ایم کیو ایم کی طرف سے ملک میں 8نئے صوبے بنانے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے ،یہ بل تضادات کا مجموعہ ہے ،بل میں 8نئے صوبوں کی بات کی گئی ہے جبکہ بل کے اندر جو تفصیل ہے اس میں پہلے سے موجود صوبوں کو ملا کر 8صوبے بنتے ہیں ،قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے بل کا متن یہ ہے ایم کیو ایم کی رکن کشوہ زہرہ نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائے گئے بل کے متن میں کہا ہے کہ پنجاب میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبے بنائے جائیں جب کہ سندھ اور کے پی کے میں بھی دو دو صوبے بنائے جائیں ۔ بل میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخواہ کے 2 صوبے کے پی کے اور ہزارہ بنائے جائیں ۔ جب کہ سندھ کے 2 صوبے شمالی سندھ اور جنوبی سندھ بنائے جائیں ۔ اس کے علاوہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی 20 نشستیں ، ہزارہ کی 9 اور کے پی کے کی 56 نشستیں بنائی جائیں ۔ شمالی سندھ کی 43 اور جنوبی سندھ کی 32 نشستیں بنائی جائیں ۔ بل میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کی 117 اور جنوبی پنجاب کی 38 نشستیں ہونی چاہئیں جب کہ وفاقی دارالحکومت کی 3 نشستیں ہونی چاہئیں ۔ بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی جنرل اور خواتین کی کل 335 نشستیں بنائی جائیں ۔ بل میں ایم کیو ایم پاکستان نے سینیٹ کی نشستیں 104 سے بڑھا کر 188 کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ میں فاٹا کی 8 اسلام آباد کی 4 نشستیں بنائی جائیں جبکہ سینیٹ میں 8 صوبوں کی 22، 22 نشستیں ہونی چاہئیں ۔ ایم کیو ایم کی طرف سے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے بل کی تفصیل سے معلوم ہواہے کہ 8نئے صوبے نہیں بلکہ پہلے والے 4صوبوں کو ملاکر 8صوبے بنتے ہیں اور یہ شوشہ نئے صوبے بنانے کیلئے نہیں بلکہ وسیب کی تحریک کو خراب کرنیوالی بات ہے ،اگر ہم تھوڑا سا پیچھے جائیں توسید یوسف رضا گیلانی کے دور میں سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ سرائیکی صوبے کا بل پاس ہوا اس بل کی حمایت ایم کیو ایم نے بھی کی ،اصولی طور پر ایم کیو ایم کو سینیٹ سے منظور کیے گئے بل کو آگے بڑھانا چاہئے ،صوبے کے مسئلے پر نت نئی تجویزیں صوبے کے مسئلے کو خراب کرنے کے مترادف ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں ظفر انصاری کمیشن بنا تھا اس میں بھی ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کی تجویز دی گئی تھی وہ کمیشن بھی دراصل سرائیکی صوبے کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کا حربہ تھا کہ ضیاء الحق دور میں الگ صوبے کی تحریک شدت سے چل رہی تھی ۔ایم کیو ایم کی طرف سے بہاولپور صوبے کی بات کی گئی ہے ،ہمارا تعلق بہاولپور سے ہے ،وسیب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ کونسی بات درست اور کونسی غلط ہے ،ایم کیو ایم والے اب شمالی سندھ کی تجویز سامنے لائے ہیں اس سے پہلے وہ جناح پور اور مہاجر صوبے کی بات کرتے رہے ہیں حالانکہ کراچی تو خود دارالحکومت ہے ،صوبہ ان کے اپنے گھر میں موجود ہونے کے باوجود نت نئی باتیں کرنادرست نہیں۔ ایم کیو ایم والے بہاولپور صوبے کی بات بھی لے آئے ہیں جبکہ بہاولپور صوبہ اس لئے بھی ممکن نہیں کہ صوبہ بننے سے سینیٹ وجود میں آئے گی اور سینیٹ کے 23 ارکان کو منتخب کرنے کیلئے 23 ارکان صوبائی اسمبلی تجویز کنندہ اور 23 تائید کنندہ درکار ہونگے ۔ مزید یہ کہ بہاولپور ڈویژن کو ہیڈ سدھنائی اور ہیڈ پنجند سے سیراب کیا جا رہا ہے۔ یہ دونوں ہیڈ ورکس بہاولپور ڈویژن کی حدود سے باہر ہیں ۔ محمد علی درانی کا یہ کہنا کہ بہاولپور صوبہ رہا ہے اور ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ صوبہ بحال ہو سکتا ہے ، یہ بات بذاتِ خود سراسر جھوٹ ہے ، آئین میںایگزیکٹو آرڈر کی گنجائش نہیں ۔البتہ جب پرویز مشرف مارشل لاء کے بعد چیف ایگزیکٹو بنے تو وہ ایسا کر سکتے تھے مگر محمد علی درانی یا چیمہ صاحب کو اس وقت یہ بات کیوں یاد نہ رہی اور انہوں نے ایگزیکٹو آرڈر کیوں جاری نہ کرایا ۔ ذاتی کوئی دشمنی نہیں لیکن ایمانداری سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ چوہدری طارق بشیر چیمہ بہاولپور صوبے کے مسئلے پر وسیب میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ہم نے ن لیگ کو سابق دور میں کہا کہ پنجاب اسمبلی کی قرارداد صوبہ بنانے کیلئے نہیں بلکہ صوبے کا مقدمہ خراب کرنے کیلئے پاس کرائی گئی ۔ اس کے باوجود ہم نے کہا کہ اگر حکومت دو صوبے بنانا چاہتی ہے تو اسے تمام ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے ، بلا تاخیر اس پر عمل کرے۔ اس نے پانچ سالوں میں صوبے کا نام تک نہ لیا ، یہی ایک بات ہم بہاولپور والوں کیلئے کافی ہے۔ وسیب کے لوگوں سے ووٹ لیکر برسراقتدار آنیوالے حکمران عملی اقدامات نہیں کررہے جبکہ آئے روز بیان آ جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبے کے مسئلے پر ایک نئی کمیٹی بنا دی گئی ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی بھی کمیٹی کا باقاعدہ اجلاس تو اپنی جگہ رہا ، کوئی غیر رسمی اجلاس بھی نہیں ہوا ۔ حالانکہ صوبے کے مسئلے پر پارلیمانی کمیشن بنانے کی ضرورت ہے اور ایک مستقل کمیشن بنا دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ ہندوستان میں ایک مستقل کمیشن کام کر رہا ہے اور جہاں جہاں ضرورت پیش آتی ہے ‘ وہاں صوبہ بن جاتا ہے ۔ تقسیم کے وقت ہندوستان کے 9 صوبے تھے‘ اب 36 صوبے بنگئے ہیں ۔ پوری دنیا میں آسانی کیلئے قوانین بنائے جاتے ہیں ‘ ہمارے ہاں صوبے کا مسئلہ پہلے بھی مشکل تھا ، ضیا الحق کی 8ویں ترمیم کے ذریعے اسے اور بھی مشکل بنا دیا گیا اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کو بھی اس میں شریک کر دیا گیا ۔ نیا صوبہ آئینی مسئلہ ہے اور صوبائی اسمبلی کسی بھی لحاظ سے آئین ساز ادارہ نہیں ۔ پیپلز پارٹی نے بھی وسیب سے بددیانتی کا مظاہرہ کیا کہ اس نے 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین سے آمرانہ ترامیم ختم کرتے وقت ضیا الحق کی بدنام زمانہ اس ترمیم کو باقی رہنے دیا ، اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین سے یہ ترمیم ختم کی جائے ۔ وسیب کے لوگ وسیب کے تمام مسائل کا ذمہ دار وسیب کے جاگیرداروں کو سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ برسراقتدار رہے ،آج بھی بڑا اقتدار ان کے پاس ہے ،یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے وہ قائدین جنہوں نے محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کیا ،کی خاموشی بھی قابلِ غور ہے، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے مخدوم خسرو بختیار نے مرکز اور صوبے میں بڑی وزارتیں لے لی ہیں ۔ عثمان بزدار صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ میر بلخ شیر مزاری کے صاحبزادے میر دوست محمد مزاری پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بن گئے ہیں ۔ سردار نصر اللہ دریشک کے بیٹے حسنین بہادر دریشک کو بھی وزارت مل گئی ۔ سمیع اللہ چوہدری سمیت بہت سے دوسروں نے وزارتیں لے کر خاموشی اختیار کر لی ہے ۔ حالانکہ کو ان کو مینڈیٹ وزارتوں کیلئے نہیں ، صوبے کیلئے ملا تھا ۔