حکومت کی طرف سے معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے بیل آئوٹ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ مسلسل موضوع بحث بنا ہوا ہے اور مستقبل قریب میں بھی بحث و تمحیص جاری رہنے کا امکان ہے۔ پاکستان کوبار بار آئی ایم ایف کی طرف کیوں دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستان کی معیشت کی گزشتہ 15 برسوں کی کارکردگی بالخصوص ان ادوار کا بغور جائزہ لینا ہوگا جب پاکستان نے آئی ایم ایف کی مداخلت قبول کی۔ حقیقت پسندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہمیں تحریک انصاف کو ان افعال پر ہدف تنقید نہیں بنانا چاہیے جس کی ذمہ دار یہ حکومت ہے ہی نہیں۔ تحریک انصاف کا سماجی اصلاحات کا ایجنڈا ہے جو تحریک انصاف صرف اس یقین کے ساتھ موخر کئے ہوئے ہے کہ پہلے معیشت کو بحال کرکے اپنا گھر درست کرلیا جائے‘ جو اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف کو مسیحا تصور کرنے کے بجائے کڑوی گولی خود نگلنے کا فیصلہ نہیں کرلیتی اور معیشت کی بیماری کی تشخیص پر توجہ نہیں رہتی، اب جبکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا تو بہت سے گھنائونے اور مجرمانہ پس پردہ ہاتھوں کا بھی جلد انکشاف ہو جائے گا۔ وہ چہرے بھی بے نقاب ہوں گے جنہوں نے ملکی مفاد کے خلاف کام کیا اس کے بعد ہی احتساب کے نئے مرحلے کا آغاز ہوگا۔ معاشی حالات جو جون 2018ء میں تھے یہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پیدا نہیں کئے تھے۔ یہ صورتحال لاجک کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ اور 2007-08ء کی صورتحال سے مماثلث رکھتی ہے ہمارے معاشی نظام کے پیچھے متعدد نظام موجود ہیں جو متوازی طور پر پس پردہ متحرک ہوتے ہیں۔ یہ نظام دانستہ طور پر 2004ء سے 2018ء تک پاکستان کی معیشت کو دبائو کی صورت میں نقطہ زوال تک لانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ معاشی دہشت گرد محتاط انداز میں مخصوص معیشت کے ماہرین کومنتخب کرواتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے پاکستان کی معیشت کو دانستہ طور پر قرضوں کے چنگل میں پھنسایا ہے تاکہ معیشت کوپس روی کا شکار کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف کے ماہرین اور پاکستان کے معاشی ماہرین کے اختلافات ثابت شدہ ہیں۔ سازباز کے تحت پاکستان کی معیشت کو تین برس میں متعدد بار کلین چٹ دے کر 6.67 بلین ڈالر تک قرضہ کی سہولت بڑھا دی گئی جو 2016ء میں ختم ہوئی ہے۔ اس برس بحران تشکیل دیا جارہا تھا جس کا حتمی ہدف پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنا تھا۔ یہ ایسی پہیلی ہے جس کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے اور یہ بھی کہ پاکستان کے آئی ایم ایف سے معاملات کا مستقبل کیا ہوگا؟ 2013ء سے 2017ء کے حالات کا تجزیہ کرتے وقت یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ عالمی سطح پر ان برسوں کے دوران تیل کی قیمتیں مسلسل گرتی رہی ہیں۔ اس دوران بچت جو صرف تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہوئی۔ وہ پاکستان کے کل بیرونی قرضوں کے نہ صرف نصف کے برابر کے قریب تھی بلکہ کل قومی بچت سے بھی کئی گنا زیادہ تھی۔ اس غیر موقع بچت کی وجہ سے ہی ملک کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ کل جی ڈی پی کا محض 2 فیصد رہا اور 2015-16ء تک یہی صورت حال رہی۔ حیران کن امر تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے سازباز کے ذریعے ملکی ادائیگیوں کے توازن کو مسلسل بڑھنے دیا گیا اور یہ بحران گزشتہ 14ماہ میں شعوری طور پر پیدا کیا ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان مسلم لیگ نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا آسان جواب تو حکومت کا ’’میرے سوا کوئی دوسرا نہیں‘‘ کے سینڈروم میں مبتلا ہونا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ معاشی بدحالی کسی حد تک پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کو بے نقاب کرسکتی ہے۔ ان کے مطابق معیشت کو یرغمال بنا کر ہی سول بالادستی کا کیس مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے سابق حکمرانوں نے آئی ایم ایف کو بھی اعتماد میں لیے رکھا ۔ عالمی سطح پر خارجی پالیسی اور دفاعی ماہرین کا ایک گروہ موجود ہے جو جیوسٹریجک حالات کو سرگرم رکھنے کے لیے سیاسی پیچیدگیاں پیدا کئے رکھتا ہے۔ محض چند قوتوں کے علاوہ غیرجانبدار حلقے محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے لیے بیل آئوٹ پیکیج سے بچنا ممکن تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تجربہ رکھنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمن کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جو بیل آئوٹ کی درخواست کی تائید نہیں کرتے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2012ء میں تمام تر مشکلات کے باوجود ایسی صورتحال سے گریز کیا تھا لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013ء کے بعد معاشی معاملات میں ایک فائروال بنائے رکھی۔ یہ معاملات کی چوری ہی تھی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کو تصدیق کرنا پڑے گی۔ قبل اس کے آئی ایم ایف سے معاملہ کیا جائے۔ کچھ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے دہائیوں سے معاملات طے کرنے کے تجربے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت آئی ایم ایف سے معاملات کر کے بھی متوقع نقصان سے محفوظ رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ فنڈ (SAF) اور سوشل ایکشن پروگرام SAP ملکی پیداوار کو دبائو کا شکار کر کے صارفی برآمدات کے لیے راہ ہموار کرتا ہے اس لیے پاکستان کے حوالے سے آئی ایم ایف کا پیکیج ہمیشہ شرح پیداوار میں کمی کی وجہ بنا ہے۔ ماضی کی تاریخ کے نتائج تو یہی بتاتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی مداخلت معاشی ڈسپلن پیدا کرنے کا دبائو اس وقت تک رہا جب تک بحرانی کیفیت موجود تھی۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے ہمیشہ سخت معاشی فیصلے کرنے کی بجائے مقبول فیصلوں کا انتخاب کیا ہے۔ جب ایک بار آئی ایم ایف کی مدت ختم ہو جاتی حکومتیں واپس اپنی پرانی ڈگر پر آ جاتیں۔ معاشی بدنظمی اور بدعنوانی کا دور دور ہو جاتا۔ معیشت کے سنبھلتے ہی قومی دولت کا اسراف شروع ہو جاتا ہے۔ موروثی رکاوٹوں کی وجہ سے ٹیکس آمدن میں اضافہ اور شرح پیداوار میں اضافہ کے لیے کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان میں کبھی بھی مقامی پیداوار میں اضافہ کا سوچا گیا نہ ہی ٹیکس کا دائرہ بڑھا کر کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کی طرف توجہ دی گئی۔ صارفین پر ٹیکس سے صارف معیشت کو فروغ ملتا ہے اور براہ راست ٹیکس کم ہوتا جاتا ہے۔ جب تک ایسا ہوتا رہے گا پاکستان صارفین معیشت کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جائے گا۔ رواں برس جولائی میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیونے پاکستان کے بیل آئوٹ پیکیج کو چین کے قرضوں کے تناظر میں دیکھنے کی بات کی تھی۔ (جاری ہے) انہوں نے کہا تھا ’’کوئی غلطی نہ کریں‘‘ ہم دیکھ رہے ہیں ۔آئی ایم ایف کیا کر رہا ہے؟ آئی ایم ایف کا کوئی تک نہیں بنتا کہ ڈالروں میں ٹیکس کو دیکھے اور محض اس لیے فنڈنگ کو ڈالر سے مشروط کردے کہ آئی ایم ایف کی فنڈنگ میں بھی ڈالر شامل ہیں، یا پھر کہ ڈالر میں چین یا اس کے بانڈز ہولڈر کو ڈالروں میں ادائیگی نہ کی جائے۔ کچھ روز پہلے امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے مدد کی باضابطہ درخواست کردی ہے دیگر امور کی طرح ہم اس معاملہ پر بھی نظر رکھیں گے۔ ہم تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں جس میں پاکستان کے قرضوں کا بوجھ بھی شامل ہے۔ اس کا موازنہ قرضہ کے پروگرام سے کیا جائے گا۔ درحقیقت امریکی ترجمان نے چین کے قرضوں کو الگ کردیا ہے۔ پاکستان کی درآمدات کم ہوں گی تو امریکہ مداخلت کرے گا۔ آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ عطیات دینے والے ملک کی حیثیت سے امریکہ کی کوشش ہو گی کہ وہ سی پیک کے منصوبہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ رکاوٹیں حائل کرے۔ گزشتہ جمعرات کو آئی ایم ایف کے چیف کرسٹین لیگارڈ نے کہا تھا کہ پاکستان کو بیل آئوٹ کے لیے پہلی اور بنیادی شرط قرضوں میںمکمل شفافیت ہوگی۔ پاکستان نے بہت سارے قرضے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے لیے لے رکھے ہیں۔ یہ بیان امریکی رسالے وال سٹریٹ جنرل میں شائع ہوا جس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ آئی ایم ایف سے معاملہ کرتے ہوئے سٹرکچرل تبدیلیوں کی اہمیت نہ ہوگی بلکہ غیرمعاشی شرائط جن کے بارے میں پاکستان بھر میں چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں،پر زور ہو گا۔ امریکہ اب زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔ یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کوشش ہو گی۔ وہ پاکستان پر زیادہ سے زیادہ دبائو بڑھائیں۔ سخت مذاکرات کی وجہ سے آئی ایم ایف سے امداد کی پہلی قسط میں دسمبر 2019ء تک تاخیر ہوسکتی ہے۔ اس تاخیر سے حکومت کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ مذاکرات کواس قدر طول دیا جائے جبکہ پاکستان پہلے ہی 14 ماہ ضائع کر چکا ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کو بڑی مستعدی سے خود کو ایک سیاستدان سے مدبر بدلنا ہوگا کیونکہ کے لاتعداد منصوبے انجماد کا شکار ہیں جن کے مکمل نہ ہوئے بغیر پاکستان کے مسائل کی تشخیص ممکن نہ ہوگی اس لیے جس وقت پاکستان آئی ایم ایف سے اگلے سال کے لیے معاملات کر رہا ہو گا اس وقت دیگر اہم مسائل عمران خان کی فوری توجہ کے متقاضی ہوں گے۔ دشمن یہ بات بہت ابھی طرح جانتا تھا کہ کس طرح آنے والی حکومت کو معاشی گرداب میں پھنسا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ عمران خان کے لیے موجودہ صورت حال میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ معاشی بحران سے جتے ہوئے عمران خان کو پاکستان کی خوشحالی کی منزل کی طرف لے جانے کے لیے بھی جدوجہد کرنا ہوگی، ان کے لیے ہر مشکل منزل کے لیے نشان راہ ہونی چاہیے۔ مشکلات میں اختراع پسندی بھی موجود ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں پیدا کردہ اس دانستہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے دو سال سے زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔ اس کے بعد پاکستان اپنے پاروں پر نہ صرف کھڑا ہوگا بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کرسکتا ہے۔ آنے والی خریف اورگرمیوں کی فصیلوں کو اگر لگن سے برداشت کیا جائے تو یہ پاکستان کی معاشی صورت حال میں بوسٹر کا کام کرسکتی ہیں۔ یہ ہدف حاصل کرنا ہوگا چاہے اس کے لیے پانی کو ٹیل تک پہنچانے کے لیے فوج کی مدد لینا پڑے۔ اس کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر کو ہنگامی بنیادوں پر ڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ سیل ٹیکس کادائرہ ویلیو ایڈ ٹیکس تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے براہ راست ٹیکس بھی پڑے گا۔ سی پیک کے لیے جو مشینری درکار ہو، اس کے لیے متبادل تجارت کا نیا رجحان دیا جاسکتا ہے۔ حکومت کو براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گا۔ یہ سرمایہ کاری ہائوسنگ بنیادی ڈھانچے اور عوامی استعمال کے شعبوں میں ہونا چاہئے۔ سرمایہ کاری میں انڈسٹریل ترقی پر توجہ دینا ہوگی۔ اس حوالے سے ون ونڈو آپریشن کی سہولت ہونا چاہیے۔ برآمدات میں اضافہ ممکن ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ ملکی پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ مرکزی بینک کو غیر ملکی کرنسی کی اور منی چینجر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ وزارتوں اور اداروں کے سربراہوں کو کرنسی کی ویلیو کے بارے میں زبان بندی کرنا ہوگی۔ ایس ای سی پی کو سٹاک ایکسچینج پر نظر رکھنا ہوگی۔ توانائی کے منصوبوں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سپلائی چین پر نظر رکھنا ہوگی۔ پی ایس او کی تنظیم نو کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت پی ایس او کی اجارہ داری ہے جہاں بدعنوانی کے ذریعے قیمتوںمیں اضافہ کیا جاتا ہے۔ آئی پی پیز اپنی سرمایہ کاری وصول کر کے بھاری منافع بنا رہی ہیں۔ پاکستان اب مزید ان کا یرغمال نہیں رہ سکتا۔ آئی پی پیزکے ساتھ ٹیرف پر مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اب یہ ممکن نہیں کہ حکومت بھاری قیمت پر آئی پی پیز بجلی خریدتی رہے۔ آئی ایم ایف کا پیکیج ملے یا نہ ملے ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان کو حالات کی یہ ٹی ٹونٹی وکٹ کھوئے بغیر کھیلنا ہے اور بائولنگ کرتے وقت تمام اوورز میڈن ہونے چاہئیں۔