لاہور(محمد نواز سنگرا)پچاس لاکھ تک ریفنڈ ز کو یقینی بنانے کا عمل تیز،ایف بی آر نے تمام ریجنل ٹیکس آفسز سے کیسز کی تفصیلات طلب کر لیں، کورونا سے بند انڈسٹری کو سہارا دینے کے لئے حکومت نے 50لاکھ روپے تک زیر التواء ریفنڈز جلد جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ،ملک بھر کے لارج ٹیکس پیئرز یونٹس اور ریجنل ٹیکس آفس کو 50لاکھ تک کے ریفنڈ کیسز کو پراسیس کر کے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر جمع کرانے کی ہدایت دی گئی ہیں۔تفصیلات کے مطابق حکومت نے کورونا سے بند انڈسٹری کو چلانے کے لئے ایسے بزنس مین جن کے 50لاکھ یا اس سے کم ریفنڈز ایف بی آر کے پاس زیر التواء تھے کو جلد جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ انڈسٹری کو مسائل سے نکالا جائے ۔اس حوالے سے تمام 4لارج ٹیکس پیئرز یونٹس اور 18ریجنل ٹیکس آفسز جن میں کارپوریٹ دفاتر بھی شامل ہیں کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس میں سیکشن 170(4)کے تحت کیے حل کیے گئے کیسز اور ریفنڈز کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں کہ اب تک کتنے ریفنڈز جاری کیے جا چکے ہیں تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جائے کہ باقی کتنے ریفنڈز ابھی جاری ہونا باقی ہیں تاکہ ان کو جاری کیا جا سکے ۔ایف بی آر نے 50لاکھ سے نیچے کے تمام ریفنڈز فی الفور جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس حوالے سے ایف بی آر کے ایک افسر نے بتایا کہ ریفنڈ کی رقم اتنی زیادہ تھی کہ اگر جاری کر دیتے تو ایف بی آر کی کولیکشن ایک دم سے نیچے آ جاتی اور اربوں روپے ایف بی آر کے کھاتے سے نکل جاتا جس کی وجہ سے ایف بی آر حکام ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیتے اور ریفنڈز جاری نہیں کیے جاتے تھے اورجس افسر کے زون سے ریفنڈز جاری ہوتے اس کی کولیکشن متاثر ہوتی تھی جس پر پوچھ گچھ ہوتی تھی اب حکومت نے بڑا فیصلہ لیا ہے جس سے ریفنڈز جاری کر نے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے ۔ ایف پی سی سی آئی کے ریجنل چیئرمین ڈاکٹر محمد ارشد نے روزنامہ 92نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی ذاتی مداخلت سے ریفنڈز جاری کیے جا رہے ہیں کیونکہ وزیراعظم نے ایف بی آر کو خصوصی ہدایت جاری کی ہیں جو خوش آئند ہیں۔ریفنڈز کو متعلقہ افسر کی کولیکشن سے مائنس کرنے پر افسر پر دباؤ بڑھتا ہے اور ریفنڈز جاری نہیں ہوتی اس لئے حکومت کو چاہیے کہ ریفنڈ اور کولیکشن کا الگ ونگ اور افسر ہونا چاہیے ،جبکہ ایک ایسا سسٹم بھی قائم ہونا چاہیے جس سے پورا پورا ٹیکس لیا جائے ۔