این اے 133 میں تحریک انصاف تحریک انصاف کے مد مقابل ہے اور حتمی معرکے سے پہلے ہی دونوں ہار گئے۔ اگر عدالت جمشید چیمہ کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے بھی دے تو بھی بہت کچھ کھویا جا چکا ہے۔حلقے میں تحریک انصاف کی دھڑے بندی ، آپسی مخالفت ، نالائقی، نااہلی اور بد انتظامی بری طرح بے نقاب ہوئی ہے ، کیا اتنی بڑی پارٹی کو یہ زیبا ہے؟ یہ غلطی نہیں ہے ، نا اہلی ہے۔ الیکشن کمیشن کے دفتر اور لاہور ہائیکورٹ میں ابتدائی دلائل میں تحریک انصاف کے امیدوار جمشید چیمہ کے وکلا نے اگرچہ یہی دلائل دیے کہ یہ معمولی غلطی ہے اسے نظر انداز کیا جانا چاہیے لیکن پریس کانفرنس اور ٹاک شوز میں موقف اختیار کیا گیا کہ ان کی نہیں الیکشن کمیشن کی غلطی ہے۔آر او کے سامنے جمشید چیمہ کے وکیل رانا عبدالشکور اور قاضی مبین نے یہ بھی کہا کہ یہ کاغذات نامزدگی فائل کرنے کی غلطی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کی غلطی ہے۔غلطی کسی کی بھی ہو حتمی قصور وار جمشید چیمہ اور ان کی ٹیم ہی ہے۔ پرویز ملک کی وفات کے بعد خالی ہونے والی نشست پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ حاصل کرنے والے جمشید چیمہ کو شاید اندازہ نہیں تھاکہ حلقے میں کس قسم کے اندرونی چیلنجز درپیش ہیں ۔ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت حلقے کے ایک اہم رہنما شبیر سیال نے جمشید چیمہ اور ان کی اہلیہ کو تجویز کنندہ فراہم کرنے کی ذمہ داری لی ۔ اتفاق کہیے، نا اہلی کہیے یا نالائقی ،دونوں کے تجویز کنندہ این اے 133کے رجسٹرڈ ووٹر نہیں ہیں۔کسی نے اتنی زحمت گوارہ نہ کی کہ8300 پر میسج بھیج کر دیکھ لیتے کہ ان کا ووٹ اس حلقے میں درج ہے بھی یا نہیں۔دلیل یہ دی گئی کہ تجویز کنندہ بلال حسین کے باقی سارے گھر والے اس حلقے کے رجسٹرڈ ووٹر ہیں تو بلال حسین کیوں نہیں ؟ اسی دلیل کو الیکشن کمیشن کی غلطی سے تعبیر کیا گیا اور کہا گیا کہ ناجائز طور پر تجویز کنندہ بلال حسین کا ووٹ این اے 130 میں شفٹ کیا گیا ۔کب کیا گیا،یہ کسی کو معلوم نہیں ۔ اگر غلط طریقے سے ووٹ ٹرانسفر کیا گیا تو پہلے اس مسئلے کو سلجھانا چاہیے تھا نا کہ انہیں بغیر تصدیق کیے تجویز کنندہ بنا دیا جاتا۔حیرت کی بات ہے کہ کاغذات نامزدگی پر اعتراض اٹھانے اور اس غلطی کی نشاندہی کرنے والے ن لیگیوں کوتو معلوم تھا کہ تجویز کنندہ کہاں کا ہے لیکن تحریک انصاف کے رہنما اس سے بے خبر تھے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جمشید چیمہ کے تجویز کنندہ بلال حسین کا ووٹ دوسرے حلقے میں کیسے شفٹ ہو گیا توماضی میں ایسا بے شمار لوگوں کے ساتھ ہوا ہے اور کئی لوگوں نے درخواست دے کر اپنے ووٹ کو واپس اپنے حلقے میں شفٹ کرایا ہے ،جب اعجاز چودھری یہاں سے ایم این اے کا الیکشن لڑ رہے تھے تو بھی اس سلسلے میں ایک مہم چلائی گئی تھی اور سینکڑوں ووٹوں کے اندراج میں موجود غلطی کو ٹھیک کرایا گیا تھا۔ رہا یہ سوال کہ بلال نے 2018 کا ووٹ کس حلقے سے ڈالا تھا ، این اے 133 سے یا این اے 130 سے؟ تو میری معلومات کے مطابق آپسی جھگڑے اور مقامی سیاسی مخاصمت کے باعث پی ٹی آئی کے کئی دھڑوں نے تحریک انصاف کو ووٹ نہیںڈالا تھا ، ممکنہ طور پر بلال بھی اسی دھڑے میں تھے، ورنہ اس غلطی کی نشاندہی 2018 میں ہی ہو گئی ہوتی۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت حلقے کی مقامی قیادت سے ناخوش ہونے میں حق بجانب ہے۔ اعجاز چودھری نہ صرف اس حلقے کے مرکزی لیڈر ہیں بلکہ سینٹرل پنجاب کے صدر بھی ہیں ۔ ان کے اپنے شکوے ہیں۔ اعجاز چودھری کا خیال ہے کہ اس حلقے میں ٹکٹ جاری کرنے سے پہلے ان سے مشورہ نہ کیا گیا ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اعجاز چودھری نے یہاں سے ستر ہزار ووٹ لیے تھے ان کا حق تھا کہ ان سے مشورہ کیا جاتا ، کچھ لوگوں کے خیال میں وہ یہاں سے اپنے بیٹے کو الیکشن لڑانا چاہتے تھے ، لیکن اعجاز چودھری کا خیال ہے کہ ان کے بیٹے کو ٹکٹ نہ ملنا ہر گز شکوے کا باعث نہیں بلکہ ان سے مشورہ نہ ہونا اصل وجہ ہے ۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں سوال ہے کہ اعجاز چودھری کی مرضی سے ٹکٹ کا نہ ملنا کیا جمشید چیمہ کے لیے اس حلقے میں اصل چیلنج ہے ؟اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے تحریک انصاف کی قیادت اس حلقے میں چیمہ فیملی کے خلاف ہونے والے ممکنہ سازش کے پہلووں پر بھی تحقیقات کر رہی ہے ۔ لیکن اگر سازش ہوئی بھی ہے تو بھی سازش کا شکار ہونے والے کی اپنی غلطی اور کوتاہی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حلقے میں تحریک انصاف کا ورکر سمجھتا ہے کہ اب چیمہ فیملی شدید بے دلی کا شکار ہے اور یہ الیکشن لڑنا ہی نہیں چاہتی۔ دو دن پہلے فیاض بھٹی کے گھر ہونے والی ایک میٹنگ میں مسرت جمشید چیمہ نے کارکنوں کو بتایا تھا کہ ان کے وکلا انہیں ہائیکورٹ نہ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ وکلاء سے میری بات ہوئی تو ان کا خیال تھا وہ ایسا مشورہ نہیں دے رہے بلکہ عدالت سے اب بھی پُر امید ہیں ۔ایسے میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ چیمہ فیملی الیکشن نہ لڑنے کا جواز ڈھونڈ رہی ہے ،حلقے کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے لیے اب یہ الیکشن لڑنا اور جیتنا آسان نہیں رہا ۔ پارٹی کا ورکر اس صورتحال سے بہت مایوس اور ناراض بھی ہے ۔ عدالت کا فیصلہ کچھ بھی آئے ، جمشید چیمہ الیکشن لڑیں یا نا لڑیں ، ہر صورت میں تحریک انصاف کو اپنی خامیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہو گا۔ دھڑے بندیوں کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے ، اپنے لیڈرز کو کاغذات نامزدگی داخل کرانا سکھانا ہو گا۔ چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے خاتمے کے لیے آگے آنا ہو گااور کارکنوں کو بد دل ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایسے ہی حالات دیگر کئی حلقوں میں بھی ہیں ، اگر یہ سب نہ کیا گیا تو 2023کا الیکشن آسان نہ ہوگا۔