فنانشل کرائمز انفورسمنٹ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے 44 بینک عالمی سطح پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں ۔یہ انکشاف اس لحاظ سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ بھارت گزشتہ کئی برس سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاسوں میں پاکستان پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگا کر اسے بلیک لسٹ قرار دلانے کی کوشش میں ہے جس طرح پانامہ لیکس سکینڈل تحقیقاتی صحافیوں کے کنسورشئم کی مدد سے سامنے آیا اسی طرح یہ فائلز میڈیا ادارے بزفیڈ نیوز نے حاصل کیںاور انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) اور دنیا بھر میں 400 صحافیوں تک پہنچائیں۔ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ کی فن سین فائلز نے بھارت کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے پردہ اٹھا دیا ہے۔انھوں نے سوال اٹھایا کہ ’ایف اے ٹی ایف کہاں ہے؟ بھارت کو کالعدم سرگرمیوں کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟اسی طرح وفاقی وزیر فواد چوہدری نے عالمی اداروں سے بھارتی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے علاقائی دہشت گردی‘ کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کا اشارہ ان اخباری رپورٹس کی طرف تھا جن میں فن سین فائلر کی خفیہ دستاویزات میں بھارت سے متعلق ہونے والے انکشافات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارتی بینکوں سے رقم کی منتقلی منی لانڈرنگ اور دیگر مالی جرائم کا ارتکاب ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ امریکی حکام کو کم از کم 44 انڈین بینکوں کی ’مشکوک ادائیگیوں‘ سے مطلع کیا گیا۔ ’سن 2011ء سے 2017ء کے دوران دو ہزار سے زیادہ لین دین کے واقعات میں مجموعی طور پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم کی مشکوک منتقلی کی گئی۔ اس مشکوک لین دین میں کئی انڈین بینک، کمپنیاں اور کاروباری شخصیات ملوث تھیں۔بھارتی بینک امریکی ڈالر میں رقم منتقل کرنے کی نگرانی اور منظوری کے لیے بڑے امریکی بینکوں پر انحصار کرتے ہیں۔ اس سروس کو 'کارسپونڈنٹ بینکنگ' کہتے ہیں۔ کارسپونڈنٹ کو اگر کسی مجرمانہ سرگرمی کا علم ہو تو حکام کو باخبرکرنا لازم ہوتا ہے، جیسے منی لانڈرنگ یا دہشت گردی کی مالی معاونت۔ یہ کرنے کے لیے انہیں سسپیشیئس ایکٹیویٹی رپورٹ (ایس اے آر) نامی دستاویزات درج کرنی ہوتی ہیں۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کئی ایس اے آرز کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ’منی لانڈرنگ کا بڑا خطرہ، دوسرے مالی جرائم، نامعلوم فریق، پیسوں کے ذرائع اور رقم کی منتقلی کی وجہ غیر واضح ہونا‘ جیسی شکایات شامل ہیں۔ سٹیٹ بینک آف انڈیا کے ترجمان نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ ’رازداری کے قوانین کی وجہ سے ایس اے آر سے متعلق درخواست کردہ معلومات بینک کے پاس موجود نہیں ہے۔اگر بینکوں کے پاس مجرمانہ سرگرمی کا ثبوت ہو تو انھیں رقم کی منتقلی کو روکنا ہوتا ہے۔ لیک ہونے والی ان رپورٹس میں تقریباً 20 کھرب (دو ٹریلین) ڈالر کی لین دین کا احاطہ کیا گیا ہے جو کہ اس عرصے کے دوران جمع کروائی گئیں ایس اے آر رپورٹس کا ایک معمولی حصہ ہیں۔ بھارت کئی متعدد کاروباری شخصیات بیرونی ممالک میں منی لانڈرنگ کے الزام میں قانون کی گرفت میں آ چکی ہیں ۔چند ماہ قبل برطانیہ کی ہائی کورٹ نے معروف کاروباری شخصیت اور کنگ فشر ایئر لائنز کے سابق مالک وجے مالیا کی اپیل مسترد کر دی ۔ انھوں نے یہ اپیل دسمبر 2018 ء کے فیصلے کے خلاف دائر کی تھی جس میں انھیںبھارت کی تحویل میں دینے کا حکم دیا گیا تھا۔64 سالہ تاجر کے خلاف انڈیا میں جعل سازی اور منی لانڈرنگ (غیر قانونی طریقے سے رقوم کی ترسیل) کے مقدمات درج ہیں۔ فروری 2020 ء میں ایف اے ٹی ایف نے یہ تسلیم کیا تھا کہ پاکستان نے ٹاسک فورس کے 27 مطالبات میں سے 14 پر عملدرآمد کیا ہے۔پاکستان نے بھارت کی شدید مخالفانہ مہم کے باوجود منی لاندرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے معاملات پر عالمی برادری کو مطمئین کرنے کی کوشش کی ہے۔ اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ ہو گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ ہی میں رکھا جائے یا وائٹ لسٹ میں شامل کر لیا جائے۔کچھ عناصر اب بھی پاکستان کی کوششوں کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ان میں خاص طور پر بھارت کی یہ شکایات شامل ہیں ۔پاکستانی حکام جانتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف میں اس کے خلاف کارروائی بھارت کے ایما پر کی جارہی ہے تاہم بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان نے ادارے کی ہدایات کے مطابق اصلاحات لانے کا ااغاز کردیا ہے ۔ایف اے ٹی ایف میں کارروائی پاکستان پر ایک دباو کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ امریکہ جیسے ممالک اس سلسلے میں تعاون کی یقین دہانی کے بدلے کئی تزویراتی امور میں پاکستان کو اپنا مؤقف تبدیل کرنے کا اشارہ دیتے ہیں اور حیرت کی بات یہ کہ اس طرح کے اشارے کنائے بھارت کی بالا دستی قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ضروری قانون سازی کی ہے ۔ان حالات میں عالمی برادری اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو بھارتی بینکوں ہی نہیں بلکہ بھارتی ریاست کے خلاف اسی طرح کی کارروائی ضرور شروع کرنی چاہئے جو بھارت کی فرمائش پر پاکستان کے خلاف جاری ہے۔نظام دنیا مساوات کی بنیاد پر چلنا چاہئے امتیازی سلوک بین الاقوامی امن اور استحکام کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے۔