کراچی (رپورٹ ارشد بیگ ) ایف آئی اے کے سب انسپکٹر شیخ سہیل کی ‘‘کمزور تفتیش‘‘کے باعث جعلی پاسپورٹ پر سفر کرنے والے انسانی سمگلر اور ایک ملزمہ عدالت سے آسانی کے ساتھ ضمانت پر رہا ہو گئے اور یوں ایف آئی اے امیگریشن جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ کی ایک تاریخی کامیابی پر پانی پھر گیا۔ ایف آئی اے امیگریشن کراچی ایئرپورٹ پر تعینات عملے نے فرض شناسی اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 18جنوری 2020 کو ملزمہ عائشہ صدیقی اور انسانی سمگلر معراج خالد کو جعلی دستاویزار پر امارات ائیرلائن کی فلائٹ سے جرمنی جانے کی کوشش پر گرفتار کیا اور ایف آئی اے کے انسداد انسانی ٹریفکنگ سرکل کے حوالے کیا جنھوں نے ملزمان کے خلاف مقدمہ الزام 2020/23 قابل ضمانت سیکشن کے تحت زیر دفعات 419/420/468 اور 471 ت پ مقدمہ درج کیا اور تحقیقات سب انسپکٹر شیخ سہیل کے سپرد کر دی جس نے اگلے روز 21 جنوری کو ملزمان کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لئے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر آٹھ نمبر کے روبرو پیش کیا، اس موقع پر مقدمے کے تفتیشی افسرشیخ سہیل نے ریمانڈ کے حصول کے لئے دستیاب شواہد اور ٹھوس وجوہات کے باوجود عدالت کے روبرو جسمانی ریمانڈ لینے پر زور نہیں دیا جس پر فاضل عدالت نے دونوں ملزمان کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ ملزمان کے وکیل نے فوری طور پر ملزمان کی ضمانت درخواست دائر کی جس پر عدالت نے تفتیشی افسر اور سرکار کو نوٹس جاری کیے اور 22 جنوری کو طلب کیا لیکن تفتیشی افسر شیخ سہیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے جبکہ ایف آئی اے کے تعینات سرکاری وکیل نے بھی ضمانت کی مخالفت نہیں کی اور خاموشی اختیار کی جس پر عدالت نے فی کس ایک لاکھ روپے کی ضمانت پر ملزمان کو رہا کر دیا، اس طرح سے ملزمان صرف ایک رات ہی حوالات میں رہے ، ماہر قانون کے مطابق اس طرح کے سنگین مقدمات میں ہونا یہ چاہے تھا کہ ان ملزمان کے خلاف زیر دفعات 17 اور 22 (بی) امیگریشن آرڈیننس 1979 کے تحت درج کیا جانا چاہیے تھا جو ناقابل ضمانت اور سزا 14 سال قید با مشقت ہے ، اس سیکشن کے تحت درج کیس چلانے کا اختیار بھی صرف انسداد بدعنوانی کی وفاقی سپیشل عدالت سینٹرل کو ہے ۔ اس کیس میں گرفتار ملزمان کو وی آئی پی پروٹوکول اور قابل ضمانت سیکش درج کرنے کے لئے ذرائع کے مطابق بارگین کی گئی اور مبینہ طور پر معاملہ 9 لاکھ روپے میں طے پایا ۔ اس سلسلے میں جب 92 نیوز نے تفتیش کار سب انسپکٹر سہیل شیخ سے اس کیس اور کمزور تفتیش کے حوالے سے استفسار کیا تو انہوں نے اپنی تفتیش پر اطمنیان کا اظہار کیا۔ ذرائع نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ کیا ایسے بااثر اور خطرناک ملزمان صرف ایک روز کے لئے ہی بند ہوتے ہیں حالانکہ ریکارڈ کے مطابق کافی عرصہ بعد انسانی اسمگلر رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے ۔ ذرائع کے مطابق ملزمہ عائشہ صدیقہ گھومنے یا سیروتفریح کے لئے جرمنی نہیں جا رہی تھی بلکہ مستقل رہائش اختیار کرنے کے لئے غیر قانونی طور پر پاکستان سے فرار ہو کر جا رہی تھی، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مصدقہ ذرائع کے مطابق اس نے دو ماہ قبل جعلسازی کے ذریعے استنبول سے جعلی دستاویزات پر جرمنی جانے کی کوشش کی تھی لیکن استنبول حکام نے اس کی کوشش ناکام بنا دی تھی۔ ذرائع کے مطابق انسانی سمگلر معراج خالد نے ملزمہ کو اپنی اہلیہ ظاہر کر کے اس کا جعلی نکاح نامہ بنوایا اور بیرون ملک لے جانے کی کوشش کی، ملزم انسانی سمگلر معراج خالد نے متعدد بار جعلسازی کے تحت درجنوں شہریوں کو بیرون ملک بھجوایا۔ ذرائع کے مطابق اس کیس کا تفتیش کار شیخ سہیل ایف آئی اے میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوا تھا اور انسداد انسانی سمگلنگ سرکل میں گزشتہ 6 سال سے مسلسل تعینات ہے ، دو سال قبل اسی انسپکٹر نے سابق ڈی جی کے ڈی اے آغا ناصر عباس کا جعلی پاسپورٹ بنانے میں مکمل مدد کی اور اپنے دفتر میں اسے وی آئی پی پروٹوکول دیا اور پاسپورٹ میں سرکاری افسر ظاہر نہیں کیا، جب ناصر عباس پاسپورٹ لینے گیا تو پاسپورٹ عملے نے ناصر عباس کا پاسپورٹ روک دیا لیکن شیخ سہیل نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور اسے پاسپورٹ دلوا دیا جس کی انکوائری کے لئے ایف آئی اے افسران مقرر کیے لیکن راشی افسران کے غیر قانونی عمل اور بعض اعلی افسران کے اثر انداز ہونے کے باعث انکوائری داخل دفتر ہو گئی۔