وزیر اعظم عمران خان کا واکھیان ہے کہ ہم مصیبت سے نکل آئے ہیں اور پاکستان اقتصادی طور پر مستحکم ہو گیا ہے لیکن زمینی حقائق ان دعوئوں کی نفی کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم کا بال بال تو قرضوں میں پہلے ہی جکڑا ہواتھا لیکن تازہ اعداد و شمار خاصے تشویشناک ہیں۔ حکومت نے رواں مالی سال کے صرف پہلے پانچ ماہ میں 4.5 ارب ڈالر کے قرضے لیے ہیں۔ وزارت اقتصادی امورکے مطابق یہ قرضے بجٹ کے 37 فیصد کے برابر ہیں، یعنی مجموعی طور پر رواں مالی سال میں قرضہ 12.41ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ قرضوں کا یہ انبار کسی صحت مند اکانومی کی تصویر پیش نہیں کرتا۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو وہ میاں نواز شریف پر الزام لگاتے تھے کہ ان کی حکومت نے ریکارڈ قرضے لے کر پاکستانی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، وہ اقتدار میں آکر اس کا ریورس کریں گے لیکن عملی طور پر ہوا اس کے برعکس ہی ہے۔ ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری نہ آنے، اندرون ملک سرمایہ کاری کے فقدان اور عمومی طور پر کساد بازاری سے ملک کی معیشت جمود کا شکار ہے۔ بڑا فخرکیا جاتا ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ اب مثبت ہو گیا ہے، گویا کہ برآمدات ، درآمدات سے زیادہ ہیں۔یہ بات تو درست ہے لیکن اگر اس کی جزیات میں جائیں تو یہ ضروری نہیں ہے کہ محض کرنٹ اکائونٹ مثبت ہونا کسی صحت مند اکانومی کی غمازی کرتا ہے۔ اگر ملک میں دھڑا دھڑا نئی صنعتیں لگ رہی ہوں، کاروبار بڑھ رہے ہوں تو ظاہر ہے کہ درآمدات بھی زیادہ ہونگی لیکن یہ ویسی درآمدات ہونگی جو مستقبل میں پاکستانی معیشت کی برآمدات اور پیداوار بڑھنے کی صلاحیت میں اضافہ کریں گی، جبکہ اس کے برعکس اگر ملک میں مینوفیکچرنگ اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کم ہو،یا نہ ہونے کے برابر ہو تو ظاہر ہے کہ درآمدات کم ہی ہو جائیں گی۔ جہاں تک روزمرہ استعمال اور پر تعیش اشیاء کی درآمدکا تعلق ہے ایک صحت مند اکانومی میں اس کا بڑھنا تشویشناک نہیں بلکہ کاروباری سرگرمیوں میں اضافے اور صارفین کے پاس فاضل آمدنی ہونے کا اشارہ دیتاہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمیں اپنے قرضے اتارنے کے لیے بھی مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں، چونکہ اب یہ قرضے آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے لہٰذا کمرشل بنیادوں پر لیے گئے قرضے پر شرح سود بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت بجٹ کا سب سے بڑا خرچہ قرضوں کی واپسی اور اس پر سود کی ادائیگی ہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں2.45 ارب ڈالر قرضے ادا کیے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نواز شریف حکومت کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اس حکمت عملی پر عمل کر رہے تھے کہ غیر ملکی قرضے لے کر سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔ پاورسیکٹر میں بھاری سرمایہ کاری اسی حکمت عملی کے تحت کی گئی۔ نواز شریف حکومت کے مطابق اس طرح بالآخراکانومی مضبوط ہونے سے یہ قرضے واپس بھی کیے جا سکتے تھے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ نوازشریف حکومت کی چھٹی ہو گئی اور یہ قرضے موجودہ حکومت کے گلے پڑ گئے۔ تاہم تحریک انصاف کے اکانومی کے مدارالمہام سرمایہ کاری کے لیے ایسی فرینڈلی پالیسیاں نہ بنا سکے جن کے نتیجے میں ملک میں سرمایہ کاری بڑھتی۔ نتیجتاً عمران خان حکومت کا آدھا دور گزر جانے کے باوجود قرضوں میں تشویشناک اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری اس حد تک نہیں بڑھ سکی۔ خان صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی جو معاشی ٹیم بنائی تھی وہ بھی ماسوائے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تتر بتر ہو چکی ہے۔ شیخ صاحب پرائیویٹائزیشن کے بھی سربراہ ہیں، انہیں وزیر خزانہ بھی بنا دیا گیا ہے اور قوی امید ہے کہ قانونی سقم دور کرنے کے لیے انہیں سینیٹر بھی منتخب کرا لیا جائے گا۔ ایف بی آر بھی اب ان کی ذمہ داری ہے۔ ایف بی آر کے نجی شعبے سے لائے گئے چیئرمین شبرزیدی کو بڑے اہتمام سے لایا گیا لیکن جب انہوں نے ٹیکسوں کی گھمبیر صورتحال کا جائزہ لیا تو ان کا نروس بریک ڈائون ہو گیا اور وہ بوریا بستر سمیٹ کر چلتے بنے۔ اس وقت لندن میں ہائوس اریسٹ عارف نقوی بھی وزیر اعظم عمران خان کے کافی قریب تھے اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے پاکستان نہیں آئے۔ جہانگیر ترین جو حکومت کے اقتصادی اور انتظامی معاملات میں عملی دلچسپی لیتے تھے شوگر سکینڈل کی نذر ہو گئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان اس خطے میں قریباً تمام ممالک کے مقابلے میں اقتصادی طور پر بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ 1971میں جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو پاکستان میں بہت بڑی لابی تھی جو کہتی تھی کہ بنگلہ دیش ہم پر اقتصادی طور پربوجھ تھا اور اب پاکستان ترقی کرے گا۔ اگرچہ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش کو ہم سے الگ ہوئے نصف صدی گزر گئی، یہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، اس کی علیحدگی کے محرکات پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا لیکن 50 سال کی عمر میں بنگلہ دیش کی ترقی کی شرح 8.20 جبکہ پاکستان کی 1.0 فیصدہے، بنگلہ دیش کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 38.8 جبکہ پاکستان کے 13.4بلین ڈالر ہیں۔ "سب اچھا ہے" کی ان آوازوں کے پس منظر میں مہنگائی کے ہاتھوں عوام کا کچومر نکل گیا ہے۔ روزمرہ کے استعمال کی اشیا میں انڈوں کو ہی لیں۔تازہ رپورٹ کے مطابق انڈوں کی قیمت نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور اب یہ 240 روپے تک فی درجن فروخت ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی فرمائش پوری کرنے کے لیے بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے، تیل کی قیمتیں جو عموماً ماہانہ بنیادوں پر طے کی جاتی تھیں اس بار پہلے ہی بڑھا دی گئیں ، دیکھا جائے تو ہم ایک اکنامک ایمرجنسی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن مبارک سلامت کے موجودہ ماحول میں حقائق تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔