سوویت یونین کا خاتمہ جارج بش کے دور میں ہوا۔ بش سینئر سوویت یونین کے خاتمے سے اسقدر جذباتی ہوئے کہ "نیو ورلڈ آڈر" کا تصور پیش کردیا جس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا گیا کہ اکیسویں صدی "امریکہ کی صدی" ہوگی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ پوری دنیا ایک ہی ورلڈ آڈر کے تحت چلے گی اور اس ورلڈ آڈر کے تحت امریکہ اکیسویں صدی میں پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ یہ وہ حسین خواب تھا جسے پہلا جھٹکا یورپ نے یوروکرنسی رائج کرکے دیا۔ یورو کے آنے سے عالمی مالیاتی نظام میں ڈالر کی اجارہ داری ختم ہوگئی۔ یہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یورپ کا امریکی لیڈرشپ سے نکلنے کا آغاز تھا لیکن اس دوران نائین الیون ہوا یا کرایا گیا تو بتدریج دور جاتا یورپ ایک بار پھر امریکہ کی قیادت میں متحد نظر آنے لگا۔ داد دیجئے ان فاقہ مست افغان طالبان کو جنہوں نے افغان سرزمین پر اس اتحاد کو اس زبردست طریقے سے توڑا کہ پہلے امریکہ کے جرمنی اور فرانس سمیت تمام اتحادی امریکہ و برطانیہ کو میدان جنگ میں تنہا چھوڑ کر بھاگ نکلے اور آخر میں امریکہ اور اس کا حقیقی پارٹنر برطانیہ بھی انخلا پر مجبور ہوا۔ افغانستان کی شکست نے امریکہ کی دنیا پر حکمرانی کا خواب اس بری طرح بکھیر کر رکھدیا ہے کہ آج اس کی وہ پوزیشن بھی باقی نہیں رہی جو 90 کی دہائی میں تھی۔ اس شکست کا تمامتر کریڈٹ افغان طالبان اور پاکستان کو جاتا ہے۔ ذرا یاد کیجئے وہ وقت جب ہر پندرہ دن بعد امریکہ اور برطانیہ کے جرنیل، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع میں سے کوئی نہ کوئی اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترتا اور ہم سے کہتا "ڈو مور !" کسقدر بدترین دباؤ تھا وہ جس میں باقاعدہ حکمت عملی کے تحت ہر پندرہ دن بعد ایک اہم ڈیلی گیشن آتا اور ہمارا بازو مزید مروڑ جاتا۔ لیکن امریکہ کی اکڑ کی طرح ہماری مشکل کے دن بھی گزر ہی گئے۔ پچھلے دو تین سالوں کے دوران اس خطے میں رونما ہونے والے واقعات دیکھے جائیں تو افغانستان سے چل چلاؤ یقینی نظر آتے ہی امریکہ نے 2017ء وہاں علاقائی قوت کے طور پر بھارت کے قدم مضبوط کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس مقصد کے لئے اس نے آگے چل کر دفاعی معاہدے کی صورت اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار بھی کیا لیکن چونکہ اس کے بارہ ہزار فوجی اب بھی افغانستان میں موجود تھے اور وہ وہاں فوجی اڈوں کے استحکام کی امید لئے بیٹھا تھا سو پاکستان کے خلاف کوئی عملی جارحیت مول نہیں لے سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا جواب اسے افغانستان میں ملے گا۔ اور یہ اس لئے ممکن تھا کیونکہ ہم گڈ اور بیڈ طالبان کی تفریق والی پالیسی پر گامزن تھے۔ چنانچہ مین سٹریم ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی پرسیپشن مینجمنٹ پروگرام کے تحت کام کرنے والے لبرلز سے یہ ڈھنڈورا پٹوایا جاتا رہا کہ طالبان سب ہی برے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو ’’گڈ طالبان‘‘ والا تصور ترک کرنا ہوگا۔ ہمارا موقف یہ رہا کہ افغان طالبان نے اپنی پوری تاریخ میں پاکستان کا ایک تنکا تک متاثر نہیں کیا لھذا ہمارے وہ دشمن ہی نہیں ہیں تو ہم ان کے خلاف کوئی ایکشن لے کر انہیں اپنا دشمن کیوں بنائیں ؟ امریکہ کہتا کہ وہ ہمارے اور ہماری پٹھو افغان حکومت کے دشمن ہیں۔ جواب میں پاکستان کا موقف یہ رہا کہ یہ ضروری نہیں کہ جو آپ کا دشمن ہو وہ ہمارا بھی دشمن ہو اور ہم بھی اس سے لڑیں۔ پاکستان کی ہمیشہ امریکہ میں ایک گوٹ پھنسی رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ ہمیں بلیک میل کیا کرتا تھا۔ وہ گوٹ یہ تھی کہ ہم اسلحہ اس سے خریدتے تھے اور وہ جب چاہتا اسے روک لیتا۔ پچھلے سترہ برس کے دوران ہم تیزی سے یہ انحصار ختم کرچکے اور اب ہم بہت سے اہم ہتھیار یا تو خود بنا رہے ہیں یا پھر چین اور روس سے خرید رہے ہیں۔ سی پیک کی تکمیل خوشحالی لائے گی جبکہ ہماری نئی سٹریٹیجک حکمت عملی میں اب چین، روس، ترکی اور سعودی عرب بہت ہی کلیدی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ اسی سٹریٹیجک پارٹنر شپ کو توڑنے کے لئے امریکہ نے طیب اردگان کے خلاف بغاوت کرائی جس کی اطلاع نہ صرف یہ کہ روسی انٹیلی جنس پہلے ہی اردگان کو دے چکی تھی بلکہ طیب اردگان کے طیارے کو استبول آتے ہوئے روس نے ہی فضائی سیکیورٹی مہیا کی تھی ورنہ اردگان کوئی پاگل نہ تھا کہ فضاء میں ترک باغی طیاروں کی موجودگی میں فضائی سفر کرتا۔ اکتوبر 2017ء میں سعودی بادشاہ شاہ سلمان ماسکو کا تاریخی دورہ کر چکے جبکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان حال ہی میں پاکستان، بھارت، چین اور کوریا کے دورے پر ہیں۔ اس دورے کے دوران سعودی عرب کی سی پیک میں پارٹنرشپ کی بنیاد پڑ چکی جو بہت ہی اہم ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے ساتھ ہی نہ صرف یہ کہ پاکستان مکمل طور پر اس کی غلامی سے نکل جائے گا بلکہ شنگھائی تعاون کونسل کی چھتری تلے وجود میں آتا ایشیائی بلاک ایشیا میں اس کے تمام مفادات داؤ پر لگا دے گا۔ آج کی تاریخ میں صورتحال یہ ہے کہ بھارت کو نچلی ذات کے ہندوؤں، سکھوں اور کشمیریوں سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ وہاں خالصتان کی باتیں پھر سے زور پکڑ رہی ہیں جبکہ کشمیر کی تحریک کے دوران ایسا خود کش حملہ بھی ہوچکا جس کا کھرا کشمیر میں شروع ہوکر کشمیر میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان اندرونی بحران سے نکلتا نظر آ رہا ہے۔ سابق فاٹا اور بلوچستان کی عسکری تحریکیں فرار کی حالت میں ہیں جبکہ کراچی پر تیس سال تک آسیب کی صورت مسلط ایم کیو ایم اب آسیب نہیں رہی۔ اس کے دہشت گردوں کا خوف ختم ہو چکا۔ اس صورتحال میں ایشیا پہلی بار ایک بلاک کے طور پر ابھرتا نظر آ رہا ہے جبکہ یورپ جیسا مستحکم براعظم انتشار سے دوچار ہو رہا ہے اور خود امریکہ اپنی عالمی ٹھیکیداری کی بقاء کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے بیسویں صدی کے اختتام پر اکیسویں صدی کو امریکہ کی صدی قرار دیا تھا۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی بنتی نظر آرہی ہے۔ جب ایشیا کے تمام اہم ممالک اس مقصد کے لئے ایک پیج پر نظر آئیں گے تو بھارت کے لئے خود کو اس سے الگ رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ اگرچہ وہ خواب پاکستان کو تنہا کرنے کے دیکھ رہا ہے مگر ایشیائی بلاک کی جانب ہوتی پیش رفت خود اسے روز بروز احساس تنہائی سے دوچار کرتی جائے گی۔ اب آپ ہی بتائے بھارت یہ تنہائی افورڈ کر سکتا ہے ؟ اور وہ بھی اس حالت میں کہ اب اس پر اندر سے بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے !