مشورہ تو بہرحال امانت ہے اور ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کا جوابدہ ہے۔ یہ دو سادہ سے اصول ہیں۔ یہ اصول معاشرے کی چھوٹی اکائی سے لے کر ارباب اقتدار تک کے لیے مستقل راہ نما ہیں۔ درست مشورے اور اپنی ذمہ داری کا احساس ہماری سوچ اور عمل کو از خود پابند کر دیتے ہیں۔ ملک کی جدید و تازہ صورتحال یہ ہے کہ عوام اور حکومت معاشی و انتظامی بحران سے نکلنے کے لیے سرگرم جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہیں۔ مزاحمت بہت شدید ہے۔ ہر طرز کی مزاحمت‘ ہر محاذ پر مزاحمت لیکن جنگ جاری ہے اور اپنے فیصلہ کن موڑ کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ قومی فکر کے غلبے کے لیے ظاہری بیانات اور تسلیاں بھی پورے زور و شور سے گردش میں ہیں۔ اہل قلم اور حساس ذہن جاگو اور جگائو کی پر خلوص اور تیز تر کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن دوسری جانب نظریہ وطن کے مخالفین نئے رنگوں میں ڈوبے اپنی شر پسندانہ سرگرمیوں سے اصلاح کے راستوں کو کھوٹا کرنے میں مصروف ہیں۔بگڑے ہوئے کھیل کو سنوارنا اور پھر پورے اعتماد سے سفر جاری رکھنا بھی توفیق خداوندی ہی سے ممکن ہے۔ توفیق خداوندی کے لیے ہر طبقہ وطن کو اخلاص سے دعا گو رہنا چاہیے۔دعا تو بہرحال اول اور آخر ایک ایسی قوت ہے جو حوصلے ہمت کو جواں رکھتی ہے اور حوصلے و ہمت کو کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ہموار راستہ بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت مختلف طبقات کے نمائندوں کو بلاتی ہے‘ ان کے خیالات کو سنتی ہے لیکن مستقل نظام مشاورت نہ ہونے کے باعث ان کی تجاویز اور آراء ہوا میں اڑ جاتی ہیں۔پھر وہی کابینہ کا اجلاس‘ مقتدر پارٹی قیادت کی قیادت اعلیٰ کا رعب اور خوف حقائق بیانی کو مصلحت کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے پھر کابینہ میں بھی کچھ جذباتی اور خوشامدی لوگ موجود رہتے ہیں جو اپنی وفاداری میں صف اول کے جانثار شمار ہوتے ہیں۔ وہ قیادت پر اپنی فسوں کاری کو ایسا غالب کرتے ہیں بلکہ مسلط کر دیتے ہیں کہ قیادت ان کے ہر مشورے کو نسخہ نجات سمجھ کر قبول کر لیتی ہے۔ پاکستان کی نظریاتی شناخت اور اسلامی تشخص مغرب اور اس کے بہی خواہوںکو کبھی بھی پسند نہیں رہا ہے۔ مغرب اور اسلام دشمن قوتیں نظریہ پاکستان اور باشندگان پاکستان کے اسلامی تشخص کو مسمار کرنے کے لئے شعوری اور مسلسل کوششوں میں مصروف رہتی ہیں اور ان کی یہ ناپسندیدہ و مکروہ کوششیں پاکستان کے اداروں کو بطور خاص اپنی تخریبی نیزوں پر رکھتی ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کو ڈھال بنا کر مغرب اور پاکستان کے دیگر منظم بدخواہ پاکستان کے معاشی و انتظامی مسائل میں نہ صرف بے جا ٹانگ اڑاتے ہیں بلکہ اپنے زر خرید گماشتوں کے ذریعے سے معاشی و انتظامی زوال کا اہتمام کرتے ہیں۔ پاکستان کی اس خرابی کو مزید بڑھانے کے لیے مشیروں کی صف میں ایسے ایسے ذہنی تخریب کار داخل کر دیئے جاتے ہیں جو نہایت چالاکی سے اپنے مغربی آقایانِ نعمت کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور ارباب بست و کشاد کو حالات کی ایسی عجیب و غریب تصویر دکھاتے ہیں کہ نئے فیصلوں پر پھر وہی چھاپ نظر آتی ہے جو ہماری قومی و مذہبی شناخت کو بالکل مدھم کر دیتی ہے۔دوسری طرف اقتدار کی بڑی کرسی پر متمکن صاحب اختیار نشہ اقتدار میںاتنا چور ہوتا ہے کہ اسے اپنی ذمہ داری تو کجا اسے اپنی ذات کے وقار تک کا خیال بھی نہیں رہتا۔ یہ حقیقت اور تلخ حقیقت ہے جو ہماری ذمہ داران حکومت کو اپنے چنگل میں دبائے ہوتی ہے۔ دوسری جانب معاشرے کا ایک اور مقتدر طبقہ ہے جو کرسی اقتدار پر تو متمکن نہیں لیکن ہے ان کے اقتدار کا سکہ عوام الناس کے دل و دماغ پر چلتا ہے۔اس گروہ مقتداراں میں علماء ہیں۔ مشائخ ہیں اور ان کے زیر اثر طبقہ ہائے معاشرے کے وہ افراد ہیں جو خواستہ و نخواستہ ان کی ضرورت کو اپنی زندگی میں شامل رکھتے ہیں۔اس طبقہ علماء و مشائخ میں صالحین بھی ہیں‘ عاقلین بھی ہیں‘ ناصحین بھی ہیں اور مبلغین بھی ہیں۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کو اپنے دائرہ اختیار میں رکھتے ہیں اور حلقہ اقتدار میں بھی شامل کئے ہوتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو اسلام اور پاکستان کو اپنے نعرہ و منشور میں شامل رکھتے ہیں اور اس کا عملی اظہار بھی موقعہ بہ موقعہ کرتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں کہ انہیں اسلام کا نعرہ تو پسند ہے لیکن نجی مجالس میں اکثر اور برسر عام کبھی کبھار پاکستان کو کوستے ہیں ان کا اپنا مزاج ہے اور دنیاوی حکمرانوں کی خلوت و جلوت میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے نہایت دلفریب اور خاموش حربے استعمال کرتے ہیں۔ عوام بہت سادہ ہیں جس کے سبب بیمار ہوتے ہیں اسی ’’خوب سیرت ‘‘ سے دوا لیتے ہیں۔عوام ان کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ ان کی مانتے ہیں اور کسی کا درست مشورہ بھی تسلیم نہیں کرتے ہیں اور عوام کے یہ مقتدا اپنی ذمہ داریاں خود ہی طے کرتے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے۔ اپنے دلدادگان عوام پر یہ ذمہ داریاں ڈال دیتے ہیں۔ جان‘ مال‘ عزت وقار سب کچھ عوام ہی کو قربان کرنا پڑتا ہے۔یہ دلبران قوم اپنے اپنے مجروحین محبت کو مسلک‘ تنظیم‘ جماعت اور پارٹی میں تقسیم کر کے رکھتے ہیں۔ وقت پڑنے پر بہت احتیاط سے اتحاد بنا لیتے ہیں اور وقت آنے پر محتاط طریقے سے انتشار پر اتر آتے ہیں۔ دین‘ قوم اور ملک کے نظریہ اساس کی حفاظت سے یہ بھی غافل ہیں۔ ناموس رسالتؐ اور ختم نبوتؐ بقائے دین کے دو اہم ترین موضوع ہیں۔ عوام ان کے بلاوے پر لبیک کہتے ہیں۔ جان نچھاور کرتے ہیں۔ لیکن اہتمام نظم دین کے بزعم خود قائدین کرام ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوتے۔ کبھی عوام کے دبائو میں اور کبھی ملوکیت حاضرہ کے اشارے پر اور کبھی بیرونی مفسدین کے ایماء پر یہ قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مقاصد اور نصب العین کا اعلان کرتے ہیں لیکن دماغ اور زبان کو برمحل استعمال نہیں کرتے‘ شاید سلیقہ نہیں ہے یا پھر سلیقے کو کسی بیرونی ہدایت کے سپرد رکھتے ہیں۔ دینی قیادت کے یہ دعویدار اپنی جدوجہد کا ہدف غلبہ اسلام بتاتے ہیں لیکن اپنے متبعین کے گروہوں کی افزائش و نمو ان کے کارہائے نمایاں ہیں۔ مسلمانوں کی باہمی تفریق کے فاصلوں کو پاٹنا ان کے فیصلوں کا حصہ نہیں ہے ان کے مشیران وہ ہیں جو ان کو ان کی جماعتوں کی تقویت کے لیے مالی کمک فراہم کرتے ہیں۔ گستاخی و شماتت کی کافرانہ ‘ مفسدان مغربی و مشرقی کاوشوں نے فروغ پکڑا ہے۔ ابھی تک کوئی بدبخت گستاخ رسول اور منکرِ ختم نبوت اپنی بدانجامی کو نہیں پہنچا۔ احتجاج ہوتے ہیں۔ جلسے اور جلوس بھی نظر آتے ہیں اور دھرنوں کی تاریخ بھی مضبوط ہوئی ہے لیکن کچھ خیر کی خبر نہیں آتی۔وجہ محض یہ ہے کہ دینی قیادت کے دعویدار ذہنی انتشار اور باہمی عملی تفریق کا شکار ہیں۔