بھارت میں عمومی رائے یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔اس دعوے کو تقویت دینے کیلئے مودی حکومت یہ کہتی ہے کہ پانچ اگست کو کئے گئے فیصلے کے بعد وادی میں بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات رونما نہیں ہوئے ۔ لہذا کشمیریوں نے بھارتی حکومت کے اس بڑے فیصلے کو قبول کر لیا ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ سمجھتا ہے۔ پاکستان کا دعویٰ یہ ہے کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈہ ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔کشمیری علیحدگی پسند اپنے حقِ خودارادیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور گذشتہ تین دہائیوں سے وادی کو مسلح جدوجہد کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد کشمیر پر پاکستان کا فوری ردعمل دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ مسئلہ کشمیر حل ہو گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ بھارتی اقدام کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوا ہے۔ یہ بھارت کا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ اب اگر بھارت سنجیدہ ہے تو پھر اسے کشمیر کے پرامن حل کے لیے مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا۔پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ دنیا بھر میں کشمیر کے سفیر بنیں گے اور کشمیریوں کے لیے آخر دم تک لڑتے رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک بھارت کشمیر پر اپنا غیر قانونی تسلط، کرفیو کا خاتمہ اور افواج کو نکال کر واپس بیرکوں میں نہیں بھیجتا اس وقت تک بھارت سے مذاکرات کا دروازہ بند رہے گا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت ہر بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی حالت زار پر آواز اٹھائی ہے۔ مسئلہ کشمیر کو سری لنکا میں منعقد ہونے والی یونیسف کانفرنس میں بھی اٹھانے کی کوشش کی ۔ چین، ملائشیا اور ترکی نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی جبکہ امریکہ کے صدارتی امیدوار اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن برنی سینڈرز نے بھی کشمیر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے، اب بھارت کو بھی اس غلطی کی ذمہ داری قبول کرنا ہو گی۔ بھارت کیلئے سب سے بڑا چیلنج وادی کشمیر کی عوام کے دلوں اور ذہنوں کو جیتنا ہو گا جو کہ بھارت کے خلاف کشمیریوں کا غم وغصہ دیکھ کر ایک انتہائی مشکل کام دکھائی دیتا ہے۔اس سب کے باوجود مسئلہ کشمیر حل طلب ہی رہے گا ۔بھارت اور پاکستان کو عملیت پسندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کو لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرلینا چاہیے۔ یہ تجویز پہلے بھی دونوں ممالک کے درمیان زیر غور رہی لیکن بعد میں اس پر کام روک دیا گیا۔جہاں تک مسئلہ کشمیر کا ذکر ہے تو یہ مسئلہ اب پہلے سے کہیں زیادہ سنجیدہ معاملہ بن چکا ہے۔ میرے خیال میں کشمیر کا ایک ہی حل ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیریوں کو ساتھ لے کر مذاکرات کی میز پر آ جائیں اور اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کر لیں۔ ایسا ممکن ہے مگر یہ وہ تجویز ہے جسے شاید بھارت میں زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکے۔ اس وقت حالات کے مطابق پاک بھارت جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ اگر ذرا سی بھی بے احتیاطی ہوئی تو نہ صرف خطہ بلکہ پوری دنیا جنگ کی لپیٹ میں آسکتی ہے اور وہ بھی جوہری جنگ کی۔ اسی لئے وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی جنگ ہوئی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچے گا اور اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔ ہم اپنے ہمسائے سے سات گنا چھوٹے ہیں اور ایک چھوٹا ملک جب لڑتا ہے تو اس کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں ہتھیار ڈالے یا لڑے اور ہم آخری سانس تک لڑیں گے ، ہمارا للہ کے ایک ہونے پر یقین ہے اور ہم لڑیں گے۔ بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو کانئی دہلی میںمسئلہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ بارے کہنا ہے کہ آئین کی دفعہ 370 کا خاتمہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے ہدف کی طرف پہلا قدم تھااور اس کااگلا قدم آزادکشمیر کو واپس لینا ہوگا۔ ہمارا اگلا ہدف پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں بھارت کی سرزمین کو واپس لینا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما نے واضح کیا کہ 1994 ء میں بھارتی پارلیمنٹ نے آزادکشمیر کو واپس لینے کی قرارداد منظور کی تھی لہذا اس پر عمل درآمد کا وقت آگیا ہے مگر یہ مرحلہ وار ہوگا۔ پہلے مرحلے میں جموں و کشمیرکو جو مرکزی دھارے میں نہیں تھا، مکمل طور پر بھارت کے ساتھ جوڑدیا گیاہے۔اب اگلے مرحلے میں آزاد کشمیر کو حاصل کرنے بارے سوچا جائیگا۔ اکیسویں صدی کا بھارت 20 ویں صدی کے بھارت سے مختلف ہے جو رومانوی اور خاموش تھا کیونکہ اس میںتازہ تازہ آزاد ہونے والے لوگوں کے خواب تھے اورمجاہدین آزادی ان کی حکمرانی کررہے تھے۔ لیکن 21 ویں صدی کا بھارت عملی ، فعال اور متحرک ہے۔ اس کے برعکس وادی کے باسیوں کا کہنا ہے کہ جب وادی میں صورتحال نارمل ہو گی تو ان کے غصے کا واضح اظہار سامنے آئے گا جسے فی الوقت طاقت کے زور سے دبایا گیا ہے۔اسی طرح کے خیالات کا اظہار ہند نواز لوگوں نے بھی کیا۔ ان کی شکایت یہ ہے کہ بھارتی حکومت نے اس فیصلے سے قبل، جس نے ان کی زندگیوں کو متاثر کیا ، ان سے مشورہ نہیں کیا۔ وہ وادی میں ہمیشہ بھارت کے ساتھ کھڑے ہوئے مگر حکومتی فیصلے سے وہ ایسا محسوس کر رہے ہیں جیسے ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہو۔ جبکہ حریت پسندوں کے نزدیک انھیں بھارتی حکومت کے اس فیصلے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ حریت مجاہدین کا اصرار ہے کہ وہ ’آزادی‘ کے لیے لڑ رہے ہیں اور ان کی آزادی کی خواہش پر بھارتی حکومت کے کسی فیصلے کا کوئی اثر نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس اقدام کے بعد مسئلہ کشمیر اب مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔پاکستان کا دعوی یہ ہے کہ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈہ ہے جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔