مانسہرہ کی خوبصورت وادی سے ہمیں چار سالہ جنت کی خبر ملی اس خبر سے پہلے تو ہم جنت کو نہیں جانتے تھے اور یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ یہ گڑیوں جیسی معصوم بچی جس کے والدین نے اس کا نام جنت رکھ کر اس سے اپنے پیار کا اظہار کیا تھا اپنی چار سالہ مختصر زندگی میں غربت کے جہنم سے بھی کیسے گزری ہو گی۔ غربت اور جہالت کا جہنم نہ ہوتا تو وہ اس طرح لاوارث بے آسرا‘ درخت سے ٹوٹے ہوئے زرد پتے کی طرح ادھر ادھر والدین کے کسی حفاظتی حصار کے بغیر کیسے کھیل کود رہی ہوتی۔ یہ غربت اور جہالت بھی جرائم کی ماں ہے۔ چار سالہ بچی آخر اتنی کم سنی میں کیسے اکیلی گھر سے نکلی اور جنسی ہوس سے بائولے انسانی کتے کے ہاتھ لگ گئی۔ اس معصوم گڑیا پر ظلم ڈھا کر وہ جہنمی اسے کئی فٹ گہرے گڑھے میں پھینک گیا۔ ایک جیتی جاگتی سانس لیتی انسانی گڑیا کو وہ ایسے گڑھے میں پھینک گیا کہ ایسے تو کوئی پلاسٹک کی گڑیا بھی نہ پھینکتا ہو گا۔ لیکن پلاسٹک کی گڑیا پر ایسا ظلم بھی تو کوئی نہیں ڈھاتا۔ جو جنت پر ڈھایا گیا۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ نام ماں باپ نے جنت رکھا اور یہ دنیا اس کے لئے جہنم ثابت ہوئی۔ اس تاریک گڑھے میں ظلم گزیدہ جنت ادھ موئی‘ ادھڑی‘ مسلی‘ بکھری چار دن تک پڑی رہی۔ سانسیں باقی تھیں تو سانس لیتی رہی۔ ہائے کس قدر اندھیرا ہو گا۔ ڈرائونا گڑھا ۔ ماں کی گود سے دور باپ کے کاندھے سے دور ننھی بچی اکیلی تڑپتی رہی۔ پھر جب کچھ راہگیروں نے اسے باہر نکالا تو سخت جان گڑیا زندہ تھی۔ سانس لے رہی تھی۔ لیکن آخر کب تک سانس لیتی۔ کب تک اتنا ظلم سہہ کر زندہ رہتی۔ بالآخر ہسپتال میں گڑیا مر گئی ،اچھا ہی ہوا کہ مر گئی ۔اور زندگی کے جہنم سے جان چھوٹ گئی۔ ورنہ جنت اس معاشرے کے جہنم میں میں زندہ رہ کر کیا کرتی۔ابھی یہ خبر اپنی ہولناکی کے باعث مجھے عجیب ناقابل یقین لگ رہی تھی کہ سندھ کے شہر دادو کے ایک گوٹھ سے گل سما کی خبر آئی خبر کیا تھی‘ ظلم‘بربریت اور وحشت ناک رسموں کا ایک گھنائونا چہرہ تھا جو دنیا کے سامنے آ کر سوال بن گیا کہ دنیا ڈیجیٹلائز ہو گئی۔ مصنوعی ذھانت سے بنائے روبوٹ پورے سماج کی شکل بدلنے والے ہیں۔ دنیا مریخ پر کھدائی کے پروگرام بنا رہی ہے کہ چاند پر جانے کا قصہ تو پرانا ہوا اور ایک ہم ہیں کہ ابھی تک جاہلیت پر مبنی غیر انسانی رسم و رواج کے تاریک کنوئیں میں جی رہے ہیں۔ یہاں آج بھی رسمیں زندگی سے بڑی ہیں۔ روایتوں اور رواجوں کو بچانے کے لئے ان پر زندگی کے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔ دادو کی گل سما بھی ان وحشت ناک رواجوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ جنت اور زینب کے کیس ہم معاشرے کا نوحہ پڑھتے ہیں کہ معاشرے میں تعلیم‘ تہذیب‘ حیا اور اخلاق کا اس قدر قحط پڑ چکا ہے کہ ہماری معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ مگر دادو میں کاروکاری کے الزام میں سنگسار ہونے والی گل سما کے تو اپنے والدین اس ظلم میں شریک تھے۔ 11سالہ معصوم بچی پر بدکاری کا الزام لگانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اتنی کم سن بچی نے ایسا کیا کر دیا کہ اسے کاری قرار دے دیا گیا اور سندھ کے جاہلانہ قبائل میں اگر کوئی عورت کاری کر دی جائے تو پھر موت ہی اس کی جائے پناہ ہوتی ہے۔ زندگی اس کے لئے موت سے بدتر ہو جاتی ہے۔ خبر میں بتایا گیا کہ گل سما کے والدین نے اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سنگسار کر کے مارا۔ اگلی صبح آٹھ بجے مولوی کو بلا کر جنازہ پڑھانے کا کہا۔ مولوی صاحب نے استفسار کیا کہ بچی بالغ یا نابالغ تو بتایا گیا کہ بچی کی عمر دس گیارہ سال ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہماری بیٹیاں ایسے غیر انسانی رواجوں اور روایتوں کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی۔ جرگوں اور قبائل کے اپنے پنچایتی فیصلوں کے سامنے ریاست کے قانون کی اہمیت کیا ہے اور کیوں ریاست کا قانون حرکت میں نہیں آتا۔ تعلیم اور صرف تعلیم سے شعور بیدار ہو گا۔ سنگدل رواجوں کی یہ زنجیریں اس وقت ہی ٹوٹیں گی جب تہذیب اور شعور کی روشنی میں تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مارتا سمارج ‘ بیٹیوں کے حقوق کا احترام کرے گا۔ لاہور کے سرکاری یتیم خانے سے آنے والی افسوس ناک خبریں ہمیں بتاتی ہیں کہ ظلم کا شکار صرف جہالت زدہ سندھ کے گوٹھوں کی بیٹیاں ہی نہیں ہو رہی ہیں۔ یہاں ملک کے سب سے ترقی یافتہ صوبے پنجاب کے دل لاہور میں سرکاری یتیم خانے میں پناہ کے لئے آئی ہوئی معصوم کم عمر بچیوں کو مبینہ طور پر اہل اختیار و اہل اقتدار کو خوش کرنے کے لئے ان کی جبری شادیوں پر انتظامیہ کی طرف سے مجبور کیا جاتا تھا۔ سرکاری یتیم خانے کی ایک بہادر اہلکار افشاں نے یہ انکشاف کیا معاملے کی انکوائری اب ہو رہی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ سرکار کی طرف سے ہمیشہ کی طرح اعلان کیا گیا کہ معاملے کی شفاف انکوائری کروائی جائے گی۔ مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی‘ قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جائے گا۔ یہ گھسے پٹے ‘ بے روح‘ جملے یہاں بائی ڈیفالٹ ہی دھرا دیے جاتے ہیں۔ اس سے مطلب یا نتیجہ نکالنے کی ہرگزکوشش نہ کریں وطن عزیز میں بیٹیوں پر اس وقت قیامت کی گھڑی ہے۔ ظلم‘ وحشت ‘ خوف‘ سہم‘ عدم تحفظ کے عالم میں ایک ہی دعا منہ سے نکلتی ہے۔ اگلے جنم موھے بٹیا نہ کیجو!!