پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے آئی ایم ایف وفد نے اپنے اعلامیے میں پاکستان میں معاشی پیشرفت کا اعتراف کیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے مالیاتی خسارے کو کم کیا ہے‘ کرنسی کی شرح تبادلہ حقیقت کے قریب ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت کے اقدامات نے توقعات سے بڑھ کر بہتر نتائج دیے ہیں۔ وفد نے عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لئے حکومت کے بعض سبسڈی منصوبوں کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ وزارت خزانہ ٹیکس محصولات بڑھائے۔ تحریک انصاف انتخابات سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران آئی ایم ایف سے رجوع کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتی رہی ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی وزیر اعظم عمران خان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج غیر ملکی قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث ملک کے دیوالیہ ہونے کا تھا۔زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے سکڑ رہے تھے۔ درآمدات برآمدات کی نسبت کئی گنا بڑھ چکی تھیں۔ زرمبادلہ ذخائر پر دبائو کے باعث روپے کی قدر میں کمی ہونے لگی۔ خدشہ تھا کہ پورا ریاستی نظام خرابی کا شکار ہو جاتا کہ وزیر اعظم نے دوست ممالک سے رجوع کیا۔ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین نے سہارا دیا۔حکومت نے معاشی انتظام کو بہتر کرنے کی تدابیر کیں مگر غیر ملکی قرضوں کی واپسی نے صورت حال اس قدر سنگین بنا دی کہ وزیر اعظم کو نا چاہتے ہوئے آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کے نئے قرضے کے لئے بات کرنا پڑی۔آئی ایم ایف سے رجوع کئی لحاظ سے مشکل ثابت ہوا۔ پہلی مشکل یہ کہ وزیر اعظم کو اپوزیشن کے طعنے سننا پڑے ‘ انہیں ماضی میں دیے گئے اپنے بیانات کی وضاحت کرنا دشوار ہو گیا‘ دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ کاروباری برادری میں حکومت کی مالیاتی ساکھ تباہ ہو گئی‘ لوگوں نے سرمایہ کاری کی سکیموں سے پیسہ نکالنا شروع کر دیا‘ تیسرا کام یہ ہوا کہ کھلی مارکیٹ میں 108روپے میں ملنے والا ڈالر بے قابو ہو گیا اور 160روپے تک جا پہنچا۔ سابق حکومتوں نے قرض کی رقوم کو جس طرح غیر پیداواری منصوبوں پر لٹایا اس کا جلد یا بدیر یہی انجام ہونا تھا۔ غیر ملکی قرضوں‘خصوصاً آئی ایم ایف کے قرضوں کے ساتھ ایسی شرائط منسلک ہوتی ہیں جن پر عملدرآمد مقروض ملک کے لئے بسا اوقات ناممکن ہو جاتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اور منصوبے کے مطابق مقروض ملک اپنے معاملات کو چلا لے تو اس کا مالیاتی ڈھانچہ بہتر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے مالیاتی مسائل کی بنیادی وجہ ٹیکسوں کی وصولی کا نظام ناقص ہونااور ٹیکس کے محکمہ کی جڑوں میں بیٹھی بدعنوانی ہے۔ ٹیکس محکموں کے کارندے سرکاری خزانے کو بھرنے کی بجائے اپنی جیب بھرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ امر مزید تشویش کا باعث ہے کہ حکومت جب ٹیکس نظام میں پائی جانے والی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کرتی ہے تو بدعنوانی اور فرسودہ نظام سے فائدہ اٹھانے والے طبقات ایکا کر لیتے ہیں‘ حکومت کے خلاف احتجاج ہوتا ہے‘ مظاہرے کئے جاتے ہیں‘ پارلیمنٹ میں حکومت کو نالائق اور نااہل کہا جاتا ہے اور ذرائع ابلاغ میں مفاد پرست عناصر اور ان کے نمائندے عوام کو گمراہ کرنے لگتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے لئے یہ بڑا نازک مرحلہ ہے کہ اگر وہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کے لئے عوام پر مزید ٹیکس عاید کرتی ہے تو اس سے اپوزیشن حکومت کو بدنام کرنے کا موقع پا سکتی ہے‘ حکومت اگر نئے ٹیکسوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے تو ملک دیوالیہ قرار دیا جائے گا۔صورت حال سنگین ہے‘ تحریک انصاف اگر اس حالت میں مقامی معیشت اور آئی ایم ایف دونوں کو مطمئن کر لے تو بلا شبہ یہ حیرت ناک ہو گا۔ پاکستان نے گزشتہ برس جولائی میں آئی ایم ایف سے قرض کی پہلی قسط وصول کی۔ مجموعی طور پر 6ارب ڈالر کی رقم 39ماہ کے عرصے میں پاکستان کو فراہم کی جائے گی۔اس دوران آئی ایم ایف اس امر کا جائزہ لیتا رہے گا کہ پاکستان اس کی منظور کردہ پالیسی گائیڈ لائنز کے مطابق مالیاتی معاملات کا بندوبست کرتا ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف سے پچھلی قسط دسمبر 2019ء میں موصول ہوئی تھی۔اس قسط کے اجرا کے ساتھ جو شرائط منسلک کی گئی تھیں‘ پاکستان نے انتہائی مشکل صورت حال کے باوجود ان پر عمل کیا ہے۔ حکومت نے سماجی تحفظ‘غربت میں کمی اور صنف امتیاز میں کمی کے لئے جو اقدامات کئے آئی ایم ایف کے وفد نے حالیہ دورے میں ان کو سراہا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کا مطالبہ ہے کہ پاکستان ٹیکس اہداف میں اضافے کو استحکام بخشنے کے لئے موثر اصلاحات نافذ کرے‘ حکومت کی طرف سے بعض شعبوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ یہ استثنیٰ ختم کیا جائے‘ حکومت سے کہا جا رہا ہے کہ اخراجات کے سلسلے میں قابل عمل پالیسی ترتیب دی جائے جو شرح نمو کو سہارا دے سکے۔پاکستان کے لئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے یہ معاملہ قومی معیشت اور پالیسیوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔پاکستان اگر آئی ایم ایف کے سفارش کردہ مالیاتی فریم ورک پر عمل کرتا ہے تو اس سے بقول آئی ایم ایف ناصرف ترقی کی رفتار تیز ہو گی بلکہ ساتھ ہی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں آسانی مل سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد واپس روانہ ہو چکا ہے‘ پی ٹی آئی حکومت کو بیل آئوٹ پیکیج کی اگلی قسط وصول کرنے کے لئے کچھ مشکل فیصلے کرنا ہوں گے لیکن حکومت کے مالیاتی منیجر اگر سبسڈیز کو حقیقی مستحق افراد تک پہنچانے کا موثر نظام تیار کر کے آئی ایم ایف سے بات کرتے ہیں تو اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ناممکن نہیں رہے گا۔