محترم بلاول بھٹو صاحب فنکار سانجھے ہوتے ہیں، شوکت علی پاکستان کا مایہ ناز گلوکار ہے،اس کے ترانے سرحدوں پر بھی گونجے اور آپ کے نانا کے جلسوں میں بھی۔ لوک موسیقی ہو، غزل ہو یا کلاسیک، ہر صنف میں شوکت علی نے اپنی گائیکی سے کمال کے رنگ بھر کے اسے لازوال بنا دیا۔ جو کچھ گایا امر کر دیا۔ ان کے سُروں سے روحانی سرور کی کرنیں منعکس ہوتی دکھائی اور سنائی دیتی ہیں۔ شوکت علی صرف پنجاب کی آواز نہیں پورے پاکستان کی آواز ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے ان کو ہندوستان سے علاج کی کئی پیشکشیں موصول ہوئیں مگر انہوں نے اپنے وطن میں علاج کو ترجیح دی۔ ہمیشہ یہی کہا کہ پاکستانی حکومت انھیں علاج کے لئے کہیں بھیجے گی تو وہ جائیں گے ورنہ دھرتی پر ہی صبر کر کے بیماری برداشت کریں گے۔ وہ اگر ایک اپیل کر دیتے تو لوگ جمع پونجی نچھاور کر دیتے مگر حلیمی اور سفید پوشی کا بھرم لب کھولنے کی اجازت نہیں دیتا، بھرم قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت نے گمبٹ ہسپتال میں علاج کی آفر کی۔ بہت اچھا کیا مگر اسے جسے طرح سیاسی پوائنٹنگ کے لیے استعمال کیا وہ حیرت ناک ہے۔ وہ سندھ چلے تو گئے مگر عمر اور بیماری کی شدت اور نوعیت کے حوالے سے ان کا ٹرانسپلانٹ ممکن نہیں تھا تاہم ڈاکٹروں نے انہیں جس توجہ اور محبت سے سے دیکھا، ان کا علاج کیا اور انہیں اس قابل کیا کہ وہ صحت کی طرف لوٹ سکیں وہ قابل تحسین ہے۔ یہ بات بھی قابل داد ہے کہ سندھ حکومت نے جگر کے مریضوں کے لیے سندھ میں فری ہسپتال بنایا جہاں غریبوں کا مفت علاج ہو سکے۔ علاوہ ازیں مصنوعی دل کا پلانٹ بھی لگایا اور اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر پاکستانی نژاد ڈاکٹر پرویز چوہدری کو امریکہ سے لے کر آئے۔ مجھے حیرت ہوئی جب آپ نے ہزاروں کے مجمعے جسے دنیا کے بے شمار لوگ انٹرنیٹ پر بھی سن رہے تھے میں شوکت علی صاحب کا نام جس طرح پکارا اور جس انداز میں بات کی وہ کسی طور آپ کو زیب نہیں دیتا تھا۔ وہ نہ صرف اس حساس فنکار بلکہ اس کے بہت سارے چاہنے والوں پر بھی گراں گزرا۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے فنکار دوست جماعت رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کئی ثقافتی ادارے قائم کئے۔ اس لئے فنکار بھی اس جماعت سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فنکاروں سے اس جماعت کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ تاہم حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ شوکت علی کی مالی مدد کریں۔ ایسے ہیرے روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ وہ اس وقت بھی لاہور کے سی ایم ایچ میں زیر علاج ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی خصوصی ہدایات پر ان کے علاج پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔ ان کا گایا گیت ’’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ آج بھی سنیں تو وطن سے محبت کا جذبہ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ زندگی موت پر تو خدا ہی قادر ہے مگر زندگی کو سہل بنانا اور درد کا مداوا کرنا تو ہمارے بس میں ہے۔ حساس فنکار کو اس طرح دکھ میں رکھنا معاشرتی بے حسی کا ثبوت ہے۔ پاکستان ایک وفاقی ریاست ہے صوبوں کے درمیان محبت اور ہم آہنگی لازمی ہوتی ہے۔ پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو پنجاب کی اکثریت کی وجہ سے اقتدار میں آئے اور جب بھی آپ کی جماعت مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی پنجاب نے اس میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یوں کہنا چاہیے کہ پنجاب نے پیپلز پارٹی کی بھرپور ترویج کی۔ گوجرانوالہ میں بھی آپ کو توقیر دی گئی جو اچھی علامت ہے۔ وفاق کی حامل جماعتوں کو چاہئے کہ بڑے ظرف کا مظاہرہ کریں۔ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ صوبے اپنا دامن اتنا تنگ نہ کر لیں کہ تمام پارٹیاں صوبوں تک محدود ہو کر رہ جائیں اور پھر وہ فنکار جو ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں ان کی خدمت کرنا تو احساس کی بات ہے یقینا پہلے بھی محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب نے شوکت علی کے لیے اقدامات کیے تھے اور اب بھی کرے گا اچھا ہوتا سندھ حکومت کی طرف سے آپ بھی ایک اچھی مہمان نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے کم از کم ایک کروڑ کا چیک دے کر انہیں بھیجتے۔ گمبٹ ہسپتال میں ہر کسی کا مفت علاج ہوتا ہے۔ شوکت علی کا بھی سہی تاہم اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کرنا اچھی روایت نہیں۔ شوکت علی صاحب آمدورفت کے اخراجات خود برداشت کر کے لوٹ آئے ہیں اور ایک بار پھر حکومت کے حرفِ تسلی کے منتظر ہیں۔