مشرقی افریقہ کاملک ایتھوپیا (حبشہ)ان دِنوں خانہ جنگی کا شکار ہے۔ گیارہ کروڑ آبادی کے اِس ملک کی اندرونی لڑائی میںگزشتہ دس ماہ کے دوران میں ہزاروں لوگ ہلاک اور تیس لاکھ انسان بے گھر ہوچکے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق ایتھوپیا کے چالیس لاکھ لوگوں کو غذائی امداد کی فوری ضرورت ہے۔عام غیرمسلح‘معصوم شہری بھی اس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ مسلح گروہ ایک دوسرے کے خلاف ظلم و بربریت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ مخالف فریق ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگل رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر نسل کُشی نہ ہو جائے۔ ایتھوپیا میں گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ملک پر سیاسی گروہوں کی مخلوط حکومت راج کررہی تھی۔ اس مخلوط بندوبست میں ایک قبیلہ ’تیگرے‘غالب تھا۔ ملک کے شمالی علاقہ سے تعلق رکھنے والے تیگرے قبیلہ کے لوگ اہم سول اور عسکری عہدوں پر فائز تھے۔ وہ ملک کی اشرافیہ تھے گو اس گروہ کی آبادی ملک کی آبادی کا صرف چھ فیصد ہے۔یعنی ایک اقلیتی گروہ اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ریاستی‘ملکی وسائل پر قابض تھا۔اس ملک میں درجنوں قبائل رہتے ہیں۔قبائلی تشخص اہمیت کا حامل ہے۔ ملک کے دس صوبے ہیں جن میں علاقائی حکومتیں قائم ہیں۔ پانچ صوبے ایسے ہیں جنکی اپنی اپنی سرکاری مسلح تنظیمیں ہیں۔چھبیس سال پہلے ایتھوپیا میں جمہوری نظام قائم ہوگیا۔ آٹھ برس پہلے سال 2018 میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ ایک جواں سال سیاستدان احمد ایبی وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ انکا تعلق ’ارومو‘ قبیلہ سے ہے۔ وہ اب تک ایتھوپیا کے وزیراعظم ہیں۔ احمد ایبی نے تیگرے قبیلہ کا ملک پر سے غلبہ ختم کرنے کیلئے بڑے اقدامات کیے جن سے بااثر تیگرے افراد کی مراعات کم ہونا شروع ہوگئیں۔ وزیراعظم کے خلاف تیگرے اشرافیہ میں ناراضگی ‘ بے چینی پیدا ہونے لگی جو بڑھتے بڑھتے بغاوت میں تبدیل ہوگئی۔ایک مسلح تنظیم تیگرے لبریشن فرنٹ بن گئی۔ ایتھوپیا کی دو تہائی آبادی مسیحی مذہب کے مختلف فرقوںسے تعلق رکھتی ہے۔لگ بھگ ایک تہائی آبادی مسلمان ہے۔مختلف قبیلوں اور مذاہب کے درمیان شادیوں کا رواج ہے۔ وزیراعظم احمد ایبی کے والد مسلمان تھے لیکن والدہ مسیحیت کے ’قدامت پسند‘ مسلک سے تعلق رکھتی تھیں۔ احمد ایبی کا تعلق ایک اصلاح پسند مسیحی فرقہ ’پینٹاکوسٹ‘ سے ہے۔ جب انہوں نے حکومت سنبھالی‘ ایتھوپیا میں رائے عامہ کی اکثریت کا خیال تھا کہ حکومت کا نظم ونسق ٹھیک طرح سے نہیں چل رہا۔ نظام میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ احمد ایبی نے اصلاحات کے ایجنڈے پر کام شروع کیا جسکی شروع میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت پذیرائی کی گئی۔لیکن جیسا کہ عموماً ہوتا ہے کہ جن گروہوں کے مفادات پرانے نظام سے جڑے ہوتے ہیں وہ تبدیلیوں کی مزاحمت کرتے ہیں۔تیگرے اشرافیہ کو اصلاحات کے ایجنڈے سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا تو انہوں نے اسے نسلی‘ لسانی تعصب کارُوپ دے دیا اور حکومت کیخلاف ہتھیار اُٹھالیے۔گزشتہ برس نومبر میں یہ کشیدگی بہت بڑھ گئی ۔ حکومتی فورسز اور تیگرے پیپلزلبریشن فرنٹ کے درمیان باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ تیگرے آبادی کے خلاف کئی اور قبائل بھی حکومتی اتحاد میںشا مل ہوچکے ہیں۔ہمسایہ ملک اری ٹیریا نے ایتھوپیا کی حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی بھیجے ہوئے ہیں۔وہ تیگریائی باشندے جو اپنے مخصوص علاقہ سے باہر ایتھوپیا کے دارالحکومت ایڈِس اَبابا میں رہتے ہیں انکو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انکے کاروبار بند ہوچکے ہیں۔اِس برس جُون میںعام انتخابات ہونا تھے وہ بھی مکمل طور پر نہیں ہوسکے۔ کئی علاقوں میں پولنگ نہیں ہوئی۔ اب تک حکومت اور تیگرے فرنٹ کے درمیان صلح کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔حکومت کا موقف ہے کہ باغی قبیلہ پہلے ہتھیار ڈالے تو وہ اس سے بات چیت شروع کریگی جبکہ تیگرے لبریشن فرنٹ کا موقف ہے کہ حکومت پہلے اسکے علاقہ سے اپنی فوجیں نکالے ‘ بعد میں وہ مذاکرات شروع کریگا۔لڑائی میں شدت آتی جارہی ہے۔ وزیراعظم احمد ایبی نے عام شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کیلئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں فوج میں شامل ہوں۔احمد ایبی نے الزام لگایا ہے کہ خانہ جنگی میں غیرملکی طاقتیںملوث ہیں۔ وہ نام لیکر مصر کو مورودِالزام ٹھہراتے ہیں۔ انکا موقف ہے کہ جب سے ایتھوپیا نے دریائے نیل پر ایک بڑا ڈیم بنانے کا کام شروع کیا ہے مصر انکے ملک کے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ دریائے نیل جنوب سے شمال کی جانب بہتا ہے۔ اسکی ایک بڑی شاخ ایتھوپیا سے شروع ہوتی ہے۔ اس پر ڈیم بننے سے سوڈان اور مصر میں پانی کا بہاؤ نسبتاً کم ہوجائیگا۔ بجلی بنانے کیلئے تعمیر کیے جانے والے اس ڈیم کی دو تہائی تعمیر مکمل ہوچکی ہے اور یہ اگلے سال کے آخر تک مکمل بن جائیگا۔امریکہ کے وزیراعظم جو بائیڈن نے ایتھوپیا کے بحران میں بہت دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ فریقین پرلڑائی بند کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںبند کرنے پر زور دے رہے ہیں لیکن عملی اقدام نہیں کیا۔ بائیڈن انتظامیہ کا جھکاو ٔ تیگرے آبادی کی طرف ہے جس سے امریکہ کے دیرینہ اچھے تعلقات ہیں۔ کچھ طاقتوں کا مفاد اس میں ہے کہ ایتھوپیا غیرمستحکم رہے اور خون خرابہ اتنا بڑھ جائے کہ انہیں فوجی مداخلت کرنے کا بہانہ مل جائے۔ جیسے سوڈان کو تقسیم کرکے شمالی اور جنوبی سوڈان دو الگ ملک بنائے گئے اسی طرح تیگرے قبیلہ کو تھپکی دی گئی ہے کہ لڑتے رہو یہاں تک کہ انکے علاقہ کو ایتھوپیا سے الگ کرواکے الگ ریاست بنادیا جائے۔ امریکہ ایتھوپیا کو عرصہ ٔدراز سے مالی امداد دیتا آ رہا ہے۔ اسکے لیے پورے ایتھوپیا کا بوجھ اُٹھانا ممکن نہیں رہا۔ اب ساٹھ ستّر لاکھ کے چھوٹے سے علاقہ(تیگرے) میں قدم جما کر اپنا کام نکالنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن کے حکمران چین کے افریقہ میںبڑھتے اثر و رسوخ سے بھی تشویش میں مبتلاہیں۔ نسلی‘ لسانی تعصب بھڑکا کر اور باغی قبیلوں کو خفیہ مدد فراہم کرکے ملکوں کو غیرمستحکم کرنا‘ تقسیم کرنا اور اسکے بعد انسانی حقوق کے نام پر اس علاقہ میں اپنی فوجیں داخل کردینا سامراج کا پرانا حربہ ہے۔ لیبیا ہو ‘ شام ہویا عراق کا کرد علاقہ ۔سب جگہ ایک ہی کہانی ہے۔ اسی مقصد کیلئے ترکی کے کردوں کی مدد کی جاتی ہے اور اسی طریق کار پر بلوچستان میں عمل کیا جا رہا ہے۔