اس کہانی کے آغاز کا بھی ایک آغاز ہے، آخر رات دیا جلانے کے لئے سرشام ہی چراغ تیار کئے جاتے ہیں۔یہ بے مثال فقرہ شہرہ آفاق ادیب رابندرناتھ ٹیگور نے اپنے ناول سنجوگ میں تحریر کیا جو دل پہ رقم ہوگیا۔سچ تو یہی ہے کہ ہر کہانی کا آغاز وہی تو نہیں ہوتا جہاں سے وہ شروع ہوتی ہے۔ کہانی کی جڑیں تو اس کے پس منظر میں ہوتی ہیں ۔جب پس منظر ، کہانی کا بوجھ سہارنے سے انکار کردیتا ہے تو وہ اسے اگل دیتا ہے۔کہانی کا جنم ہوتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہانی شروع ہی یہاں سے ہوئی لیکن ہر آغاز کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ یہ کہانی بھی بہت پرانی ہے۔ سترہویں صدی کے شروع میں یا اس سے بھی پہلے۔جب سونا اگلتی سرزمین ہند پہ برطانوی تجارتی قزاقوں کی ہوسناک نظر پڑی اور انہوں نے ہر طرح سے اس کی عصمت دری کا ناپاک منصوبہ بنایا۔شرق الہند ولندیزیوں ، پرتگیزیوں اور برطانیہ کی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔1588 ء میں سپینی بحری بیڑے کی لشکر کشی جس کا مقصد ملکہ الزبتھ اول کا تختہ الٹنا لیکن درحقیقت برطانیہ کے بڑھتے ہوئے سامراجی عزائم کا سدباب کرنا تھا، ناکام بنادی گئی اور برطانیہ کے ہاتھ مال غنیمت میں تجارتی اسبا ب سے لدے وہ اسپینی اور پرتگیز بحری بیڑے لگ گئے جنہوں نے سلطنت برطانیہ کے دنیا بھر میں نئے تجارتی امکانات کے دروازے کھول دئیے۔ آگے سارا سمندر تھا اور برطانوی تاجروں کو بنگال کی سونے کی چڑیا پکار رہی تھی۔ناپاک سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے سرمائے کی ضرورت تھی۔ اس سے قبل ان کی تجارت جاوا اور سماٹرا تک محدود تھی جہاں سے مسالہ جات وغیرہ یورپ درامد کئے جاتے تھے۔ برطانوی تاجروں نے ملکہ الزبتھ اول سے بحر ہند میں تجارتی سفر کرنے کا اجازت نامہ حاصل کرلیا ۔اس اجازت کا مقصد بحر ہند اور شرق الہند میں اسپینی اور ولندیزی کمپنی فار ایسٹ ٹریڈ کی مونوپلی کو مکمل طور پہ ختم کرنا تھا ۔ 1591ء میں جب یہ برطانوی جہاز سر جیمز لن کیسٹر اور سر ایڈورڈ بوناوینچر کی قیادت میں اپنے پہلے مشن پہ روانہ ہوئے تو راس الامید کے گرد سے چکر لگاتے ہوئے واپسی پہ راس الکومورن کے مقام پہ اسپینی اور ولندیزی جہازوں سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی ، جن پہ انہوں نے قبضہ کرلیا۔تین سال بعد اپنی مہم کے اختتام پہ جب برطانوی تجار قبضہ شدہ جہازوں کو لے کر واپس برطانیہ پہنچے تو پرتگیز بحری جہاز برطانوی سرزمین پہ نظر آنے والااب تک کا سب سے بڑا بحری جہاز تھا جو اس مال و اسباب سے بھرا ہوا تھا جو پرتگیزیوں نے شرق الہند میں تجارت سے حاصل کیا تھا۔ اس پہ ٹنوں کے حساب سے قیمتی ساگوان ، خوشبو دار مصالحے، زرو جواہر اورسمندری موتی،سونے اور چاندی کے سکے اور بھانت بھانت کا اسباب لدا ہوا تھا۔ یہ بحری قزاقی کامیاب ہوئی تو برطانیہ نے مزیدتین بحری جہاز بحر ہند میں اتارے لیکن وہ راستہ بھول گئے۔اس کے ایک سال بعد مہم جو برطانوی تاجر رالف فچ اپنی کمپنیوں نے ساتھ منظر عام پہ آیا جس نے پندرہ سال تک بحر ہند، میسو پوٹیمیا،خلیج فارس اور جنوب مشرقی ایشیا میں نہ صرف کامیاب تجارتی سفر کئے بلکہ وہ ہند کی سیاست میں بھی دخیل ہوگیا جہاں اس وقت مغلوں کی حکومت تھی۔ یہی وہ شخص تھا جس نے ہند بالخصوص بنگال کی خوشحالی، مال و دولت اور سونا اگلتی کپڑے کی صنعت کی مخبری کی اور سر لانکاسٹر کو نہایت مفید اور خفیہ معلومات فراہم کیں۔یہی وہ شخص تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد بنا جس نے ملکہ برطانیہ الزبتھ اول سے ہندوستان میں تجارت کا پروانہ حاصل کیا اور ہند میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیے۔بحر ہند میں برطانیہ کے تجارتی حریف ولندیزی اور پرتگیز پہلے ہی موجود تھے لیکن 1612 ء میں سوالی کے مقام پہ بحر ہند میں اس نے ولندیزیوں کو فیصلہ کن شکست دی اور سورت کے مقام پہ اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی محض ایک تجارتی کمپنی نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی فوج بھی تھی۔اس فتح کے بعد ہی سر تھامس رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا اور اس سے سورت اور دیگر علاقوں میں فیکٹریاں اور دفاتر قائم کرنے کی اجازت چاہی اور بدلے میں یورپی مصنوعات ہندوستان کو دینے کا وعدہ کیا۔ جہانگیر کو شاید علم نہ تھا کہ یورپ کی تجارت کا دارومدار ہی درامدات پہ تھا اور سلطنت برطانیہ کی فیکٹریاں ایسا کچھ نہیں بنا رہی تھیں جو ہندوستان منگوایا جاسکے۔ جہانگیر کے دربار میں ہونے والے اس معاہدے نے تاریخ کا وہ ورق پلٹا جس کی آواز آج تک سنائی دیتی ہے۔ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے مکمل طور پہ ہندوستان کے وجود میں اپنے پنجے گاڑ لئے اور اس کی شہ رگ بنگال میں اپنے دانت گاڑ کر اس وقت تک خون چوستی رہی جب تک جنگ آزادی 1857ء کا خون آشام دن نہ آگیا اور ہندوستانی مسلمانوں اور ہندووں کی کٹی پھٹی لاشوں کے ڈھیرپہ تخت برطانیہ نہ بچھا دیا گیا۔اس دوران مسلمان سکون سے نہ بیٹھے۔ ہوسناکی اور ظلم کی سیاہ تاریخ میں جنگ پلاسی، سرنگاپٹم اور بکسر کے میدان ستاروں کی طرح چمکتے ہیں۔سراج الدولہ نے جنگ آزادی سے ایک صدی قبل پلاسی کے میدان میں کلائیو کے ہاتھوں شکست کھائی۔ کلائیو کی فوج میں صرف پانچ سو برطانوی تھے جبکہ باقی ڈھائی ہزار وہ ہندوستانی غدار تھے جو ہمیشہ ہی تاج برطانیہ کے وفادار رہے۔ نواب سراج الدولہ شہید کی فوج میں پچاس ہزار پیادے، اٹھارہ ہزار گھڑ سوار اور 55 توپیں تھیں لیکن وہیں میر جعفر بھی تھا۔اسی کے بیٹے میرن نے سراج الدولہ کو شہید کیا۔ میرجعفر کو حسب وعدہ نواب بنا دیا گیا لیکن اس کو تمام خزانہ اور ذاتی زروجواہر کلائیو کی نذر کرنے پڑے۔صرف کلائیو کا حصہ پانچ کروڑ روپے تھا اسی سے کل خزانے کی مالیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہرجانے کے طور پہ ایک کروڑ روپیہ بھی دیا گیا جو برطانیہ پہنچا دیا گیا۔اس کے بعد 1764 میں بکسر کے مقام پہ جو بنگال کا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا نواب اودھ ، نواب بنگال میر قاسم،شاہ عالم ثانی نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے جنگ کی جو اپنے منطقی انجام یعنی ہندوستان کی شکست پہ متنج ہوئی حالانکہ ان کی جنگی اور افرادی قوت ایسٹ انڈیا کمپنی سے بہت زیادہ تھی۔یہاں سے کلائیو نے مقامی باشندوں سے ٹیکس یا لگان وصول کرنے کا حق بھی حاصل کرلیا جو چھبیس لاکھ روپے سالانہ تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان ہندو مہاراجوں کو جو سلطنت مغلیہ کے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ مغربی طاقتوں کے ایما پہ بغاوت کرچکے تھے انہیں بھی زیر نگین کرلیا۔ یہیں سلطان ٹیپو بھی تھا جس کے انگریزوں پہ رعب کا یہ عالم تھا کہ اس شیر کو پشت میں چھرا گھونپ کر مار گرانے کے باوجود گھنٹوں کسی انگریز کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ اس کے قریب جائے۔پھر اس کے لاشے پہ پاوں رکھ کر نعرہ لگایا: آج ہندوستان ہمارا ہوا۔ اس کی شہادت ، شہادت جاریہ تھی جس کا ثبوت یہ تھا کہ ایک عرصے تک انگریز اپنے کتوں کا نام ٹیپو رکھتے رہے تاکہ ان کے دل سے شہید سلطان کی دہشت کم ہو۔ اس کے بہت عرصے بعد جب تاریخ کے پلوں کے نیچے نسیان کا پانی بہہ چکا تو انگریز افسر کے سلطان کے مقبرے پہ حاضری دی اور کانپتا ہوا باہر آیا۔ اس کا بیان تھا کہ شہید سلطان کی روح کہیں آس پاس موجود ہے اور بزدل افسر کا دل اس کی ہیبت جھیلنے کا یارا نہ رکھتا تھا۔ پچھلے دو ہزار سالوں میں بنگال میں سترہ بار قحط پڑا لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک سو بیس سالہ دور حکومت میں 34 بار قحط پڑا۔انگریزوں کی شقی القلبی کا یہ عالم تھا کہ جب بنگال میں قحط پڑا اور لاکھوں بچے بھوک سے فوت ہوگئے تو انہوں نے بھوک سے مرتے لوگوں کو چاول کئی گنا قیمت پہ فروخت کیا اور کروڑوں پاونڈ منافع کمایا۔ ۔ ہر بار قحط کے زمانے میں مغل حکومت میں لگان کم کردیا جاتا لیکن یہ ایسے ظالم تھے کہ قحط کے دوران لگان بڑھا کر لاشوں کی قیمت وصول کرتے تھے۔مرنے والوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ جب 1942 ء میں سلطنت برطانیہ کے زیر نگین بنگال میں قحط پڑا تو چرچل نے کوئی حفاظتی اقدامات نہ کئے ۔وہ مالتھس کا پیروکار تھا جس کے مطابق قدرت اپنی آبادی کو قدرتی آفات کے ذریعہ کم کرتی رہتی ہے اور چرچل خدائی کاموں میں دخل دینا غالبا کار گناہ سمجھتا تھا۔ سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد جب ہندوستان انگریزوں کا ہوگیا اور جنگ آزادی کے بعد براہ راست تاج برطانیہ کے زیرنگین آگیا تو کچھ عرصے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی تحلیل کردی گئی۔اس کا ہندوستان میں آنے کا مقصد پورا ہوگیا تھا۔ اس کے بعد کی تاریخ ہماری تاریخ ہے۔ یہ کانگریس ، مسلم لیگ اوربرطانیہ کی تاریخ ہے۔ یونینسٹ پارٹی کے جاگیر دار کیوںمسلم لیگ میں شامل ہوئے اور ان کے بغیر مسلم لیگ کبھی اکثریت حاصل نہ کرسکتی یہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔یہ کہانی پھر سہی۔