اسے دربار نہیں کہا جاسکتا کہ دربار تو بادشاہوں کے ہوتے ہیں اور وہ بادشاہ ہی تو نہ تھا بادشاہ ہوتا تو بھری مجلس میں کوئی کھڑا ہو کر اس کے اثاثے کی بابت سوال پوچھنے کی جرأت کرتا؟وہ ہمدرد غم گسار عادل اور خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے والا حاکم تھا اور اسکی حکومت ایک دو شہروں کی تک کی نہ تھی وہ بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم تھا اور حاکم بھی ایسا کہ ایک بار مسجد میں کھانا کھاتے ہوئے کسی اجنبی مسافر کو ساتھ شریک کیا جوکھانے میں رکھے گھی کے برتن کوپہلے تو للچائی ہوئی نظروں سے تکتا رہا اورپھر ندیدوں کی طرح گھی کھانے لگا وہ یہ سب دیکھ کر مسکرایا تو مہمان شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا معذرت چاہتاہوں دراصل میرے علاقے میں قحط پڑا ہوا ہے کھانے پینے کو کچھ نہیں اک عرصے کے بعد آج گھی دیکھا تو میں خود کو روک نہ پایایہ سن کراسکا دل دھک سے رہ گیا وہ پریشان ہو گیا کہ اسکی رعیت میں کہیں یہ حال بھی ہے کل مجھ سے سوال ہو گیا کہ تیری رعیت میں لوگ بھوک سے پریشان تھے اور تو گھی میں چپڑی ہوئی روٹیاں کھارہا تھا ؟ اس نے اسی وقت خود پر گھی حرام کر لیا کہ جب تک اس علاقے سے قحط ختم نہیں ہوجاتا وہاں کے لوگوں کے سامنے کھانے کے برتنوں میں گھی نہیں آتا وہ بھی گھی نہیں کھائے گا ۔۔۔یہ اسی خداترس حاکم، عادل اور محتسب حکمران کا دفتر تھا جو خود بھی احتساب کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا تھا اور دوسروں کو بھی کوئی رعائت دینے کا روادار نہ تھادنیا اسے عمر فاروق ؓ کے نام سے جانتی ہے جواس وقت دفتر میں آنے والے اپنے گورنر کے کاندھوں پر رکھی پوٹلی کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے دراصل انہوں نے ابوہریرہ ؓ کو بحرین کا گورنر بنا کر بھیجا تھااورانکی یہ عادت تھی کہ جب کسی کو کسی علاقے کا گورنر بنا کر بھیجتے تو اس کے اثاثوں کاریکارڈ رکھ لیتے اور جب وہ واپس بلایا جاتا تو کراس چیک کیا جاتا کہ اب اسکے اثاثے کیاہیں ،اس معاملے میں عمرفاروقؓ کسی کا لحاظ نہ کرتے تھے کھرا احتساب کرتے پوچھ گچھ کرتے عمرفاروقؓ نے ابوہریرہ ؓ کوبحرین کا گورنر بنا کر بھیجا تھااور اب واپسی پر ان کے کاندھے پر پوٹلی کی بابت سوال کررہے تھے ،یہ سوال کرتے ہوئے انہوں نے زرا بھی خیال نہ کیا کہ ابو ہرہرہ ؓسرورکائناتﷺ کی صحبت میں قابل رشک وقت گزارنے والے ہزاروں احادیث کے راوی ہیں اس سعادت کے باوجود خلیفہ ء وقت نے ان سے سوال کیا’’اے ابوہریرہ ؓ ! یہ گھٹڑی میں کیا لائے ہو؟‘‘جواب میں ابوہریرہ ؓنے جواب دیا کہ ان میں دس ہزار درہم ہیں اور یہ وہ رقم ہے جو انہوں نے بحرین میں کاروبار کے دوران جمع کی ،ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وہ سرکار ی فرائض سے وقت ملنے پر تجارت بھی کرلیا کرتے تھے ،اس پربظاہر کسی کو عذر نہیں ہونا چاہئے تھا کہ سرکاری فرائض پوری دیانتداری سے انجام دینے کے بعد بچ رہنے والے وقت پر ان کا حق تھا اس کلئے سے وہ اس وقت کو کسی اور مصرف میں لاتے تو کیا ہرج تھا لیکن وہ آج کے دور کے وزیر اعظم یا صدر تو نہ تھے وہ تو عمر فاروقؓ تھے انہوںنے اپنے گورنر سے کہا’’ میں نے تمہیں وہاں کاروبار کرنے کے لئے نہیں بھیجا تھا ‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے وہ درھم سے بھری پوٹلی بیت المال میں جمع کرادی اور اس پر ابوہریرہ ؓ نے بھی کوئی دہائی دی نہ احتجاج کیا اطاعت اسی کو کہتے ہیں ۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے اس سوال نے احتساب کا شاندار ضابطہ متعارف کرایا ہے ہمیں بتا دیا کہ احتساب کے بنا حکومت قائم تو ہوسکتی ہے رہ نہیں سکتی اور احتساب وہی ہے جس میں کوئی لحاظ مروت حائل نہ ہواگر کوئی کسی اہم ذمہ داری پر ہے تو چاہے اس نے سرکار دوعالم ﷺ کی مجالس میں پہروں چہرہ انور دیکھ رکھا ہواور کائنات کی سب سے خوبصورت آواز سن رکھی ہواسے پوچھ گچھ ہونی ہے خلفائے راشدین نے حکمرانی اور گورنس کی تمام بیماریوں کا علاج کر رکھا تھا اور ہمارے پاس وہ سارے نسخے موجود ہیں اس وقت حال یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کرپشن کی کالی کھانسی میں بری طرح مبتلا ہے کھا نس کھانس کر ہم اپناگلا چھیل چکے ہیں ہماری سانس دھونکنی کی طرح چل رہی ہے اور ہم ہانپ رہے ہیں حکومت کا کوئی شعبہ کوئی دفتر ایسا نہیں جہاں سے کرپشن کی آواز نہ آرہی ہولیکن جب ہم علاج کے لئے احتساب کے مجرب نسخے کی طرف بڑھتے ہیں تو ’’بیمار ‘‘ ہی چیخنے لگ جاتے ہیں کوئی کہتا ہے ججوں کے اثاثے چیک کرنے کی ضرورت نہیں۔ کوئی کہتا ہے جرنیلوں کا مواخذہ نہیں ہونا چاہئے او ر کوئی آواز لگاتا ہے کہ جرنلسٹ تو دھلے دھلائے ’’حاجی ثناء اللہ ‘‘ ہیں ان پر کیوں وقت ضائع کیا جائے۔ یہ تین ’’ج‘‘ آسمان سے تو نہیں اترے کہ سب کے ساتھ ان کا احتساب کیوں نہ ہو؟اس وقت سب کی نظریں عدلیہ پر ہیں،اسے سخت گیر ماں بننا ہوگا جو کڑوی دوا سے بھاگنے والے بچے کو ٹانگوں کی قینچی میں قابو کرکے زبردستی دوا پلاتی ہے ،عدلیہ کے فل کورٹ بنچ کے سامنے ایک منصف کا ہی کیس نہیں پورے معاشرے کے اعتماد حاصل کرنے کا بھی وقت ہے عدلیہ یہ اعتماد حاصل کرکے اس بیمار معاشرے کا علاج شروع کرسکتی ہے جسٹس عمر عطابندیال نے نومبر2019ء میں جسٹس فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران عوام کے دل کی بات کہی تھی کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد ہونا چاہئے اور عوام کے اعتماد کے لئے ججوں کا احتساب بھی ضروری ہے۔مرض شدید اور علاج ناگزیر ہے عدلیہ آج اپنے احتساب کا آغاز کرتی ہے تو کل سب بیماروں کو بھی طوہا کرہا شربت احتساب پینا ہوگا !