حکومت پاکستان نے وفاق کے زیر انتظام محکموں میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے ایف آئی اے کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ منی لانڈرنگ پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ماضی میں کسی بھی حکومت نے منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات سے گریز کئے رکھا۔ جس سے شہہ پا کر بڑے بڑے منی چینجرز نے اپنے کاروبار کو وسعت دی۔ نوبت باایں جا رسید کہ اس وقت 10ارب ڈالر کی سالانہ منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔ جس نے ہماری معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔روپے کی قدر کم اور بیرونی قرضوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ لیکن ماضی کی کسی بھی حکومت نے اس ناسور پر قابو پانے کے اقدامات نہیں کئے ،بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی صف اول کی قیادت اس دھندے میں برابر کی شریک رہی۔ ایف آئی اے میں اپنے چہیتے افسران کو تعینات کروا کر ماضی میں دل بھر کر ملک و قوم کو نقصان پہنچایا گیا۔ تحریک انصاف نے اگست2018ء میں جب اقتدار سنبھالا تو قومی خزانہ خالی تھا۔ معیشت ہچکولے کھا رہی تھی۔ جبکہ بیرونی قرضوں کا ایک پہاڑ سامنے کھڑا تھا۔ تحریک انصاف کے پاس دو راستے تھے یا ماضی کے حکمرانوں کی طرح آئی ایم ایف کی سخت پالیسیوں کو اپنا کر 10سے 15ارب ڈالر کا مزید بوجھ قوم پر ڈال دیا جاتا یا پھر کرپشن‘ لوٹ مار اور منی لانڈرنگ پر قابو پا کر قومی اداروں کو درست کر کے معاملات چلائے جاتے۔ حکومت نے اپنے انتخابی منشور پر عملدرآمد کرتے ہوئے موخر الذکر فارمولے پر عمل شروع کیا ہے۔ جس کے باعث ہر طرف سے چیخ و پکار اور آہ و بکا کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی صف اول کی قیادت نیب کے ریڈار پر ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور ان کی ہمشیرہ کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے نامی اکائونٹس‘ بے نامی جائیدادوں اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، گو اس طریقے کے ثمرات ذرا دیر سے ملیں گے لیکن یہ ملک و قوم کی بہتری اور ترقی و خوشحالی کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ ایف آئی اے کی تنظیم نو کرنے کا فیصلہ نہ صرف خوش آئند ہے بلکہ یہ برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کی ابتدا ہے۔ منی لانڈرنگ میں عام افراد نہیں بلکہ بڑی شخصیات، ادارے اور بنک ملوث ہوتے ہیں۔ منشیات فروش، انسانی سمگلنگ اور تاجر ٹیکس اور ڈیوٹی بچانے کے لیے دیگر ممالک سے ہی رقم دوسرے ملک منتقل کرتے ہیں، یہی سلسلہ ہماری معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اس میں بڑے بڑے تاجر اورپڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان کا شمار منی لانڈرنگ میں ملوث ٹاپ تھری ملکوں میں ہوتا ہے۔لیکن ماضی کی کسی بھی حکومت نے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے کوئی خاص عملی اقدامات نہیں کیے جس کے باعث ہم اس میں مزید دھنستے چلے گئے ۔اب دنیا ہمیں مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے ۔کوئی دہشت گردوں کی معاونت کرنے کا الزام عائدکرتا ہے تو کوئی اقتصادی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتا ہے ۔نیشنل ایکشن پلان میں حکومت نے منی لانڈرنگ جیسے ناسور سے نمٹنے کے لیے کچھ قواعد و ضوابط مقرر کیے تھے لیکن اپنے ہی بنائے ہوئے قانون پہ عمل نہیں ہوا جس کے باعث دنیا ہمیں مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے۔لیکن حکومت کے موجودہ اقدامات کے بعد امید ہے ہم منی لانڈرنگ کے طعنوں سے بچ جائیں گے۔ بدقسمتی سے منی لانڈرنگ میں ہمارے حکمران ملوث رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے خلاف کاررروائی کر رہی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ تعلیم میں ہم سب سے پیچھے ہیں۔ ہمارے اوورسیز پاکستانی انگریزی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر بنکوں میں بڑے ثقیل طریقے کے ذریعے رقم بھیجنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، اگر درمیان میں کوئی چھٹی کا دن آ جائے تو پھر 2دن کے وقفے سے ان کے خاندان کو رقم ملتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے بنک صرف بڑے شہروں یا تحصیل سطح پر قائم ہیں۔ بڑے قصبات اور گائوں میں بنک نہ ہونے کے باعث ان کے اہل خانہ کو رقم کی وصولی کے لیے شہر میں جانا پڑتا ہے، جو ان کے لیے کوفت اور خوف کا سبب بنتا ہے جبکہ ہنڈی اور حوالے سے رات کے دس بجے یا چھٹی والے دن بھی رقم ان کے گھر کی دہلیز پر انہیں ملتی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت وزارت خزانہ کو طریقہ کار آسان بنانے کا حکم دے اور بڑے بڑے قصبات میں بھی بنکوں کی شاخیں کھولنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد کو منی لانڈرنگ ہنڈی اور حوالہ کے نقصانات بارے آگاہ کیا جائے۔ جب تک پسماندہ اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو اس سلسلے میں بریف کیا جائے گا۔ تب تک منی لانڈرنگ پر قابو پانا مشکل ہے۔ 2008ء میں خانانی اینڈ کالیا کیس منی لانڈرنگ کے حوالے سے سامنے آیا تھا اگر حکومتیں تب سے سنجیدگی سے منی لانڈرنگ کے خلاف کام کرتیں تو ہمیں ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا نہ ہی ملکی معیشت تباہ ہوتی۔ اب حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ ایف آئی اے کی تنظیم نو کرکے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے کام شروع کیا ہے۔ امید ہے اس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے اور ملکی معیشت مضبوط ہو گی اور بیرونی قرضوں اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے چھٹکارا ملے گا۔ اس سلسلے میں عوام کو بھی حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے تاکہ ہم خوشحالی کی جانب بڑھ سکیں۔