اب آگے کیا۔۔۔۔ ؟ یہ آج کا ملین ڈالر ، بلکہ کئی بلین ڈالر مالیت کا سوال ہے۔ اس وقت اگر جنگ کسی صورت بھی سامنے آتی ہے، جس میں بری اور بحری افواج بھی شامل ہو جائیں تو کم سے کم دورانیہ کی لڑائی بھی دونوں اطراف اربوں ڈالر کا نقصان کر ڈالے گی۔ اسی لیے عام آدمی سے لے کر حکومتی سطح ، یہاں تک کہ دنیا بھر کے اہم دارالحکومت بھی اسی سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔ دراصل اس وقت اس سوال کے ہر جواب کا بہت حد تک انحصار اس بات پر ہے کہ بھارت کیا چاہتا ہے۔ بھارت نے ایک initiative لیا جس سے وہ خاطرخواہ فائدہ اٹھانے میں ناکام رہا۔ الٹا یہ ہوا کہ اس کے دو جنگی طیارے تباہ ہو گئے اور ایک پائلٹ کو پاکستان نے گرفتار کر لیا۔ کسی بھی زاویہ سے دیکھا جائے تو یہ اس کے لیے باعث خجالت ہے۔ خاص کر اس تناظر میں یہ معاملہ اور بھی گھمبیر ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی کسی بھی کارروائی بشمول بالاکوٹ پر مبینہ ہدف کی تباہی اور پاکستانی ایف سولہ جہاز گرانے کا کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ پاکستان کی جوابی کارروائی کے تمام شواہد روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ اگر بات پہلے مودی صاحب کی انتخابی مہم کی تھی تو اب اس میں وہ احساس ہزیمت بھی شامل ہو گیا ہے جس کا شکار ان کی ائرفورس اس وقت ہو گی۔ گویا یہ مسئلہ اب الجھ گیا ہے۔ اب اس میں فورسز اور پھر عوام کے مورال کا عنصر بھی ایک براہ راست فیکٹر بن چکا ہے۔ انتخابات کے حوالہ سے بھی مودی جی کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ بی جے پی کے سینئر رہنما اور ریاست کرناٹک کے سابق وزیر اعلی یدورپا صاحب پہلے ہی ریکارڈ پر ہیں کہ 26 فروری کی ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ سے بی جے پی کرناٹک اسمبلی میں 22 مزید نشستیں جیت جانے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ صرف چوبیس گھنٹے کے اندر یہ صورتحال قطعی مختلف رنگ اختیار کر چکی ہے۔ نریندر مودی جیسا سیاستدان جو اقتدار کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی شہرت رکھتا ہو وہ بھلا کیسے اس موقع پر سب بھول بھال کر صلح یا امن کی بات شروع کر دے گا۔ اس وقت بھارت کے سامنے ایک راستہ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کی کارروائی کے جواب میں ایک بڑی فوجی کارروائی کرے جس سے مودی جی اور بھارتی فوج پھر سے 26 فروری کی پوزیشن پر آجائیں۔ لیکن اس میں دو مشکلات ہیں۔۔۔۔ اول تو یہ کہ ایسا ہوگا تو پھر پاکستان بھی جواب دے گا اور اس میں یہ خطرہ بہرحال موجود رہے گا کہ یہ کارروائی بھی کہیں 27 فروری جیسے نتائج پیدا نہ کر دے۔ دوسرا یہ کہ اس مرتبہ کسی بھی عسکری کارروائی کے لیے سوائے انتقام کے کوئی اور عذر بھارت کے پاس اس وقت موجود نہیں۔ جو بزعم خود اخلاقی برتری اسے مبینہ سٹرائیک کے لیے حاصل تھی اور جن آرٹیکلز کے حوالے اس کے سیکرٹری خارجہ نے اس مقصد کے لیے پیش کیے وہ اب موجود نہیں۔ نہ ہی اب "نان ملٹری" حملہ ممکن ہے۔ اب تو یہ سیدھی سیدھی جنگی کارروائی ہے۔ اس صورتحال میں رسک اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ بین الاقوامی سفارتی حمایت بھی کچھ مدہم پڑ سکتی ہے۔ بالخصوص اس تناظر میں کہ پاکستان ہر ممکن اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ اس کی جانب سے عسکری سطح پر کوئی اشتعال انگیزی نہ ہو اور حکومت بھی مسلسل مذاکرات اور امن کی بات کر رہی ہے۔ اب بھارت کے سامنے دو آپشنز ہو سکتے ہیں۔۔۔۔ ایک تو یہ کہ کوئی سفارتی فیس سیونگ تلاش کی جائے اور اس کے ہنگام کوئی موقع آئے تو نئے سرے سے کسی کاروائی کا سوچا جائے یا پھر پاکستان پر سفارتی دباؤ کو بڑھانے کی کوشش ہی جاری رکھی جائے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت نے اس جانب پیش قدمی کا آغاز کر دیا ہے۔ کل نئی دہلی میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ ان سے زیر حراست پائلٹ کے ساتھ سلوک پر احتجاج کیا گیا اور اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ ساتھ ہی پلوامہ حملے سے متعلق مبینہ شواہد پر مشتمل ایک "ڈوسئیر" ان کے حوالے کیا گیا۔ گویا بال اب پاکستان کے کورٹ میں ڈال دی گئی کہ وہ اس ڈوسئیر میں مذکورہ افراد کے خلاف فوری کارروائی کر کے اپنی نیک نیتی کا ثبوت دے۔ یہ ڈوسئیر بظاہر دیا تو پاکستان کو گیا ہے لیکن اس کے اصل مخاطب امریکہ ، برطانیہ اور فرانس وغیرہ ہیں۔ توقع یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس پلندے میں ہے پاکستان پر دباؤ ڈلوایا جائے کہ اسے سچ مانتے ہوئے اس پر فوری کارروائی ہو۔ یہ اس اخلاقی "برتری" کو بحال کرنے کی کوشش ہے کہ پاکستان دراصل سرکاری سطح پر دہشتگردوں کا پشت پناہ ہے اور اس سے اس ضمن کسی تعاون کی امید عبث ہے۔ پہلے بھی اسی وجہ سے راست اقدام کرنا پڑا اور شاید اب بھی یہ راستہ کھلا رکھنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ بھی ایک آپشن پر کام شروع ہو چکا، مسعود اظہر کو اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل سے دہشت گرد قرار دلوایا جائے۔ اب تک اس کوشش کی راہ میں عوامی جمہوریہ چین کا ویٹو حائل رہا ہے۔ اب پھر امریکہ، برطانیہ اور فرانس اس معاملے کو سکیورٹی کونسل میں اٹھانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا اس بار چین اس کو ویٹو کرے گا یا نہیں اس کا انحصار چین سے زیادہ خود پاکستان پر ہے کہ کیا وہ امن کے لیے بھارت کو یہ فیس سیونگ دینے پر آمادہ ہو گا ؟ یہ ایک بڑا فیصلہ ہو گا کیونکہ اس سے نہ صرف پاکستان کی سفارتی ناکامی پر محمول کیا جا سکے گا بلکہ اس سے آگے چل کر ایسی پیچیدگیوں کا احتمال ہے جو پاکستان کو مشکلات سے دوچار کر سکتی ہیں۔۔ اس لیے اس پر کوئی فیصلہ آسان کام نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم پاکستان نے درست کہا تھا، جنگ شروع تو کی جا سکتی ہے لیکن اس کے بعد معاملات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتے۔ ابھی صرف دو دن کا ایکشن ہؤا ہے لیکن ڈوریں اس قدر الجھ گئی ہیں کہ کسی Win Solution کے امکانات معدوم دکھائی دے رہے ہیں۔ ان حالات میں بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی بھارت واپسی روشنی کی کرن ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ بالعموم کسی بیک ڈور رابطہ یا یقین دہانی کے بعد ہی ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ حالات مزید نہ بگڑنے کے باوجود بھی دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر آنے میں ایک طویل عرصہ درکار ہو گا۔