ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی افسوسناک ہلاکت نے خطے پر جنگ کے سائے لہرا دیئے ہیں۔ایرانی لیڈرشپ دکھی ہے اور سخت غصے میں بھی۔ انہوں نے بھرپور جواب دینے کا اعلان کیا ہے ۔ دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دینے کا عندیہ دیاہے۔تازہ امریکی فوجی کمک کویت پہنچ چکی ہے۔ دونوں ممالک بتدریج جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی جنگ ہوگی جو ضروری نہیں کہ صرف ایران اور امریکہ تک محدود رہے بلکہ اس کا دائرہ پھیل بھی سکتاہے۔ کئی ایک مبصرین کا تجزیہ ہے کہ یہ جنگ تیسری جنگ عظیم پر بھی منتج ہوسکتی ہے۔ ایران کو تباہ کرنے کی امریکی خواہش کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جو امریکہ کی بالادستی اور ورلڈ آڈر کو چیلنج کرتاہے اور خطے میں اس کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ ڈالتاہے۔ فسلطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کرتاہے ۔ عرب ممالک اور ایران کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کی جڑیں بھی کافی گہری اور تاریخی ہیں۔یہ کشیدگی صدیوں پرانی ہے جسے عرب وعجم کی تہذیبی اور مذہبی تقسیم یا تفاخر کاشاخسانہ قرار دیاجاتاہے۔ انقلاب ایران کے بعد عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں باوجود کوششوں کے کوئی سدھار نہ آسکا بلکہ ولی عہد محمد بن سلمان نے جب سے سعودی عرب کا کنٹرول سنبھالا ایران اور سعودی عرب کے مابین تناؤ میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاہے۔ ایران کے حامیوں نے یمن میں سعودی عرب کی مزاحمت کی اور اسے کوئی قابل ذکرکامیابی حاصل نہ کرنے دی۔ سعودی عرب کے ہاتھوں سے عراق بھی تقریباً نکل چکاہے۔ گزشتہ الیکشن میں عراق میں ایران نوا زحکومت قائم ہوئی۔ عراق کے اندر ایران نواز سیاسی اور عسکری گروہ بہت طاقت وراور مضبوط ہیں جو امریکہ اور سعودی نواز سیاسی اور عسکری گروہوں کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے۔ شام میں بھی ایران کے حامیوں کا پلہ بھاری ہے۔لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ ترکی اور قطر بھی ایران کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اگرچہ دونوں ممالک تنازعہ سے غالباً دور رہنے کی کوشش کریں گے۔ ترک صدر طیب اردوان بھی امریکہ اور عرب ممالک کے درمیان پائے جانے والے سیاسی اور اسٹرٹیجک اشتراک کے سخت ناقد ہیں۔ترک میڈیا ایک تسلسل سے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان پائی جانے والی سیاسی اور اسٹرٹیجک اشتراک کی خبریں شائع کرتاہے جو عرب ممالک کے حکمرانوں کو بے چین کرتی ہیں کیونکہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعاون کو عوام کی آنکھوں سے اوجھل رکھنا چاہتے ہیں۔ایران پر اگرچہ مذہبی اور قدرے سخت گیر عناصر کی حکومت ہے لیکن حالیہ عشروں میں انہوں نے بڑی حکمت کے ساتھ اپنے ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ عراق اور افغانستان کی ایران مخالف حکومت کی امریکیوں نے اینٹ سے اینٹ بجائی تو ایران نے ان دونوں ممالک کے اندر اپنے لیے وسیع حمایتی حلقہ پیدا کیا۔آج عراق میں ایران نواز حکومت ہے اور افغانستان میں ایران کی حامی سیاسی قوتوں کی حکومت اور حزب اختلاف دونوں کا حصہ ہیں۔جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے معاملے پر بھی ایران نے طویل اور تھکادینے والے مذاکرات کے بعد چار برس قبل برطانیہ، فرانس، چین، روس، جرمنی اور امریکہ کے ساتھ معاہدہ کیا جس میں طے پایا کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنائیگا۔ امریکہ جوابی طور پر پابندیاں ختم کردیگا ۔ صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں اس معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوگیا تھا لیکن موجودہ صدر ٹرمپ نے معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی ۔یاد رہے کہ اس معاہدے پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے زبردست ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعاون اور اشتراک کی چولیں اس معاہدے نے ہلادی تھیں۔ایرانی لیڈرشپ دانشمند ہے اور دنیا کے حالات سے باخبر بھی۔ توقع ہے کہ وہ جنگ کی تباہ کاریوں سے گریز کی ہر ممکن کوشش کریگی تاکہ امریکہ کے الیکشن گزرجائیں اور موجودہ صدر ٹرمپ کی اگلی مدت صدارت کا اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھ جائے۔ ایران بغیر حملہ کیے بھی بہت سارے سیاسی مقاصد حاصل کرسکتاہے مثال کے طور پر ایران چاہتاتھا کہ عراق سے امریکی فوجی انخلا ہو اور دونوں ممالک کے درمیان جاری سول تعاون کا خاتمہ ہو۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد امریکی شہریوں کا عراق سے انخلاء لگ بھگ مکمل ہوچکا ہے۔ پانچ ہزار فوجی موجود ہیں ۔ جس طرح کے عراق میں حالات چل رہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ امریکہ کا عراق میں قیام روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتاجائے گا۔ خاص کر قاسم سلیمانی کے جنازے میں عراق کے وزیراعظم، سرکاری حکام اور لاکھوں لوگوں کی شرکت نے امریکیوں کے مسائل میں مزید اضافہ کردیاہے۔عراقی پارلیمنٹ اگلے چند دنوں میں امریکہ کے ساتھ فوجی اشتراک جاری رکھنے یا نہ رکھنے کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ کرنے والی ہے۔امریکہ کی بدقسمتی ملاحظہ ہو! اس نے عراق میں گزشتہ 16برسوں میں پانچ ہزار شہری مروائے اور ایک ٹریلین ڈالر خرچ کیے لیکن حالیہ واقعات کے بعد اس کی حمایت میں کوئی موثرعراقی آواز بلند ہوئی نہ ایران کی مذمت سنی گئی۔عالم یہ ہے کہ ایران نواز شہریوں نے بغداد میں امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج شروع کیا تو سکیورٹی سٹاف انہیں روکنے کے بجائے الگ تھلگ کھڑا ہوگیا۔ایران تاریخ کے دہرائے پر کھڑا ہے ۔ امریکہ اور اس کے حلیف طاقتور ہیں اور جدید ہتھیاروں سے لیس بھی۔ وہ ایران کا حال لیبیا اور عراق جیسے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکمت اور دانائی کا تقاضہ ہے کہ جنگ کے شعلے بھڑکانے سے اجتناب کیا جائے۔ تحمل ایک بہت مشکل آپشن ہے لیکن ہم نے گزشتہ تین دہائیوں میں دیکھا ہے کہ لیبیا، عراق اور شام میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی بحالی کے نام پر مداخلت کی گئی۔ حکومتیں بدلی گئیں۔ حکمرانوں کو سرعام قتل کیا گیا لیکن دھاک کے وہی تین پات۔ان ممالک میں جمہوریت آئی نہ انصاف کا بول بالا ہوا۔بلکہ یہ ممالک زبردست عدم استحکام کا شکار ہوگئے اور شہری بدترین معاشی بدحالی کا۔ پاکستان کو جنگ روکنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔ جنگ کے نتیجے میں اس کی معیشت اور سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ لاکھوں پاکستانی روزگار سے ہاتھ بیٹھیں گے اور ملک داخلی تضادات کا شکار بھی ہوجائے گا۔