کیا کیا باکمال اور پیارے لوگ ہمارے درمیان سے اٹھ گئے۔ یہ انسانوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے اپنے حوالے سے خیر‘ محبت اور انسپائریشن کا استعارہ بن کر جگمگاتے رہیں گے۔ یہ ذرائع ابلاغ کے اس تیز ترین دور میں اپنی جادوگری جیسی صلاحیت اور زندگی کے حسن کے نمائندے کہلانے کے حقدار تھے۔ یہ درست ہے کہ بڑے لوگ دنیا میں پیدا ہوتے رہیں گے اور یہ دنیا عظیم کرداروں سے کبھی خالی نہیں ہو گی۔ لیکن جب یہ کردار دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ہم اداس ہو جاتے ہیں۔ یہ اپنی محنت صلاحیت عزم اور ارادوں کی بدولت شہرت اور عزت کی بلندیاں چڑھتے چلے گئے۔ اور یہ ہمیشہ یادوں کے جھروکوں سے جھانکتے رہیں گے۔ جناب آئی اے رحمان صحافت کی دنیا کے شائننگ اسٹار تھے۔ یہ اعلیٰ صحافت کی مثال تھے اب وہ ہم میں نہیں ہیں اور اللہ رب العزت کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ 65برس تک بے باک صحافت اور انسانی حقوق اور آزادی کا پرچم بلند کرنے والے ہر لمحے ہشاش بشاش اور قہقہے لگانے والے آئی اے رحمان نے زندگی کی 90 بہاریں یوں دیکھی جس کا ہر موڑ عزم و حوصلے اور ان کی منہ بولتی غیر معمولی صلاحیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے وہ نئے ولولے کے ساتھ یوں گفتگو کرتے خواہ انگریز میں ہو یا اردو میں حوالوں شعروں منطق اور فلسفے سے مرصع ہوتی تھی۔ آنکھیں کیا موند لیں۔ ایک عہد تمام ہوا جن کے قلم کو اللہ نے آنکھیں بھی دے رکھی تھیں اور دماغ بھی۔ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ وہ صحافت کے چمن میں نت نئی جدتیں بکھیرتے رہے۔ بکھرتے اور نکھرتے انداز میں ان کا دبنگ لہجہ ہر سننے اور پڑھنے والے کو اپنی جانب متوجہ کرتا رہا۔ان کی زبان اور انگلیوں میں پہنچ کر لفظ لفظ نہیں رہتے احساس اور جذبہ بن جاتے تھے انہیں معلوم تھا کہ ایک ہی بات کو کتنے اسلوب اور انداز سے کہا جا سکتا ہے۔ جب میں رحمان صاحب کے بارے میں سوچتا ہوں تو پاکستان میں صحافت فلم اور ادب پر گفتگو کرنے والا یہ شخص جس نے فیض ‘سجاد ظہیر اور عزیز صدیقی جیسے نامور لوگوں کی سنگت اور کئی نسلوں کے جید صحافیوں کو رپورٹ بنائی‘خبر میں جان ڈالنے کا فن صحافتی تحقیق کے نت نئے رنگ ڈھنگ الفاظ کی حرمت کا احساس اور اخلاقیات سکھائیں ان کی گفتگو اور تحریر کی خوبصورتی ہی یہ تھی کہ اس میں شگفتگی بھی تھی اوربے باکی بھی۔ رحمان صاحب ایک ایسے زندہ دل انسان تھے زندگی جن کے انگ انگ سے نشر ہوتی تھی ان کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ خوش و خرم اور مسرور دیکھا جیسے کوئی دکھ کوئی اذیت کوئی مسئلہ انہیں چھو کر نہیں گزرا۔وہ کشادہ دل اعلیٰ ظریف اور اعلیٰ ذوق کے مالک تھے آئی اے رحمان نے پوری زندگی بڑی محنت کی۔ اس دور میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔جو صحافت اور صحافیوں کے لئے بڑا کٹھن تھا۔ ویو پوائنٹ کے چھوٹے سے دفتر میں رحمان صاحب مسز فیض ‘عبداللہ ملک اور امین مغل اکٹھے کام کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں فلم اکیڈمی بنانے کی طرف متوجہ ہوئے۔ پھر عاصمہ جہانگیر کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد ڈالی۔انسانی حقوق اور آزادی کی آواز کو وہ ہر پلیٹ فارم پر بلند کرتے رہے اسی لئے حکمرانوں اور صاحب اختیار لوگوں کے ساتھ ان کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے کیونکہ سچ بولنے سے وہ کبھی نہیں جھکے۔ امن کے بڑے داعی تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ مل کر پاک انڈیا فورم بنایا تھا۔کوشش یہی تھی کہ تعلقات میں حدت اور فاصلوں کو کم کیا جائے۔ دنیا بھر میں گھومے اور پوری جرأت سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا وہ جہاں بھی جاتے ان کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ انہوں نے ایک بھر پور اور بامقصد زندگی گزاری۔ آئی اے رحمن استادوں کے استاد تھے اس لئے جو کہتے اس میں تاثیر ہوتی۔ ان کی باتیں اور شخصیت کا کمال ایسا کہ جو ان کی صحبت میں بیٹھنا ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ میں سمجھتا ہوں وہ خوش قسمت لوگ تھے جنہیں ان کی صحبت اور رفاقت میں کام کرنے کا موقع ہاتھ آیا یہی وجہ تھی کہ گزشتہ کئی دھائیوں کے دوران بے شمار نامور صحافیوں نے بھی نہ صرف ان سے سیکھا بلکہ انہیں اپنا استاد بھی مانا۔وہ نہ صرف بلند پایہ صحافی تھے بلکہ ایسے جرأت مند انسان بھی تھے جو زندگی میں کبھی لگی لپٹی رکھنے کے قائل ہی نہیں تھے۔ یہ وہ دور تھا جب نثار عثمانی‘ احمد بشیر اور حسین نقی جیسے نڈر اور بااصول صحافی موجود تھے۔ رحمان صاحب کے ہمرکاب تھے۔ حکمرانوں سے اس لئے کبھی نہیں بنی کہ وہ جو محسوس کرتے پوری سچائی کے ساتھ بول دیتے لکھ دیتے سچائی اور حقیقت بیان کرنا ان کا وطیرہ تھا۔ جس کی سزا انہوں نے حبیب جالب اور حمید اختر کے ساتھ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا کر کاٹی۔ لیکن کسی غلط بات پر کمپرو مائز کا لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ اپنے زمانے میں ابھرتے ہوئے صحافیوں کے لئے وہ قابل رشک اور باعث تکریم صحافیوں میں سے ایک تھے۔ مجھے نہ صرف ان کے کالم پڑھنے انہیں قریب سے دیکھنے اور مختلف سیمینار اور مذاکروں میں ان کی پر مغز باتیں سننے کا موقع ملا بلکہ سچ پوچھیں تو انہیں دیکھ کر ان کی تکریم کو دل چاہتا تھا۔ ان کی باتوں سے ہی اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ریاست اور اس کے شہریوں میں تعلق کو مضبوط بنانے میں انسانی حقوق کی کیا اہمیت ہوتی ہے اگر میں یہ کہوں کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے تو بے جا نہ ہو گا۔ زبان کی چاشنی اور گفتگو کا بہائو دیکھ کر یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ علی گڑھ یونیورسٹی جیسی درسگاہ کے فارغ التحصیل تھے۔ ان کی باتیں سن کر تو سچ پوچھیں کم مائیگی کا احساس ہوتا تھا۔ وہ حقیقت میں بے آواز دل کی آواز تھے۔ ان کی زندگی کا شاید یہی پیغام ہے کہ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق مظلوموں کی آواز بنے۔ جو رحمان صاحب کی زندگی کا مشن تھا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ تمام عمر جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے لڑائی لڑنے والے اس باکمال انسان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔