کھٹمنڈو(ویب ڈیسک) سائنسدانوں نے گزشتہ ماہ کے دوران دنیا کا بلند ترین موسمیاتی سٹیشن ایورسٹ کے پہاڑ پر تعمیر کیا ہے ، جس کی بدولت اس علاقے کے ماحول اور موسمیاتی مزاج کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔یونیورسٹی آف مین سے تعلق رکھنے والے ماہرِ موسمیات ڈاکٹر پال میوسکی اور ان کے ساتھیوں نے ہمالیائی علاقے کے پانچ مقامات پر موسمیاتی سٹیشن تعمیر کیے ہیں جن میں سے ایک ایورسٹ پر بنایا گیا ہے ۔جان جوکھم میں ڈال کر ایورسٹ کی یخ بستہ سردی میں موسمیاتی آلات لگانے کے کئی مقاصد ہیں۔ ماہرین محض یہاں کا درجہ حرارت اور دباؤ وغیرہ معلوم نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ ’جنوبی ایشیا میں سرگرم جیٹ اسٹریم‘ پر تفصیلی تحقیق کرنا چاہتے ہیں، اور یہی اس تجربہ گاہ کا اہم مقصد بھی ہے ۔ اسی بنا پر اسے ’سیارے کی کھڑکی‘ یا ونڈو آف دی پلانیٹ کا نام دیا گیا ہے ۔جیٹ اسٹریم ہوا کی ان پتلی تہوں کو کہتے ہیں جو زمین سے کچھ بلندی پر اپنے انداز میں پورے کرۂ ارض پر سفر کرتی رہتی ہیں۔ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی حرکات سے زمین پر گرمی اور سردی جیسے اثرات پیدا ہوتے ہیں لیکن جیٹ اسٹریم کی پیچیدہ حرکات اور دیگر معاملات کے بارے میں اب بھی ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہے ۔سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ ایورسٹ زمین پر موجود چند پہاڑوں میں سے ایک ہے جن کی چوٹی جیٹ اسٹریم کو چھوتی ہے اور اسی بنا پر کم وزن اور جدیید آلات پر مبنی خودکار اسٹیشن کے لیے ایک مناسب ترین مقام بھی ہے اور جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تشکیل کرنے والی اہم جیٹ اسٹریم بھی یہاں سے گزرتی ہے ۔دوسرے مرحلے میں موسمیاتی سائنسداں ایورسٹ کے مختلف مقامات کی گہرائی سے قدیم برف کے نمونے حاصل کرنے پر بھی غور کررہے ہیں۔ برف کے ان قدیم نمونوں میں علاقے کا پورا موسمیاتی کیلنڈر مل سکتا ہے ، جسے جان کر ہم مزید بہتر پیش گوئی بھی کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب برف کے نمونے ہزاروں سالہ موسمیاتی تاریخ کا پتہ بھی دیتے ہیں۔موسمیاتی سٹیشن کو پہلے عین چوٹی پر بنانا تھا لیکن وہاں کوہ پیماؤں کے رش کی وجہ سے منصوبہ بدلنا پڑا۔ اب چوٹی سے صرف 420 میٹر نیچے یعنی 8430 میٹر کی بلندی پر ایک جگہ ’ دی بالکونی‘ پر یہ سٹیشن قائم کیا گیا ہے ۔واضح رہے اس سے قبل ایورسٹ پر کئی چھوٹے بڑے اسٹیشن بنائے گئے تھے لیکن اول وہ نیچے کی جانب تھے اور دوم ان میں سے ایک بھی جیٹ سٹریم پر تحقیق کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔