افغان امن نازک ترین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور پاکستان کے لئے امتحان بن چکا۔ حسب توقع گزشتہ ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی اور امریکی قیادت کی ملاقاتوں میں افغانستان ہی بنیادی ایجنڈا رہا۔ وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ طالبان کی قیادت کو افغان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے کوشش کریں گے۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے دوران بھی امریکی قیادت اور اہلکاروں نے افغان طالبان کو امریکہ سے مذاکرات کے لئے میز پر لانے میں تعاون کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اس عمل کی ستائش کی۔ اس بار امریکی انتظامیہ نے پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرنے کے بجائے امن عمل میں اپنا مثبت کردار جاری رکھنے کی درخواست ہی کی ہے۔ پاکستان کی قیادت نے بھی یہ حساس ذمہ داری نبھانے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ دوسری طرف طالبان نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے ان کو دورے کی دعوت دی جاتی ہے تو پاکستانی وزیر اعظم کی دعوت کو خوش دلی سے قبول کریں گے۔ اس بات کا اندازہ تو ملاقات کے بعد ہی ہو گا کہ اب بھی پاکستان کا طالبان پر کس قدر اثرورسوخ باقی ہے۔ اب تک تو اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کے حوالے سے طالبان کا موقف کچھ حوصلہ افزا نہیں۔ تاہم طالبان نے یہ اشارہ ضرور دیا ہے کہ اگر ان کے امریکہ سے مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر وہ افغان حکومت سمیت افغانستان کے تمام سٹیک ہولڈرز سے بات چیت کا عمل شروع کریں گے۔ ابھی تک اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا طالبان کے امریکہ کے ساتھ ساتھ متوازی طور پرافغان حکومت سے مذاکرات نہ کرنے کے فیصلہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں!اگر طالبان پاکستانی درخواست کو مسترد کر دیتے ہیں تو پھر کیا پاکستان جبری طریقوں کے آپشن کا استعمال کرے گا؟اگر ایسا ہوتا ہے تو دیکھنا یہ ہو گا کہ پھر طالبان اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟۔ پاکستان کے لئے امریکہ سے تعلقات میں بہتری صرف معاشی معاملات کے لئے اہم نہیں بلکہ خطہ کے جیو سٹرٹیجک معاملات کے حوالے سے بھی نا گزیر ہے۔ پاکستان نے افغان طالبان اور دوسرے شدت پسند گروپوں کے بارے میں عالمی رائے عامہ سے مختلف سوچ کی وجہ سے بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے اپنے سٹریٹجک تعلقات کا رخ ماسکو بیجنگ ‘ استنبول اور ریاض کی طرف موڑا تھا اور ان ممالک سے دفاعی شراکت داری کے حوالے سے پیش رفت بھی ہوئی تھی لیکن اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کے پالیسی میکرز اس قسم کی سٹریٹجک پارٹنر شپ کو امریکہ سے بگڑے تعلقات کے تناظر میں نہیں بڑھا رہے تھے بلکہ امریکہ اور بھارت کی بڑھتی سٹریٹجک پارٹنر شپ نے پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو متبادل ذرائع ڈھونڈنے اور اپنی پالیسی پر نظرثانی پر مجبور کیاتھا۔ خاص طور پر افغانستان کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کی گئی۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بھی طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں سے تعلق کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر رکھتی رہی ہے جس کی وجہ سے فریقین کے تعلقات میں شدید تنائو دیکھا گیا۔ پاکستان کی عسکری قیادت اس وقت جو ضمانت دے رہی ہے ماضی میں سول حکومتوں کا یہی مطالبہ تھا۔ اس بات کا امریکی صدر ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ پریس کانفرنس میں اشارہ بھی کیا کہ پاکستان ماضی میں افغانستان کے معاملے میں بہت کچھ کر سکتا تھا۔ اگر ایسا کیا ہوتا تو آج پاکستان کی معیشت کا حال یہ نہ ہوتا اور پاکستان کی جیوسٹریٹجک حالت آج کے مقابلے میں بہت بہتر ہوتی۔ تاہم پاکستان نے بہت کچھ گنوا کر اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے۔ اب بھی پاکستان اپنی اہمیت منوانے میں اس لئے کامیاب ہوا ہے کیونکہ بھارت افغان امن عمل میں اپنی حیثیت تسلیم نہ کروا سکا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس حالیہ کامیابی کا سہرا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے سر ہے۔ اسی طرح امریکہ کی طرف سے تنازع کشمیر میں ثالثی کی پیش کش سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر دبائو میں اضافہ ہوا ہے ۔یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی بھارت سے تعلقات کے حوالے سے گھٹن کا شکار تھی اور اس کی وجہ بھارت کا روس سے اربوں ڈالر کادفاعی معاہدہ اور بھارت امریکہ تجارتی کشیدگی ہے۔عمران خان کے دورہ کے بعد پاکستان امریکہ تعلقات پھر سے فاسٹ سفارتی ٹریک پر آ گئے ہیں۔ اس رفتار کو بحال رکھنے کے لئے پاکستان کو افغانستان کے محاذ پر کارکردگی دکھانا ہو گی۔ یقینا طالبان اور کابل کے درمیان براہ راست مذاکرات تو محض ایک چیلنج ہے۔ اس کے بعد طالبان کو سیز فائر پر آمادہ کرنے کا اعصاب شکن مرحلہ آئے گا۔ اب تک تو طالبان نے خود کو سخت جان مذاکرات کار ثابت کیا ہے۔ ان کے امریکہ سے مذاکرات کا فوکس بھی افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور نگران حکومت کے قیام پر ہو گا۔ تاہم طالبان کے لئے مستقل جنگ بندی کا فیصلہ اتنا آسان نہ ہو گا۔ بہت سے کمانڈر اس واہمہ کا شکار ہیں کہ وہ جنگ جیت رہے ہیں اور وہ افغانستان پر مکمل حکومت سے کم پر آمادہ نہ ہوں گے۔ افغان جنگ کی جیت کا یقین اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ یہ مذاکرات کرنے والی افغان قیادت کے لئے بھی چیلنج بن چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگ پر مائل طالبان کمانڈروں کی بغاوت سے نمٹنا طالبان قیادت کے لئے کوئی خاص مشکل کام نہ ہو گا اور افغان طالبان اپنی قیادت کے فیصلوں پر بالآخر عمل درآمد پر کامیاب ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے پاکستان کے پاس بھی ایک موثر ہتھیار طالبان کمانڈروں کے خاندانوں کی پاکستان میں موجودگی ہے پاکستان کے ذریعے دبائو بڑھ سکتا ہے تاہم پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو عالمی توقعات سے عہدہ برا ہونے کے لئے اس ڈیل کو کامیاب کرنا ہو گا۔