لک کی 12بڑی کمپنیوں کے ٹیکس چوری میں ملوث ہونے کے شواہد مل گئے۔ ان کمپنیوں نے ملک کو ریونیو کی مدمیں ایک ارب 32کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایاہے۔ ایف بی آر کا کام ٹیکس اکٹھا کرنا اور اس کی چوری کو روکنا ہوتا ہے لیکن اس ادارے کی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ ٹیکس چوروں سے رقوم نکلوانے میں ناکام ہے۔ 12بڑی کمپنیوں کے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی‘ سیلز ٹیکس‘ انکم ٹیکس کی مد میں ایک ارب 32کروڑ 20لاکھ روپے کی چوری میں ملوث ہونے کے شواہد مل چکے ہیں لیکن ایف بی آر حکام کارروائی سے گریزاں ہیں۔ اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے اہداف اس بنا پر پورے نہیں ہو سکے کہ یہ ادارہ چوروں کا معاون بنا رہا۔ بڑی صنعتوں‘ فیکٹریوں اور کمپنیوں کو چور دروازے دکھا کر انہیں ٹیکس چوری کے راستے بتائے جاتے رہے۔ حکومت اگر ٹیکس نیٹ بڑھانے میں سنجیدہ ہے تو ٹیکس کے لئے عالمی بنک ‘ برطانیہ کے ترقیاتی ادارے DFIDبین الاقوامی معتبرادارے ML Kinscycاور HRMCکی مدد سے ایف بی آر کو بہتر بنانے کا کوئی منصوبہ تشکیل دے۔ ٹیکس چوری کے انکشاف کے بعد ایف بی آر کے اہم ترین ادارے PRALCکا تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کرایا جائے تاکہ چوری بارے حقائق سامنے آ سکیں اور حکومتی اہداف پورے ہو سکیں۔ یہ منصوبہ گزشتہ دس برس سے التوا کا شکار ہے۔ اگر حکومت نے اب بھی مصلحت کا شکار ہو کر اس پر کام شروع نہ کیا تو پھر پاکستان میں کبھی بھی ٹیکس کا نظام درست نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے موجودہ حکومت اس منصوبے پر سنجیدگی سے کام شروع کرے۔