ابھی پچھلے دنوں امریکی صدر نے نیتن یاہو کو الیکشن جتوانے کے لئے ایک تحفہ پیش کر دیا اور گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کی ریاست قرار دے دیا۔ اس سے پیشتر امریکہ کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کو نئی بستیاں آباد کرنے کا حق بھی تسلیم کر لیا گیا اور بیت المقدس کو تو سب سے پہلے اسرائیل کا صدر مقام قرار دے کر امریکی سفارتی عملہ بھی منتقل کر دیا گیا تھا۔ گولان کی پہاڑیوں کو تفویض کرنے کے اعلان پر حسب معمول ایک مرتبہ پھر عرب دنیا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ یہ لہر اکثر دوڑا کرتی ہے اور پھر آرام سے منہ کے بل گر کر لیٹ جاتی ہے۔ عرب سربراہوں کی کانفرنس کے دوران پھر سے گولان کو اسرائیل میں شامل کرنے کے امریکی اعلان پر شدید احتجاج کیا گیا۔ اس کانفرنس کی تصویر دیکھ کر میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا کہ ان میں سے کچھ عرب حکمرانوں کی تو امریکہ سے اتنی گوڑھی یاریاں ہیں کہ ٹرمپ کی آمد پر نہ صرف اس کی اہلیہ کے ’’رفاہی ادارے‘‘ کے لئے کروڑوں ڈالر پیش کئے گئے بلکہ حکمران حضرات نے ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے ذاتی طور پر رقص بھی کیا۔ ٹرمپ کے یہودی داماد کے ساتھ تو باقاعدہ شیرو شکر وغیرہ ہوتے رہتے ہیں۔ شنید ہے کہ گولان کے تحفے کا اعلان کرنے سے پیشتر ان حضرات کو پیشگی اطلاع کر دی گئی تھی تاکہ وہ غم و غصے کا شدید اظہار کرنے کے لئے کچھ پیشگی تیاری کر لیں۔ ویسے کل کلاں عین ممکن ہے کہ امریکہ کی جانب سے پورا مقبوضہ فلسطین ‘ غزہ کے ہمراہ ‘ اسرائیل کو سونپ دیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یقین کیجیے ایک مرتبہ پھر شدید غم و غصے کی لہر دوڑ جائے گی۔ نہ دوڑی تو جو ایان علی کی سزا وہ میری۔ مصر کے صدر السیسی، سعودی عرب اور گلف کے کچھ حکمران سب کے سب امریکہ کو دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں کہ ان کی بقا کا سوال ہے۔ فلسطین جائے بھاڑ میں۔ اردن بھی نہائت فرمانبردار ہے۔ ان میں صرف شام رہ گیا تھا اور وہ بھی خانہ جنگی کا شکار کر کے تباہ کر دیا گیا۔ دراصل گولان کی خبر پڑھ کر مجھے وہ دن یاد آنے لگا جب میں دمشق سے گولان کی پہاڑیاں دیکھنے گیا تھا۔ میں اپنی تحریروں میں ان زمانوں کا تذکرہ کر چکا ہوں جب 1975ء کے موسم گرما میں پی ایل او میں شامل ہو کر فلسطینیوں کی جدوجہد کا ایک حصہ بننے کے لئے میں نے بیروت کا سفر کیا تھا اور راستے میں شام پڑتا تھا۔ ترکی کے شہر غازی انتپ کے راستے جب میں شام کی سرحد تک پہنچا تو کسٹم کے اہلکار نے باقی سب مسافروں کو تو شام میں داخل ہونے کا ٹھپہ لگا دیا لیکن میرا پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر مجھے روک لیا۔ ’’آپ پاکستانی ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کو خوش آمدید نہ کہوں۔ بغیر قہوہ پلائے رخصت کر دوں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر آپ شام کے کھانے کے لئے میرے ہاں قدم رنجا فرمائیں‘‘ مجھے اس سلوک کی ظاہر ہے توقع نہ تھی کہ پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر اکثر سرحدوں پر مجھے شک کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور یہاں باقاعدہ آئو بھگت ہو رہی تھی۔ دمشق پہنچنے پر یہ بھید کھلا کہ جنگ رمضان کے دوران پاکستان نے شام کی مدد کے لئے اتنا کچھ کیا۔ اپنے تمام فوجی اور مالی وسائل مکمل طور پر ان کے سپرد کر دیے کہ شامی پاکستان کے اور خصوصی طور پر بھٹو کے گرویدہ ہو گئے۔ دمشق میں اکثر یہ جان کر میں پاکستانی ہوں۔ شامی مجھ سے گلے ملتے۔ اصرار کرتے کہ میں ان کے گھر چلوں کہ وہ بے حد شکر گزار تھے جیسے ہم 65ء کی جنگ کے دوران انڈونیشیا اور سوئیکارنو کے شکر گزار ہوئے تھے۔ راہ چلتے لوگ مجھے روک کر کہتے ’’بھٹو گڈ مین‘‘ اس لئے بھٹو کی پھانسی کے بعد اس دور ابتلا میں شامیوں نے اس کے ساتھیوں اور آل اولاد کو پناہ دی اور مددگار ثابت ہوئے۔1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو شامیوں کا سب سے بڑا اسلامی ہیرو تھا ان دنوں میرا ایک دوست مظہر قیوم دمشق کے پاکستانی سفارت خانے میں فرسٹ سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ایک روز میں اس کے آفس میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا کہ وہاں سے پاکستان کے شام میں ڈیفنس اتاشی کمانڈر یونس کا ادھر سے گزر ہوا اور وہ مجھے پہچان کر اپنے کمرے میں چائے کے لئے لے گئے جہاں ایک پتلا دبلا چھدرے بالوں والا گندمی رنگت کا شخص کمر اکڑائے بیٹھا کسی رسالے کے صفحوں میں مگن تھا۔ مجھے دیکھ کر اٹھا اور بے حد تپاک سے ملا۔ اس نے میری ایک دو کتابوں کا اور انہی دنوں ٹیلی کاسٹ ہونے والے میرے ڈرامے’’نواب سراج الدولہ‘‘ کا خاص طور پر ذکر کیا کہ ڈرامے میں نواب سراج الدولہ کا کردار میں نے ادا کیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ ملاقات کی خواہش کا اظہار کر کے چلا گیا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ کمانڈر یونس نے رسمی طور پر میرا تعارف بھی نہ کروایا کہ ان کے لہجے میں کچھ جھجک تھی۔ وہ شخص مجھے بہت شناسا لگتا تھا لیکن میں طے نہ کر سکا کہ وہ کون ہے۔ بعدازاں کمانڈر یونس نے راز داری کے لہجے میں کہا ’’تارڑ صاحب۔ یہ 65ء کی جنگ کے ہیرو ایم ایم عالم ہیں۔ ان دنوں یہاں ہیں‘‘ میرا خیال ہے کہ نشان حیدر کا اعزاز حاصل کرنے والوں کے بعد ایم ایم عالم پاکستان کے سب سے پسندیدہ اور بڑے ہیرو ہیں اور اس ہیرو کے ساتھ ہم نے بعدازاں بہت بُرا سلوک کیا۔ مجھے ان کی ہمشیر گان سے ملنے کا بھی اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔ اس انکشاف پر میں بے حد حیرت زدہ ہوا کہ ایم ایم عالم دمشق میں کیا کر رہے ہیں۔ بعد میں جو ایک آدھ ملاقات ہوئی اس میں کچھ بھید کھلا۔ کہا جاتا ہے کہ 73ء کی جنگ رمضان کے دوران شامی ایئر فورس تو اسرائیل پر بمباری کرنے کے لئے اڑان کر جاتی تھی اوردمشق کے آسمانوں کی حفاظت پاکستانی پائلٹ کرتے تھے۔ اسرائیل کے جو جنگی طیارے شام کی حدودمیں داخل ہوتے تھے انہیں ایم ایم عالم کے تربیت یافتہ پاکستانی پائلٹوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہ بھی شنید ہے کہ انہوں نے چند اسرائیلی طیارے تباہ بھی کئے تھے اس لئے شامی ہر پاکستانی کو اپنا محسن جانتے تھے اور ان سے الفت کا اظہار کرتے تھے۔ علاوہ ازیں دمشق کے باہر جو شامی توپ خانہ تعینات تھا اس میں کچھ پاکستانی توپیں شامل تھیں۔ دمشق میں دیگر زیارتوں کے بعد میں نے مظہر قیوم سے کہا کہ میں شام میں وہ مقام دیکھنے کا خواہش مند ہوں جہاں ہمارے رسول اللہ ؐ تجارت کی غرض سے تشریف لاتے تھے لیکن بدقسمتی سے یہ کچھ دفاعی مسائل کی وجہ سے ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ میری ایک اور خواہش جو ممکن نہ لگتی تھی مظہر قیوم کی کاوشوں سے پوری ہونے کا امکان پیدا ہو گیا۔ میں گولان کی پہاڑیاں دیکھنا چاہتا تھا اور غیر ملکیوں کے لئے وہ علاقہ بوجوہ ممنوع تھا۔ مظہر نے شامی وزارت دفاع کو قائل کرلیا کہ تارڑ نام کا پاکستانی ادیب ہونے کے ناتے قابل اعتبار ہے اسے وہاں جانے کے لئے خصوصی اجازت نامہ مرحمت فرمایا جائے اور میری قسمت نے ساتھ دیا اور گولان کا اجازت نامہ جاری کر دیا گیا جس پر میرا نام’’السیدی مستنصر حسین تارڑ‘‘ درج تھا چنانچہ میں نے قیوم سے کہا’’تم گواہ رہنا کہ عربوں نے مجھے سید قرار دے دیا ہے اور اس پر مہر لگا دی ہے‘‘ دمشق سے باہر نکلے تو ہر سو ویرانی تھی۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے آثار تھے۔ شاہراہ پر صرف ہماری کار تھی۔ جس کا رُخ گولان کی پہاڑیوں کی جانب تھا۔ (جاری)