این جی اوز کے دانش گردشمشیر بکف ہیں۔مذہب ، ریاست، اقدار ، روایات سب کچھ ان کے نشانے پر ہے ۔ضد ہے کہ اس چاند ماری کو آزادی رائے کے باب میں لکھا جائے۔کوئی شکوہ کرے تو کندھے اچکا کر جواب دیا جاتا ہے: ہم اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں اور آئین ہمیں ا س بات کی اجازت دیتا ہے۔۔۔۔۔تو آئیے آج ذرا دیکھ لیتے ہیں آئین جس آزادی رائے کی ضمانت دیتا ہے اس کی حدود و قیود کیا ہیں؟ آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادی رائے کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔آزادی صحافت کا ضامن بھی یہی آ رٹیکل ہے۔لیکن اسی آرٹیکل میں وہ رہنما اصول وضع کر دیے گئے جن کی بنیاد پر آزادی رائے کی حدود قیود کا تعین کیا جائے گا۔ان اصولوں کی تعداد 8ہے۔آئین نے طے کر دیا ہے کہ ان آٹھ اصولوں کی بنیاد پر آزادی رائے اور آزادی صحافت پر قانونی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ یہ اصول کیا ہیں؟ ذرا دیکھ لیجیے۔پہلا اصول اسلام کی شان و شوکت ہے۔این جی اوز کے دانش گردوں کے نزدیک اس اصول کی کتنی اہمیت ہے،ا س کے مظاہر آپ روز ہی دیکھتے رہتے ہیں۔شان و شوکت تو بعد کی بات ہے وہ تو اسلام ہی کے قائل نہیں۔آئین کے آرٹیکل 2 کے تحت پاکستان کا ریاستی مذہب اسلام ہے اور آرٹیکل 2 A میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کیا گیا ہے۔آرٹیکل 31 میں ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جن کی روشنی میں لوگ نہ صرف قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزاریں بلکہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کے مفہوم سے بھی واقف ہو سکیں۔دانش گردوں کی آزادی رائے آرٹیکل 19 کے اس بنیادی اور پہلے اصول کی نفی پر کھڑی ہے۔ دوسرا اصول پاکستان کی سلامتی، سا لمیت اور دفاع ہے۔آزادی رائے کے نام ایسا کچھ نہیں کہا جا سکتا جو ریاست کی سلامتی، سا لمیت اور دفاع کے تقاضوں کے خلاف ہو۔این جی اوز کے دانش گردوں کے ہاں اس اصول کا کتنا احترام ہوتا ہے یہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ففتھ جنریشن وار کے ان لشکریوں کی آزادی رائے کا مطلب ہی مذہب اور ریاست کو ہر وقت سینگوں پر لیے رکھنا ہے ۔جو ایسا نہیں کرتا اس کا جذبہ حریت مشکوک ہے ۔ مذہب کی تضحیک نہیں کرتا توانتہا پسند ہے اور ریاست کو گالی نہیں دیتا تو اس کا نام ’’ گل خان ‘‘ ہے۔دنیا بھر کے مسائل کا ذمہ دار یہ پاکستان کو گردانتے ہیں۔کہیں کچھ ہو جائے سوچے سمجھے بغیر یہ پاکستان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان کا سماج دنیا کا غیر مہذب ترین سماج اور پاکستان ایک غیر ذمہ دار ترین ریاست ہے۔ ایسے میں گاہے بھارتی قیادت اور سماج کا گھنائونا چہرہ سامنے آ ہی جائے تو اس کی مذمت کرنے کی بجائے یہ کندھے اچکا کر ایک عمومی سا تبصرہ فرما دیں گے:’’ کیا کریں گی، دونوں طرف ہی انتہا پسندی پھیل چکی ہے‘‘۔ دنیا کا ہر ملک اپنے مفاد میں پالیسی طے کرتا ہے لیکن پاکستان کا ریاستی مفاد ایک مذاق بنا دیا گیا ہے۔روز اسے طنز اور حقارت کے عنوان کے تحت یاد کیا جاتا ہے ۔مذہبی حوالے تو ان کے لیے ناقابل برداشت تھے ، اب پاکستان کی بات سے یہ بد مزہ ہو جاتے ہیں۔ یہ اب ’’ گلوبل فیملی کا حصہ ہیں‘‘۔ تیسرا اصول مختلف ممالک سے دوستانہ تعلقات ہیں۔آرٹیکل 19 میں واضح لکھا ہے کہ آزادی رائے یا آزادی صحافت کے عنوان کے تحت ان تعلقات کو پامال کرنے کی اجازت نہیں اور اس ضمن میں نہ صرف آزادی رائے کو محدود کیا جا سکتا ہے بلکہ آزادی صحافت پر بھی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ ابھی سعودی عرب کے ولی عہد تشریف لائے۔ اس موقع پرآزادی رائے کے نام پر ہمارے ہاں جو کچھ کہا گیا اور لکھا گیا ، وہ آرٹیکل 19کی صریح پامالی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔وجہ عیاں ہے؟ این جی اوز کے دانش گردوں کے نزدیک عالمی برادری صرف مغرب ہے یا وہ ممالک جن سے پاکستان کے تعلقات بہت اچھے نہ ہوں۔ امت مسلمہ کا ذکر ہو تو ان کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں۔ یہ چیخنا شروع کر دیتے ہیں : بدو بدو۔ان کی عالمی برادری ڈونرز ممالک تک محدود ہے اور ان کا کلچر صرف مغربی کلچر ہے۔کسی اور ثقافت کو یہ ثقافت ماننے کو تیار نہیں۔کوئی جھلک نظر آ جائے تو ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں: کیا اب ہم عربی بولیں گے؟ کیا یہاں اونٹ پھریں گے؟ کیا یہاں کھجورکے درخت لگیں گے؟کیا ہم توپ پہنیں گے؟ چوتھا اصول شائستگی اور اخلاقیات ہیں۔یہ اس سے بھی ناواقف ہیں۔ طنز اور تضحیک ان کی ادا ہے۔ شرم اور حیا سے یہ کم ہی رہ و رسم رکھتے ہیں۔ فحاشی کے تدارک کی بات کی جائے یہ الجھ جائیں گے کہ صاحب فحاشی ہوتی کیا ہے ، ہوپہلے اس کی تعریف تو کرو۔ انہی کی تسلی کے لیے پیمرا قوانین میں کسی حد تک اس کی تعریف بھی کر دی گئی ہے لیکن انہیں افاقہ نہیں ہو رہا۔اپنی ہم نصابی سرگرمیوں کا یہ ابلاغ ان کے نزدیک آزادی رائے ہے۔ پورن کی اشاعت ان کی آزادی صحافت کا درجہ اولی ہے۔ آئین میں دیے گئے اصولوں کی بنیاد پر ریاست نے کچھ قوانین بنا رکھے ہیں۔ آزادی رائے اور آزادی صحافت ان قوانین کے تابع ہے۔ لیکن ففتھ جنریشن وار کے یہ لشکری کسی ایک اصول کو مان کر نہیں دے رہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 123 A کے تحت آزادی رائے پر ایک پابندی لگائی گئی ہے۔ پابندی یہ ہے کہ آپ پاکستان کی تشکیل اور قیام کے خلاف موقف نہیں دے سکتے، آپ اسے برا بھلا بھی نہیں کہ سکتے ۔آپ کو نظریہ پاکستان پر تنقید کرنے کی بھی اجازت نہیں۔آپ ایسا کریں گے تو آپ کو 10سال تک قید با مشقت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ان لشکریوں نے مگر نظریہ پاکستان کو تمسخر اور طنز کا عنوان بنا رکھا ہے۔ ابوالکلام آزاد کے حوالے دے کر قیام پاکستان پر نقد ہوتا ہے ۔اپنے مشاہیر کی توہین کا عمل مسلسل جاری ہے۔قائد اعظم کو قائد اعظم کہتے انہیں تکلیف ہوتی ہے ۔یہ جناح صاحب کہتے ہیں۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 کے تحت مذہبی جذبات مجروح کرنے کی آزادی نہیں ہے۔یہ مسلسل مذہب اور اس کے شعائر کی توہین کر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرتے ہیں۔یہ آزادی رائے کے نام پر جن جن قوانین کو پامال کرتے ہیں ، انہیں ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں۔سلیم احمد نے اسی کی دہائی میں ایک کالم لکھا تھا اس کا عنوان تھا : آزادی رائے کو بھونکنے دو۔ سلیم احمد کو خبر ہو : آزادی رائے مسلسل بھونک رہی ہے۔