکان اپنے سگے بیٹے کے نام کرانا ہو تب بھی یہ بھیڑیے بیس پچیس ہزار روپے رشوت لے کر یہ کام کرتے ہیں۔ ڈی ایم جی کے بابو کی ناک کے عین نیچے یہ حرام کاری ہو رہی ہوتی ہے اور اب عمران خان نے عہد قدیم کے ایک ڈی ایم جی بابو کو ریفارمز کا مشیر بنا دیا ہے! عربی کا محاورہ ہے کہ غبار چھٹے گا تو تجھے معلوم ہو گا کہ تو گھوڑے پر سوار ہے یا کسی’’اور‘‘ جانور پر!! ریفارمز کا کام کسی ایسے تعلیم یافتہ سیاستدان کو سونپنا چاہیے جس کے لاشعور میں سول سروس کی غلامی کا نشہ نہ رچا ہو۔ وہ گائوں اور قصبے کی زندگی سے واقف ہو۔ بابو نہ ہو‘ بلکہ اوپر سے نیچے تک اندر سے باہر تک ہر لحاظ سے پاکستانی ہو۔ ورلڈ بنک کے بابو اور امریکی تھنک ٹینکوں کے ممبر پاکستانی عوام کے دکھوں میں اضافہ تو کر سکتے ہیں‘ مداوا نہیں کر سکتے! کیا تحریک انصاف میں کوئی ایسا رجل رشید ہے جو عمران خان کو یہ نکتہ سمجھا سکے؟؟؟