جس ملک میں روزانہ لاتعداد لوگ موٹر سائیکل سے گر کر مرتے ہوں یا دماغی چوٹ کی وجہ سے عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہوں، لیکن حکومتی احکامات، چالان کے خوف اور پکڑے جانے کے ڈر کے باوجودبھی ہیلمٹ نہ پہنیں اور جس ملک کے صحافی، اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پریہ دور کی کوڑی لے کر آئیں کہ ہیلمٹ کے قانون پر اس لیے سختی کروائی جارہی ہے، تاکہ ہیلمٹ بنانے والے فیکٹری مالکان کوفائدہ پہنچاکر ان سے کمیشن وصول کیا جا سکے۔ روازنہ اموات اور معذوری اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی یہ قوم بلاتمیزِ امیروغریب احتیاط سے کوسوںدور ہے۔ ہر وہ صاحبِ حیثیت جس کے پاس اچھی گاڑی ہے، اسے معلوم ہے کہ سیٹ بیلٹ لگا کر حادثے کے بدترین نتائج سے بچا جا سکتا ہے، لیکن آپ گاڑیاں چلانے والوں کو دیکھیں، ان میںاکثرکی سب سے بڑی احتیاط یہ ہوتی ہے کہ پولیس کا ناکہ یا ٹول پلازہ پر سیٹ بیلٹ باندھ لیتے ہیں اور پھر فوراََ اتار کر سکھ کا سانس لیتے ہیں جیسے کسی بڑی قید سے رہا ہوئے ہیں۔ آج آپ کو یہی رویہ چہرے پر کورونا ماسک کے حوالے سے ملے گا۔ ہمارا یہ رویہ صرف ٹریفک کے معاملے میںہی نہیں، بلکہ ڈاکٹروں کے نسخوں کے جس حصے پر لوگ بالکل عمل نہیں کرتے وہ احتیاطی تدابیر ہیں۔ ذیابیطس کا مریض مٹھائی کھائے گا اور ساتھ کہتا جائے گا، ’’انسولین کا ٹیکا لگا لوںگا یا تھوڑی لمبی ’’واک‘‘ کر لوں گا‘‘۔ سٹنٹ ڈلوانے یا اوپن ہارٹ سرجری کروانے والے آپریشن کے چند دنوں بعدہی ضبط کا بندھن ٹوٹنے پر ہر وہ چیز کھائیں گے جس سے ڈاکٹرنے منع کیا ہو گا اور ساتھ کہتے بھی جائیں، ’’جتنے دن جینا ہے وہ تو لکھا ہوا ہے، پھر آدمی اپنے شوق کیوں پورے نہ کرے‘‘۔ اخبارمیں موت کی خبریں پڑھ کربھی ہم خطرناک مقامات پر سیلفیاں بنانے سے باز نہیں آتے، کھلے پھاٹکوں پر ٹرین کے نیچے آکر کچلے جانے والوں کی میتّیں دیکھ کر بھی ہم دور سے آتی ہوئی ٹرین کے گزرنے کا انتظار نہیں کرتے اور تیز رفتاری سے نکل جانے کی کوشش میں اپنی جان گنوا لیتے ہیں۔ایسی عادات کی حامل قوم کے بارے میں اگر حکومت میں بیٹھے ہوئے ذمہ داران یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کی اپیل یا حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی ’’ایس او پیز‘‘ پر لوگ ایسے عمل کرنا شروع کر دیں گے جیسے یہ ان کے دل کی آواز ہے تو اس سے بڑی غلط فہمی اور انتظامی نا اہلی اور احمقانہ منصوبہ بندی نہیں ہو سکتی۔ جس دن سے جدید میڈیا وجود میں آیا ہے، تقریباََ اس دن سے لوگوں کو تلقین اور یادہانی کے نئے نئے ڈھنگ اور اسلوب اختیار کئے گئے ہیں جنہیں جدید زبان میں ’’پبلک سروس میسج‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اخبارات، ریڈیو، بل بورڈز، نیوآن سائن، ٹیلی ویژن غرض ہرنئے آنے والے میڈیم کے ذریعے لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ آج تک کسی نے کبھی کوئی سائنسی تحقیق کی ہے کہ ان پبلک سروس میسجز کا لوگ کسقدراثر قبول کرتے ہیں۔۔ نہیں،بالکل نہیں۔۔ اگر کی جائے تو ہم پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں کہ یہ وہ قوم ہے کہ عین اس جگہ پر پیشاب کرے گی جہاں دیوار پر ایسا نہ کرنے کے لیے لکھا ہو گا۔ جس پرائیویٹ گھر کے گیٹ پر مکینوں نے مجبور ہو کر لکھا ہو گا کہ ’’یہاں مہربانی فرما کر گاڑی کھڑی نہ کریں‘‘ تو لاتعداد منچلے وہیں پر گاڑی کھڑی کریں گے۔ ستم کی بات یہ ہے کہ تمام قانون، قاعدے، اصول اور پبلک سروس میسجز کی توہین وہ لوگ زیادہ کرتے ہیں جو معاشرے میں’’بڑے‘‘ تصور ہوتے ہیں۔ یہ سیاستدان، بیوروکریٹ، صحافی، جرنیل یہاں تک کہ عدلیہ کے کارپرداز بھی قانون توڑنے کو ’’تمغۂ امتیاز‘‘ سمجھتے ہیں۔ جس ملک کا پڑھا لکھا صحافی اوردانشورایک ہیلمٹ پہنانے کے قانون کے پیچھے سازشی تھیوری نکال سکتا ہو، اس نے ’’کورونا‘‘ کے بارے میںآج تک جو کچھ کہااورلکھا ہے، اس کا اس بیماری کے بڑھنے میں بہت حصہ ہے۔ کورونا کے ساتھ یہ ظلم دگنا ہواہے کیوںکہ سوشل میڈیا کا تڑکا بھی اس کے ساتھ لگ چکا تھا۔ ان سازشی تھیوریوںکا آغاز ایک انتہائی پڑھی لکھی شخصیت اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب حسین ہارون صاحب کی وڈیو سے ہواتھا۔ اس وڈیو کے مطابق ابھی تک اسرائیل کو ویکسین مارکیٹ میں لے آنا چاہیے تھی۔ دنیا بھر میں بل گیٹس کی ویکسین والی وڈیوسے لے کر فائیو جی کے ٹاوروں سے نکلنے والی تابکاری شعاعوں سے کوروناکا پھیلائو اور جسم میں ویکسین کے ذریعے ’’چپ‘‘ داخل کرنے کے منصوبے تک کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ لیکن دنیا بھر میںیہ سب تھیوریاں اس وقت دم توڑگئیں، جب موت نے لوگوں کے دروازوں پر دستک دی، ہسپتال لاشوں سے پٹ گئے، لوگوں کو طبی سہولیات نہ ملنے لگیں، پھرچاروں جانب موت کا سناٹا طاری ہو گیا۔ لیکن اس سناٹے اور خوف کے باوجودبھی حکومتوںنے اپنے عوام کی عادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، دنیا کے لاتعداد ممالک میں سخت لاک ڈائون کیا۔ کیونکہ یہی ایک تدبیر تھی۔ موت کے منہ میں ہاتھ ڈال کرخوش ہونے والوں کی دنیاکے ہر ملک میں کوئی کمی نہیںہے۔ ان پاگلوں کو روکنے کے لیے ہی تو سخت لاک ڈائون کیا گیا۔ آج دنیابھرمیں سخت لاک ڈائون پالیسی صحیح ثابت ہوچکی ہے۔ امپیریل کالج لندن کے ماہرینِ وبائی امراض ’’Epidemiologists‘‘ کی تازہ تحقیق کے مطابق، اگر دنیا کے ممالک سخت لاک ڈائون نہ کرتے تو کم از کم ساٹھ کڑوڑ لوگ اس وائرس کا شکار ہو جاتے۔ صرف یورپ کے گیارہ ملکوں میں کئے جانے والے لاک ڈائون سے براہ راست، 31لاکھ لوگ موت سے بچے ہیں جن میں پانچ لاکھ برطانوی بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کیلی فورنیایونیورسٹی، برکلے کی تحقیق کے نتائج کے مطابق اگرسخت لاک ڈائون نہ ہوتا توچین میں 28کروڑ پچاس لاکھ، کوریا میں تین کروڑ اسی لاکھ، اٹلی میں چارکروڑ نوے لاکھ، ایران میں پانچ کروڑ چالیس لاکھ، فرانس میں چار کروڑ پچاس لاکھ اور امریکہ میں چھ کروڑ لوگ کرونا کا شکار ہو جاتے۔ آج یہ تمام ممالک دوتین ماہ کے سخت لاک ڈائون کے مرحلے سے گزر کراب خود کو اس قابل بنا چکے ہیں کہ وہ اپنے علاقوںمیں لاک ڈائون کھول رہے ہیںتاکہ لوگ سکھ کا سانس لیں۔ ان ممالک کے مقابلے میں ہماری حالت یہ ہے کہ ہماری گومگو پالسیوں نے ہمیںآج اس حالت پر پہنچادیا ہے کہ ہم کورونا کے حوالے سے دنیا کا ’’تیسرا‘‘ بڑا خطرناک ملک بن چکے ہیں۔ ہانگ کانگ میں دنیا کے بہت بڑے تحقیقی ادارے ’’Deep Knowledge‘‘ گروپ نے 250صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کورونا کے اعتبار سے 200ممالک کی ’’ریٹنگ‘‘ کی گئی ہے۔ ان ممالک میں سوئٹزرلینڈ سب سے محفوظ اور جنوبی سوڈان سب سے خطرناک ملک ہے۔ موت کی طرف تیز رفتاری کے ساتھ ہم خود بڑھے ہیں۔ ہماری ناقص پالسیوں نے ہمیں موت کے منہ میں دھکیلاہے۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں کہ جہاںآج روزانہ اوسطاََ ستر جنازے اٹھ رہے ہیںاورہمارے حکمران اس بات پر بحث کر رہے ہیںکہ سات بجے کے بعد دکانیں کھولیں یا نہیں، ٹرانسپورٹ شروع کریں یا کون سے کاروبار کھولنے کی اجازت دیں۔ ایک مؤدبانہ درخواست ہے کہ خُدا کیلئے جوکچھ بھی کرو مگر کم ازکم اپنی تقریروں، ٹی وی پروگراموںاور بیانوں میں یہ مضحکہ خیزفقرہ مت بولیں کہ ’’ ہم کہتے تھے ناکہ لاک ڈائون ٹھیک نہیں، یہ دیکھو پوری دنیا لاک ڈائون ختم کر رہی ہے‘‘۔ اے صاحبانِ عقل حکمرانو! پوری دنیاکے ممالک سخت لاک ڈائون پر عمل کرنے کے بعد اپنی اقوام کواب محفوظ بنا چکے ہیںاور وہ لاک ڈائون ختم کر رہے ہیں جبکہ آپ نے گومگو پالسیوںاور سافٹ لاک ڈائون سے پوری پاکستانی قوم کو کورونا کے مگرمچھوں والے سمندر میں پھینک دیاہے۔ آج ہم وہاں کھڑے ہیں کہ اب شاید سخت لاک ڈائون کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ ہی باقی نہیں ہے۔