جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ سے متعلق جے آئی ٹی کی رپورٹ میں نامزد کردہ 172افراد کے نام وفاقی کابینہ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی منظوری دیدی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو‘ فریال تالپور‘ سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ‘ موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ‘ ملک ریاض‘ حسین لوائی اور بہت سے دیگر سیاستدانوں افسروں اور بینکاروں کے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔ ای سی ایل میں نام ڈالے جانے کے بعد یہ 172افراد بیرون ملک سفر نہیں کر سکیں گے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات پر قائم ہونے والی جے آئی ٹی نے جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کو فریضہ سونپا تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت جے آئی ٹی رپورٹ کو سیاسی انتقام قرار دے رہی ہے۔ مگر سندھ حکومت یا پیپلز پارٹی کا کوئی اہم رہنما اس بات کی وضاحت پیش کرنے میں ناکام ہے کہ جعلی اکائونٹس کا تعلق ان کے ساتھ کیوں نکلا اور انہوں نے سرکاری افسران اور بینکاروں کے ذریعے جو نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا اس کے مقاصد منی لانڈرنگ کے سوا اور کیا تھے؟ پاکستان میں کسی اہم معاملے کی نتیجہ خیز کھوج کی روائت زیادہ پرانی نہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران تحریک انصاف نے جب 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کی شکائت کی تو ایک کٹھن اور صبر آزما احتجاجی مہم کے بعد حکومت تحقیقاتی کمشن بنانے پر رضا مند ہوئی۔ پھر سانحہ ماڈل ٹائون رونما ہوا۔ 14بے گناہ حکومت وقت کی بے حسی اور سفاکی کا نشانہ بنے۔ لواحقین نے خون کا حساب لینے کا مطالبہ کیا تو حکومت نے آخر جوڈیشل کمشن قائم کیا جس کی رپورٹ کو چھپایا گیا اور عدالت سے استدعا کی گئی کہ اسے عام نہ کیا جائے۔ اسی معاملے میں مسلم لیگ ن کی اقتدارسے بے دخلی کے بعد 5دسمبر 2018ء کو سپریم کورٹ نے نئی جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔ایک جے آئی ٹی ڈان لیکس پر بنی۔ سب سے مشہور جے آئی ٹی پانامہ کیس میں بنی۔ اس جے آئی ٹی کے قیام پر مسلم لیگ ن کی قیادت نے اظہار مسرت کیا اور اپنے موقف کی جیت قرار دیا۔ اسی جے آئی ٹی کے تحقیقات کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑی اور انہیں نااہلی کی سزا ملی۔ پیپلز پارٹی کی تمام قیادت پانامہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کو درست تسلیم کر کے تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی کو سراہتی رہی ہے۔ کچھ عرصے سے مختلف علاقوں ‘ خصوصاً سندھ سے تعلق رکھنے والے غریب اور محنت کش افراد کے نام پر کھولے گئے بنک اکائونٹس سے بھاری رقوم منتقل کئے جانے کے واقعات سامنے آ رہے تھے۔ ان اکائونٹس کو سخت بنک ضابطوں کے باوجود کس طرح کھولا گیا‘ رقوم کی بھاری منتقلی کے معاملات سے مالیاتی نگرانی والے اداروں کی آنکھوں میں کس طرح دھول جھونکی گئی اور اس طرح کی رقوم آخر کار کس کے اکائونٹ میں منتقل ہوئیں یا کس کے اخراجات کی ادائیگی کے لئے استعمال ہوئیں۔ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب جے آئی ٹی کی رپورٹ میں تفصیل سے موجود ہے۔ پاکستان میں امیر اور غریب کے مابین خلیج گزشتہ جمہوری حکومتوں کے زمانے میں زیادہ تیزی سے پھیلی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں ریاستی وسائل کو اپنی قیادت کے فائدے کے لئے استعمال کرتی رہیں۔ ملک میں زرعی اور صنعتی پیداوار کا عمل ترقی سے ہمکنار نہ ہو سکا مگر سیاستدان اور ان کے مددگار سرکاری افسر اور کاروباری افراد دولت کے ڈھیر جمع کرتے نظر آئے۔ دوسری طرف ٹیکس ادائیگی کے معاملات میں ان لوگوں کی آمدن زیرو ظاہر کی جاتی رہی۔ ریاست کا جو ادارہ اور فرض شناس افسر ہمت کرتا وہ عتاب کا نشانہ بن جاتا۔ ماڈل ایان علی اسلام آباد ایئر پورٹ سے ڈالروں سے بھرا بیگ لے جاتے ہوئے پکڑی گئی۔ ملک کے اہم عہدوں پر فائز رہنے والے سیاسی رہنما اور سینئر وکیل اس کی صفائی میں عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ جس انسپکٹر نے ایان علی کیس پر تحقیقات کا آغاز کیا وہ چند ہفتوں بعد قتل کر دیا گیا۔ اس غریب کی جان گئی۔ ریاست اسے تحفظ نہ دے سکی۔ وزیر اعظم عمران خان نے درست فرمایا کہ اگر کسی نے دیکھنا ہو کہ ریاست کس طرح ناکام ہوتی ہے تو وہ منی لانڈرنگ پر جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھ لے۔ بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ تمام ریاستی ادارے اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ کسی قانون شکن کو معاف نہ کیا جائے چاہے اس کی حیثیت کچھ بھی ہو۔ جن 172افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دی گئی ہے وہ ہمارے سماج کی معروف شخصیات ہیں۔ ان لوگوں کا رہن سہن بتاتا ہے کہ وہ بے حساب دولت کے مالک ہیں۔ یہ لوگ حقیقت میں ذہین ہیں جنہوں نے قانون سے چھپنے کے لئے ایک پیچیدہ نظام تیار کیا۔افسوس ان لوگوں نے اتنی توانائی ملک کو مسائل سے نجات دلانے پر خرچ کی ہوتی تو آج پاکستان کی حیثیت ایک بھکاری کی نہ ہوتی۔ پانامہ لیکس نے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے اثاثے ظاہر کر دیے۔ نواز شریف کو لیڈر سمجھنے والے لاکھوں افراد نے ان کی حمائت سے توبہ کر لی جولائی 2018کے انتخابی نتائج اس بات کا ثبوت ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پر کرپشن کے الزامات پہلے بھی لگتے رہے مگر ہر بار سیاسی مصلحتوں نے ان لوگوں کو رعائت دیدی۔ اب ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں مالیاتی جرائم سے آنکھیں چرا کر قومی سلامتی کودائو پر نہیں لگایا جا سکتا۔ اب قانون کی بالادستی کو تسلیم کیا جائے یا پھر الزامات کا قانونی انداز میں جواب دیا جائے۔ جلسے جلوس قومی ترقی کا منشور پیش کرنے کا پلیٹ فارم ہوتے ہیں‘ ان کے ذریعے قوم کو چیلنجوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ وقت بدل گیا ہے اب عوام احتساب چاہتے ہیں۔ بہتر ہے محاذ آرائی کے بجائے اس عمل میں اداروں سے تعاون کیا جائے۔