آئی ایم ایف کے وفد نے حکومت کی معاشی اصلاحات کو موثر اور اطمینان بخش قرار دے کروزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقاء کے لئے ستائش کی گنجائش پیدا کی ہے۔ ان دنوں مہنگائی‘ بے روزگاری اور کاروباری مواقع محدود ہونے کی وجہ سے عمومی طور پر حکومت تنقید کی زد میں ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے اقدامات اور فیصلوں سے مستقبل میں شرح نمو بڑھنے اور مستحکم ہونے کی امید ہے۔ مشن کے سربراہ جیہاد آزور کے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد اگلے ماہ پاکستان آئے گا اور 6ارب ڈالر کے پروگرام پر عملدرآمد کی پڑتال کرے گا۔ تحریک انصاف نے ایک برس قبل اقتدار سنبھالا تو خزانے کی حالت ابتر تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے سکڑ رہے تھے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہر ماہ بڑھ رہا تھا۔ سٹاک مارکیٹ اور روپے کی قدر کو چیلنج کا سامنا تھا۔ ملک پر95ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ تھا جسے واپس کرنے کے لئے رقم نہیں تھی۔ درآمدات میں برآمدات کی نسبت کئی گنا اضافہ تجارتی توازن کو بگاڑ رہا تھا۔ نگران حکومت کے دور میں ان خرابیوں کے اثرات سامنے آنے لگے تھے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے سے صرف اسی صورت بچا جاسکتا تھا کہ فوری طور پر آٹھ دس ارب ڈالر کی رقم مل جاتی۔ عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی آئی ایم ایف سے رجوع کر لیتے تو خرابی کا قد اور حجم بڑھنے کی نوبت نہ آتی۔ عمران خان اپنی انتخابی مہم اور اس سے قبل اپوزیشن جماعت کے سربراہ کے طورپر برسہا برس سے آئی ایم ایف کے پروگرام کو کسی ریاست کی معاشی خودکشی قرار دیتے رہے تھے۔ ان کے ماضی کے بیانات آئی ایم ایف سے رجوح میں رکاوٹ بن گئے۔ مزید یہ کہ انہوں نے انتخابی منشور میں 50لاکھ گھروں کی تعمیر سمیت ایسے متعدد وعدے کر رکھے ہیں جن کے لئے بھاری رقم یا سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پانچ ماہ ضائع کرنے اور ابتدائی معاشی ٹیم کی کارکردگی سے مایوس ہونے کے بعد آخر کار وزیر اعظم کو آئی ایم ایف سے بات کرنا پڑی۔ ان کے خیال میں دوست ممالک کی طرف سے مدد کا جو خاکہ تھا اس میں رنگ نہ بھرے جا سکے۔ سعودی عرب نے 3سال تک 9ارب ڈالر کا تیل ادھار دینے اور سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ متحدہ عرب امارات نے 3ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر میں رکھنے کے لئے مہیا کئے۔ ملائشیا کے دانشمند وزیر اعظم مہاتیر محمد نے ٹیکس محاصل بڑھانے کے کچھ آزمودہ طریقے بتائے مگر زرمبادلہ کے ذخائر پر بیرونی ادائیگیوں کے باعث بڑھتا دبائو کسی طرح کم نہ ہو سکا۔ آخر حکومت کو کئی بارروپے کی قدر کم کرنا پڑی۔ اس کے نتیجے میں روپے کی ایک ڈالر کے مقابلے میں قدر 128روپے سے بڑھتے بڑھتے 158روپے تک جا پہنچی۔ آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کے پیکیج کے لئے بات چیت نئی معاشی ٹیم نے شروع کی۔ روپے کی قدر میں کمی سمیت کئی فیصلے مذاکرات سے پہلے ہی عملی شکل میں سامنے آ گئے۔ آئی ایم ایف نے قرض کے پروگرام کے ساتھ جو شرائط منسلک کیںان میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر کا تعین کرنے کے بجائے اسے مارکیٹ کی قوتوں پر چھوڑ دے گی کہ وہ شرح تبادلہ کا طے کریں۔ سٹیٹ بنک کے کردار کو بھی خاصی حد تک محدود کیا گیا۔ ان تدابیر پر عمل کیا گیا۔ حکومت پہلے ہی اخراجات میں کمی کے لئے کفایت شعاری مہم پر عمل پیرا ہے‘ نئے ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز کا اجرا سخت پڑتال کے بعد ہوتا ہے۔ حکومت نے کوشش کی کہ برآمدات کا حجم بڑھایا جائے۔ برآمداتی شعبے کی استعداد جب قابل ذکر دکھائی نہ دی تو پھر درآمدات میں کمی کا طریقہ آزمایا گیا۔ بلا شبہ سی پیک منصوبوں کی وجہ سے مشینری اور ضروری اشیاء کی درآمد نے درآمدات میں اضافہ کیا۔ حکومت نے درآمدات پر نگرانی بڑھائی تو کئی چیزوں کی درآمد کم یا ختم ہو گئی۔ اس سے تجارتی خسارہ گزشتہ چالیس برس میں تاریخ کی سب سے کم ترین سطح پر آ گیا ہے۔ روپے پر دبائو اور کرنٹ خسارہ کے تناظر میں یہ اہم کامیابی ہے مگر دوسری طرف اس پالیسی نے ان شعبوں کی کارکردگی کو متاثر کیا جو دولت اور اشیا کی پیداوار میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ آئی ایم ایف کے وفد نے جہاں پاکستانی حکام کی کارکردگی کو سراہا وہاں اس بات کا اظہار بھی کیا کہ یہ کارکردگی زیادہ بہتر ہو سکتی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے معاشی چیلنجز کی نوعیت بڑی عجیب و غریب ہے۔ سابق حکومتیں عشروں سے بعض غیر منافع بخش اداروں کو سبسڈیز دے کر چلاتی رہی ہیں۔ مسلم لیگی حکومت نے کھربوں روپے کے تعمیراتی و ٹرانسپورٹ منصوبوں کو بھاری غیر ملکی قرضوں سے مکمل کیا۔ لاہور میں میٹرو ٹرین اور پشاور میں ریپڈ بس منصوبہ التواء کا شکار ہونے کی وجہ سے زیادہ لاگت کے ہو چکے ہیں۔ ٹیکس محاصل میں اضافہ کے لئے حکومت نے ٹیکس نیٹ میں قابل قدر اضافہ کیا مگر کاروبار سست ہونے کی وجہ سے ٹیکس جمع کرنے کی رقم تسلی بخش نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور جارحیت نے پاکستان کی دفاعی ضروریات بڑھا دی ہیں۔ ان ضروریات کو پورا کئے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ افراط زر توقع سے زیادہ بڑھی ہے‘ شرح نمو کی رفتار 2.4کے لگ بھگ ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ اگلے دو برس تک شرح نمو کی رفتار یہی رہ سکتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ معاشی اصلاحات کے اس ایجنڈے پر عملدرآمد جاری رہنے کے لئے ملک میں جس سیاسی استحکام کی ضرورت ہے وہ بعض اپوزیشن جماعتوں کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہے۔