معزز قارئین!۔ وزیراعظم جناب عمران خان کو داد دینا ہی پڑے گی ۔ 3 دسمبر کی شب وہ اکیلے تھے جب وہ، مختلف نیوز چینلز کے کئی تجربہ کار ( بلکہ جہاں دِیدہ ) "Anchorpersons" (نشری پروگراموں کے رابطہ کاروں) کے رو برُو (مدِ مقابل ، آمنے سامنے ) محو گفتگو تھے ۔ جنابِ وزیراعظم کی گفتگو بہت طویل تھی ۔ ظاہر ہے کہ موصوف اپنی حکومت کے سو ؔدِن کی کارکردگی کو ڈیڑھ گھنٹے میں تو بیان نہیں کرسکتے تھے؟ لیکن، اُنہوں نے تو کُوزے میں دریا کو بند ہی کردِیا۔ حضرت مرزا داغ ؔدہلوی سیاستدان نہیں تھے لیکن، اُنہوں نے اپنے بارے میں نہ جانے کِسے مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … مختصر ، واردات ، کہتا ہُوں! سوؔ کی مَیں ، ایک بات کہتا ہُوں! …O… اینکر پرسنز نے پاکستان (تحریک انصاف کی حکومت کے )سوؔ دِن میں تو زیادہ دلچسپی نہیں لی ( حالانکہ وہ ایک ایک دِن کا حساب لے سکتے تھے؟) لیکن ، اُنہوں نے قومی اور بین الاقوامی مسائل پر جنابِ وزیراعظم سے بہت سوالات کئے ، بہت سے سوالات چُبھتے ہُوئے بھی تھے لیکن، وزیراعظم صاحب نے بُرا نہیں منایا۔ جنابِ وزیراعظم نے اینکر پرسنز کو بتایا کہ ’’ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مجھے خط لکھ کر پاکستان ، افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد مانگی ہے اور ہم نے (حکومتِ پاکستان نے ) افغانستان میں قیام امن کے لئے پورا تعاون کرنے کا یقین دلا دِیا ہے‘‘ ۔ اب کیا کِیا جائے معزز قارئین! کہ ’ ’ 15فروری 2014ء کو لاہور میں منعقدہ ’’ عُلماء و مشائخ کانفرنس‘‘ میں شریک 32 مذہبی جماعتوں کے سربراہوں اور 200 سے زیادہ جیّد عُلماء نے طالبان کو’’ پاکستان کے بیٹے ‘‘ قرار دِیا تھا ۔اُس کے بعد مولانا سمیع اُلحق ’’طالبان کا باپ ‘‘ کہلاتے تھے ۔ 8 مارچ 2016ء کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر مولانا سمیع اُلحق کی طرف سے تصدیق کی گئی تھی کہ ’’ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے 4 ہزار طالبان قیدیوں کو جیلوں سے رہا کردِیا ہے‘‘ ۔ کسی دَور میں جناب عمران خان بھی ’’ طالبان خان‘‘ کہلاتے تھے ۔ موصوف مولانا فضل اُلرحمن کے سیاسی مخالف لیکن، مولانا سمیع اُلحق سے اِن کی دوستی تھی۔ افسوس کہ مولانا سمیع اُلحق کو 2نومبر 2018ء کو نامعلوم دہشت گردوں نے شہیدؔ کردِیا۔ ظاہر ہے کہ اِس شہادت میں صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کا تو کردار نہیں ہوسکتا؟۔ جنابِ وزیراعظم نے اینکر پرسنز کو بتایا کہ ’’ پاک فوج ہمارے ( پاکستان تحریک انصاف کے ) منشور کے ساتھ ہے (اچھی بات ہے ) لیکن ، اُس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ’’ مجھے افسوس ہے کہ ، چیف جسٹس صاحب نے (پاکپتن کے واقعہ ) پر میرے بارے میں اقربا پروری کے ریمارکس دئیے ‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ یہ چیف جسٹس صاحب کی اپنی قانونی رائے ہے ، جس کی بنیاد پر اُنہوں نے اِس طرح کے ریمارکس دئیے۔ وزیراعظم صاحب نے اینکر پرسنز کو یہ بھی بتایا کہ ’’ حکومت کو بتائے بغیر سٹیٹ بنک آف پاکستان نے ڈالر کو مہنگا کردِیا ‘‘۔ (یہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کا اپنا اختیار ہوگا) ۔ اُس کے اِس اختیار کے بعد "State Within State" بھی کہا جاسکتا ہے ۔ بھلا ’’ سٹیٹ بنک آف انڈیا ‘‘ ہمارے معاملات میں اِس طرح کی جرأت کیسے کرسکتا ہے؟۔ وزیراعظم صاحب نے اینکر پرسنز سے کہا کہ’’ دُنیا کے بڑے لیڈرز "U-Turn" لیا ہی کرتے ہیں ‘‘۔(جی ہاں!۔ معزز قارئین!۔ روس کے انقلابی لیڈر "Vladimir Lenin" نے ایک موقع پر کہا تھا کہ "One Step Forward Two Steps Backward" ۔ جناب وزیراعظم نے اینکر پرسنز کو یہ بھی بتایا کہ ’’ کاردگی کی بنا پر آئندہ چند دِنوں میں چند وزراء کو فارغ کردِیا جائے گایا اُن کی وزارتیں تبدیل کردِی جائیں گی ‘‘۔ معزز قارئین! ۔ اگر بھگت کبیر ؔکے ایک شعر میں لفظ فقیریؔ کے بجائے وزیریؔ جڑ دِیا جائے تو اُس کی یہ صورت ہوگی کہ … کبیراؔ، وزیری ؔدَور ہے ، جیسے پیڑ کھجور! چڑھے تو پیوے سوم رَسؔ، گرے توچکنا چور! …O… وزیراعظم صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ’’ "Governor's Houses" غلامی کی علامت ہے ‘‘ لیکن، کیا کِیا جائے معزز قارئین!۔ کہ ’’3 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مامون اُلرشید صاحب نے پنجاب حکومت کو گورنر ہائوس کی دیواریں مسمار کرنے سے تا حکم ثانی روک دِیا ہے‘‘۔ فاضل عدالت نے وزیراعظم صاحب کے احکامات کو معطل کرتے ہُوئے وفاقی اور پنجاب حکومت سے جواب طلب کرلِیا ہے ۔ لاہور کے ایک شہری خواجہ محسن عباس اور دیگرکی درخواستوں پر گورنر ہائوس لاہور کی دیواریں مسمار کرنے پر اپنے حکم میں کہا کہ ’’ اگر ایک اینٹ بھی گری تو اُس کے سب ذمہ دار جیل میں جائیں گے ‘‘۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’’ بھارت اور پاکستان میں نفرت روکنے کے لئے کرتار پور بارڈر کو کھولا گیا اور اگر دونوں ؔملک چاہیں تو، مسئلہ کشمیر بھی حل ہوسکتا ہے‘‘ ۔ جنابِ وزیراعظم ! ۔1947ء میں تحریکِ پاکستان کے دَوران سِکھوں نے مشرقی (اب بھارتی ) پنجاب میں 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید اور 55 ہزار مسلمان عورتوںکو اغوا کر کے اُن کی عصمت دری کی تھی؟ ۔ اُن کی رُوحیں آج ’’نیا پاکستان ‘‘ بنتے ہُوئے دیکھ کر کیا سوچ اور کہہ رہی ہوں گی؟۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے بدنیت بھارت بھلا اُسے حل کرنے پر کیوں توجہ دے گا؟۔ جنابِ وزیراعظم نے قبل از وقت کرانے کا اشارہ بھی دِیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اِس سے قومی خزانے پر کتنا بوجھ پڑے گا؟۔ پاکستان کے بھوکے ، ننگے اور بے گھر عوام تو کئی سالوں سے ایوانِ صدر / وزیراعظم ہائوس کی طرف ہر روز (دبی زبان میں ) یہ گایا کرتے ہیں کہ … روٹی، کپڑا ، بھی دے ، مکان بھی دے! اور مجھے جان کی امان بھی دے ! …O… جنابِ وزیراعظم نے اینکر پرسنز کو یہ بھی کہا کہ ’’ مولانا فضل اُلرحمن کی سیاسی دُکان بند ہوگئی ہے ‘‘ ۔ بھلا کسی اینکر پرسن کو اِس سے کیا غرض؟۔ ما شاء اللہ فضل اُلرحمن صاحب تو پھر بھی سیاست کے نام پر کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنے دَور میں مغرب کے مذہبی قائدین کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … دِیارِ مغرب میں رہنے والو، خُدا کی بستی دُکاں نہیں ہے! …O… پہلوانِ سُخن اُستاد امام بخش ناسخؔ نے ’’انتظام عالم ‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ … بِگڑے جاتے ہیںلاکھوں ،ہزاروں بنتے ہیں! شہر میں رات دِن جاری خُدا کا کارخانہ ہے ! …O… معزز قارئین!۔ بلا شبہ جنابِ وزیراعظم کے رُو برُو اُن سے کُھلّی ڈُلھی گفتگو کرنے والے اینکرز پرسنز قابلِ تعریف ہیں لیکن، ہر اینکر پرسن تو ، اُس وقت غالب ہوتا ہے جب، مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اُس کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں ۔ اکتوبر 2010ء میں صدر آصف علی زرداری کا دَور تھا جب ، میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کی نظم اسلام آباد کے ایک پندرہ روزہ ’’ رُو برُو‘‘ میں شائع ہُوئی تھی۔ جن کا عنوان تھا ’’ اینکر پرسن ‘ کے دربار میں ، جانا پڑتا ہے‘‘۔ اینکر پرسن ‘ کے دربار میں ، جانا پڑتا ہے ! جانے کا جب وعدہ کِیا ، تو نباہناپڑتا ہے ! …O… اپنے لیڈر کی ‘ عِزّت کی ‘ حفاظت کرنے کو ! دوسرے لیڈروں ‘ پر الزام ، لگانا پڑتا ہے ! …O… وضعداری ، خُوش اخلاقی ، اچھی عادت ہے! پھِر بھی ، فریق ِ مخالف کو ، دھمکانا پڑتا ہے ! …O… جوشِ خطابت میں ، مُکّا لہرانا ، ضروری ہے ! روکھی ، پھیکی ، محفل کو ، گرمانا پڑتا ہے ! …O… ضبطِ نفس کی ، ہر چینل پر ، پریکٹس ہوتی ہے ! غُصّے کی حالت ‘ میں بھی ، مُسکانا پڑتا ہے ! …O… کَج بحثی بھی ، عِلم ہے یارو ، اونچا بولنا فن ! ایک ہی بات کو ، سو ،سوؔ بار ، دُہرانا پڑتا ہے ! …O… ڈانٹ ، ڈپٹ ، اینکر پرسن کی ، سُننا پڑتی ہے! آگ بگُولا ، ہو جائے تو ، منانا پڑتا ہے ! …O… جی کرتا ہے ، ساری عُمر ، مناظرہ ہوتا رہے ! مجبوری ہے ، آخر تو ، گھر جانا پڑتا ہے ! …O…