آپ سے وعدہ کیا تھا اگلا کالم بھی خدیجہ صدیقی کیساتھ پیش آنے والے واقعہ اوراس کیس میں ہائی کورٹ علی شاہ حسین کی بریت کے تناظرمیں ہوگا،اب ہائی کورٹ مکمل فیصلہ صادرکرچکی ہے،مجرم کی بریت کا جوازیہ دیا گیا ہے کہ اس کے خلاف استغاثہ ٹھوس شواہد اور شہادتیں پیش نہ کر سکا،ایک زخمی گواہ موجود تھاجس کی گواہی پرانحصار نہیں کیاجا سکتا تھا تفصیلی فیصلہ میں تئیس خنجر سہنے والی خدیجہ صدیقی کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے کہ اس نے ملزم کا نام پہلے دن کی بجائے تیسرے دن کیوں لیا، یہ بھی لکھا گیا ہے کہ خدیجہ اور شاہ حسین میں پہلے سے جان پہچان لگتی ہے اور ان دونوں میں کوئی تعلق یا رشتہ بھی ہوسکتا ہے۔ اسی حوالے سے ایک دھماکہ اور ہوا، معروف انگریزی روزنامہ کے نیوز چینل نے خدیجہ صدیقی سے گفتگوکی،جس میں متاثرہ لڑکی نے انکشاف کیا کہ اسے ہائی کورٹ میں بلوایا گیا،جہاں دوسرے فریق سے صلح کا مشورہ دیا گیا،بقول خدیجہ جب وہ انصاف کے ایوان میں بیٹھی تھی،وہاں شاہ حسین کے والد بھی موجود تھے۔ خدیجہ کے اس دعوے کو لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے مسترد کردیا،چینل سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیااورکہا گیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔ عدالت کی طرف سے انصاف مانگنے کیلئے جانے والے کسی سائل اورکسی میڈیا گروپ کو اس سائل کا انٹرویو نشر کرنے پردھمکی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے،موجودہ سیاسی منظر نامے کو جو لوگ عدالتی مارشل لا قرار دے رہے ہیں،کہیں ان کے دعوے کو تقویت تو نہیں مل ہے؟ اب یہ آزادی صحافت پر ملکی عدالت کی جانب سے قدغن کا کیس بھی بن گیا ہے جسے صحافیوں کے کسی مقامی یا عالمی فورم پر اٹھایا جا سکتا ہے۔ ایسے پتہ نہیں کتنے واقعات رونما ہوتے ہونگے جو میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے، خود میرے ساتھ ایک سے زیادہ ایسے تجربات ہو چکے ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنے عدالتی نظام کو’’ سلیوٹ‘‘کر سکتے ہیں۔ آج دس جون ہے،چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے سانحہ خدیجہ پر ازخود نوٹس کی سماعت کا دن، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ امید رکھتے ہیں کہ سانحہ کے ارد گرد پھیلا ہوا سب کچھ معززچیف جسٹس آف پاکستان کے علم میں ہوگا۔ مجھے آج آپ کو ایک گڑیا کی کہانی سنانا تھی جسے عدل کے ایوان میں ایک عادل نے توڑ دیا تھا، گڑیا کی یہ کہانی اگلے کالم میں آپ کے سامنے رکھوں گا،اس دن صرف گڑیا بولے گی۔ ٭٭٭٭٭ اگلے کالم کے پیش لفظ کے طور پرضروری ہے کہ آج کے لاہور اور نصف صدی پہلے والے لاہور کا تقابلی جائزہ لیا جائے، جو کہانی آپ نے آئندہ جمعہ کو پڑھنی ہے اس کاتعلق بھی ریگل چوک سے اسمبلی ہال تک مال روڈ کا مخصوص ایریا ہے،چلتے ہیں اس ٹھنڈی سڑک پر۔ ٭٭٭٭٭ بڑے بڑے پلازے اور شاپنگ سنٹرز بن جانے کے باوجود مال روڈ کا چہرہ ابھی مسخ نہیں ہوا، ریگل چوک میں بھی بہت کچھ پہلے جیسا ہی ہے،ستر کی دہائی میں ہم ریگل چوک کی جس دیو ہیکل دکان سے سموسے کھایا کرتے تھے‘جس کی چھت سو فٹ سے بھی اونچی تھی، نہ صرف آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے بلکہ اس کا پٹھان ویٹر بھی گاہکوں کو پہلے کی طرح خوش آمدید کہتا نظرآتا ہے، وہ ہرگاہک سے آرڈر لیتے ہوئے بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے ڈسٹر سے ٹیبل بھی صاف کرتا رہتا تھا اور وہی ڈسٹر اب بھی اس کے کندھے پرنظر آتا ہے،مجھے توگمان ہے جیسے اس ویٹر کا تعلق ہم انسانوں کی نسل سے ہی نہیں، آج بھی ویسے کا ویسا ہی صحت مند اور مستعد ہے جیسے آدھی صدی پہلے تھا۔ کاش میں آپ کو کسی جادوئی طاقت سے اس دور میں لے جا سکتا ، یقینا آپ سوچتے کہیں ریگل چوک اور مال روڈ کے زندہ آثار قدیمہ جنوں بھوتوں کے مسکن تو نہیں؟ اس ایریا کی عمارتیں آپ کو انجانے خوف میں مبتلا کر سکتی ہیں، یہاں کی دیدہ زیب دکانوں کی عمارات کو ذرا سر اٹھا کر دیکھیں یا کسی قدیمی عمارت کی سیڑھیاں چڑھنے کی کوشش کریں،چند سیکنڈ بعد ہی آپ ہانپ اورکانپ جائیں گے، مال روڈ سے میری شناسائی ساٹھ برس سے بھی پہلے کی ہے، اس وقت سے جب کئی کئی دن کوئی کاراس سڑک پر چلتی نظر نہیں آتی تھی،مال روڈ کا حسن تانگے ہوا کرتے تھے، شام کے وقت گندمی رنگ کی سڈول پنڈلیوں والی اینگلو انڈین لڑکیاں نیکر پہنے سائیکل چلایا کرتی تھیں، ہائی کورٹ والی بلڈنگ بھی یہی تھی جواب ہے مگر تمام ججوں کے پاس کاریں نہیں ہوا کرتی تھیں، لوگ بتایا کرتے تھے ، پنوراما والی سائیڈ پر الفلاح سے ڈاک خانے تک ساری جائیداد اداکار اسلم پرویز کے خاندان کی ہے، مال روڈ پر ہی جہاں پہلے فیروز سنز کی کتابوں کی دکان تھی اور جہاں لاہور کا پہلا چائینز ریستوران کھلا تھا۔ وہاں سے ایک گلی کوئینزروڈ پر واقع گرلز کالج کی جانب جاتی ہے، اس ایریا کو اب بھی وکٹوریہ پارک ہی کہا جاتا ہے، نکڑ پر انڈس ہوٹل تھا،جہاں لوگ چائے پیتے ہوئے چار آنے کا سکہ گراموفون میں ڈال کر اپنی اپنی پسند کے گانے سنا کرتے تھے، وکٹوریہ پارک کے سارے ڈب کھڑبے گھروں میں اینگلو انڈینز رہتے تھے، اس ایریا کی گلیاں بہت عجیب و غریب تھیں، سائیکل بھی کندھے پر رکھ کر گزرنا پڑتا تھا، کہتے ہیں صبیحہ خانم نے انگریزی یہیں سے سیکھی تھی، یہ اس دور کی بات ہے جب صبیحہ خانم کے والد محمد علی ماہیا اور ان کی والدہ بلو رائل پارک کی ایک کھولی میں رہا کرتے تھے، یہ دونوں میاں بیوی تھیٹروں میں پرفارم کیا کرتے تھے اور انہی تھیٹروں میں صبیحہ خانم نے بھی اداکاری کے رموز و اسرار سیکھے تھے۔ اس زمانے میں آواری ہوٹل کی جگہ ہوٹل لارنس آف عریبیا ہوا کرتا تھا جو بعد میں پاک لگژری بن گیا،اوپن ائیر پب ہوا کرتا تھا اور مے نوشوں کا بڑا ٹھگانہ تھا،،الفلاح سینما اور واپڈا ہاؤس والی جگہ ہوٹل نیڈوز تھا، جسے اٹھارہ سو اسی میں مائیکل ایڈم نائیڈو نے قائم کیا تھا، قائد اعظم لاہور آتے تو عموماً اسی ہوٹل نیڈوز میں ٹھہرتے۔ ٭٭٭٭٭ چارچھ مہینے پہلے، میں کئی سال بعد ریگل چوک کی اسی قدیمی سموسوں والی دکان پر یادیں تازہ کرنے گیا تو اسی ویٹر نے پہلے جیسی خوشدلی اور گرمجوشی سے استقبال کیا،میں نے پوچھا، پہچانا؟ جواب ملا،خاور صاحب۔ میں نے اس سے ایک بوڑھے آدمی کے بارے میں دریافت کیا۔ کیا وہ بنگالی زندہ ہے؟ جواب ملا ہاں، زندہ ہے مگر کبھی کبھی آتا ہے، میں جس بوڑھے کے بارے میں دریافت کر رہا تھا،وہ اسی دکان میں بھاشانی، سہروردی، شیخ مجیب،ملک معراج خالد، بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے صحافی بدرمنیر اور ملک حامد سرفراز جیسے لوگوں کے ساتھ دیکھا جاتا تھا، یہ سب لوگ عام طور پر دیال سنگھ مینشن والے شیزان میں بیٹھا کرتے تھے،جب کھانے کوجی چاہتا اورجیبوں میں پیسے نہ ہوتے تو ریگل چوک پہنچ جاتے۔ یہ وہ دور تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کا سورج طلوع ہو رہا تھا اور پاکستان میں ایک بڑے سیاسی انقلاب کی آمد آمد تھی۔ بھٹو صاحب نے لاہور میں پہلا سیاسی اجتماع اور خطاب مال روڈ کے اس ہوٹل میں کیا تھا جہاں اب نقی مارکیٹ کے ساتھ کئی سو چھوٹی چھوٹی دکانیں کھلی ہوئی ہیں،بھٹو کے اس جلسے کا اہتمام راشدبٹ مرحوم نے کیا تھا جو ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کے انتہائی فعال سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ یہ ریسٹورنٹ راجہ صاحب کی دکان سے تھوڑا سا پہلے قائم تھا اور وہاں لیفٹ کے بہت سارے سیاسی ورکر بیٹھا کرتے تھے، میں وہاں کئی بار عطا اللہ ہاشمی صاحب سے ملنے گیا تھا، یہاں کبھی کبھی آغا شورش کاشمیری بھی اور شریف متین بھی نظر آیا کرتے تھے۔ اوہ ہو، دوستو! میں آپ کو کس ماضی میں لے گیا مجھے تو صرف نقی مارکیٹ سے تھوڑا آگے گو گو ریسٹورنٹ تک جانا تھا تھاجو آج بھی اصل حالت میں موجود ہے اور اگلے کالم میں شامل کہانی بھی اسی جگہ سے شروع ہونی ہے۔