اسلام آباد(خبرنگار،نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے نواز شریف،مریم نواز کی ضمانت پر رہائی کے ہائیکورٹ کافیصلہ برقراررکھتے ہوئے نیب کی اپیل خارج کردی ہے ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے لندن فلیٹس سے متعلق ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نوازکی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ عبوری ہے اورعبوری فیصلے سے اپیل میں نیب کا مقدمہ متاثر نہیں ہوگا۔ دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ملزمان کو ضمانت پر رہا کردیا سپریم کورٹ ٹھوس وجہ کے بغیر ہائی کورٹ کے اختیار میں مداخلت نہیں کرے گی جبکہ نامزد چیف جسٹس جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریما رکس دیے کہ ہائی کورٹ نے غلط یا صحیح ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا اپنا اختیار استعمال کردیا اب ضمانت منسوخی کے لئے کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں ملزم باقاعدگی کے ساتھ ہر پیشی پر پیش ہوتا رہا ہے بلکہ بدقسمتی کے ساتھ ملزم ایک بار پھر پابند سلاسل ہے ۔جسٹس کھوسہ نے شکسپیئر کے ڈرامے مرچنٹ آف وینس کا ذکر کرتے ہوئے نیب کے وکیل کو کہا کہ آپ کیا لینے آئے ہو اگر میںنے شکسپیئر کا تذکرہ کردیا تو لوگ برا مان جائیں گے ،شفاف ٹرائل بنیادی حق ہے اور ہم اس حق کا تحفظ کریں گے ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ نیب کا قانون خصوصی نوعیت کا ہے اور خصوصی حالات میں نیب قانون میں ضمانت ہوسکتی ہے ۔فاضل جج نے کہا ضمانت کیوں منسوخ کردی جائے نیب کے وکیل اس بابت کچھ نہیں بتا رہا۔ایک موقع پر جسٹس گلزار نے کہا چین میں وائٹ کالر کرائمز میں سمری ٹرائل کرکے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ نیب کے وکیل اکرم قریشی نے موقف اپنایا کہ ضمانت صرف نامسا عد حالات پر دی جاسکتی ہے لیکن ہائی کورٹ نے کیس کے حقائق پر بحث کرکے ملزمان کو ضمانت دی جس سے اپیل میں نیب کا مقدمہ متاثر ہوگا جبکہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نامساعد حالات کا ذکر کیا ہے ۔ خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ عدالت نے معاملہ لارجر بنچ کو بھجوایا تھا اورمعاملے کا جائزہ لینے کے لیے 17 نکات بنائے گئے تھے ،ان نکات میں کچھ ایسے بھی ہیں جس سے ان کے موکل کا مقدمہ ہائی کورٹ میں متاثر ہوگا ۔ چیف جسٹس نے کہا ضروری ہوا تو اسے بھی دیکھ لیں گے جبکہ نیب کے وکیل سے استفسار کیاکہ کیاآپ ضمانت منسوخی کیلئے کے طے کئے گئے اصول (پیرا میٹرز) جانتے ہیں، وہ کونسے پیرا میٹرز ہیں جن پر ضمانت خارج ہو سکتی ہے ؟،ہائیکورٹ نے ضمانت دینے کا اپنا اختیار استعمال کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کو نواز شریف کے وکیل کی رضامندی سے شامل کیا۔ نیب کے وکیل نے موقف اپنایا کہ نامساعد حالات میں نیب کیس میں ضمانت ہو سکتی ہے ۔جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ کن حالات کو نامساعد قرار دیا جا سکتا ہے اور کس بنیاد پر ضمانت منسوخ کریں۔ نیب کے وکیل نے کہاکہ ہائیکورٹ نے نامساعد حالات کے بغیر ضمانت دے دی۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے سوال کیا کہ کیا نواز شریف کو رہا کر دیا گیا ہے ، نیب کے راستے میں کیا مشکل ہے ؟ ضمانت کا حکم تو عبوری ہے ۔ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہاکہ نواز شریف اس وقت آزاد شخص نہیں ،جو شخص آزاد نہیں اس کی ضمانت کیوں منسوخ کرانا چاہتے ہیں ، عدالت عظمی نے بھی میرٹ پر بات کی تو اصل کیس پر اثر پڑے گا ہم وہ غلطی نہیں کرنا چاہتے جو ہائیکورٹ نے کی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ضمانت دینے اور منسوخ کرنے کے معیار اور اصول مختلف ہیں، ممکن ہے کہ عدالت مختلف وجہ بیان کر کے ضمانت برقرار رکھے ۔ خواجہ حارث نے دلائل شروع کئے تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ خواجہ صاحب آپ نکتہ نہ دیجئے گا کہ بات ضمانت منسوخی کی طرف چلی جائے ۔جسٹس آصف کھوسہ کے ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے ۔ جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ وائٹ کالر کرائم کے لیے ہی نیب کا قانون بنا تھا، نیب قانون پر سختی سے عمل کرنا ہو گا چیف جسٹس نے کہاکہ وائٹ کالر کرائم کے لیے الگ قانون بنانا ہو گاحکومت نے وائٹ کالر کرائم پر کوئی کام نہیں کیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ ہم آئین کے تابع کام کرتے ہیں اور آئین کے تحت شفاف ٹرائل بنیادی حق اور ہم انشا اﷲ اس حق کا تحفظ کریں گے ، ہائیکورٹ نے جو فیصلہ لکھا اس پر عدالت عالیہ کو گائیڈ ضرور کریں گے ۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک بینک اکائونٹس اور جائیدادوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے ایف بی آر میں پیش نہ ہونے والوں کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے غیرملکی جائیداد تسلیم کرنے والے جرمانہ ادا کریں تاکہ پاکستان کی حالت بہتر ہو ۔عدالت نوٹس نہ لیتی تو ایف بی آر آج بھی بیٹھا ہوتا ، ایف بی آر کو شریفوں کا تھانہ کہا جاتا ہے ، اب تک شریفوں کو اندر بٹھایا جانا چاہیے تھا ۔ ایف آئی اے نے بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے آپ کا کام بہت سست روی کا شکار ہے ،آپ نے ایکشن لینا ہے ، آپ لوگوں کے پاس تو سارا ڈیٹا ہوتا ہے ، آپ کو تو گھنٹوں میں ایکشن لینا چاہیے تھا، لوگوں کو نوٹس دیں۔ عدالت نے ایک ماہ میں پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے پانی کی قیمتوں کے تعین اور استعمال سے متعلق کیس میں صوبوں اور وفاق کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس مسترد کر تے ہوئے سفارشات پر شق وار جواب طلب کرلیا اور قرار دیا صوبے اور وفاق دو ہفتوں میں عملی اقدامات کر کے جواب دیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے پنجاب حکومت میں کام کرنے کی نیت اور قابلیت دونوں ہی نہیں ، مجھے لگتا ہے سارا کام کاغذوں کی نظر ہو جائے گا۔ زیر زمین پانی کے استعمال پر صوبوں کی جانب سے ٹیکس لگانے میں پیش رفت نہ ہونے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور پانی سے متعلق صوبوں کی طرف سے کیے گئے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے پانی نایاب ہونا شروع ہو گیا ، سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، آپ لوگوں نے کچھ نہیں کرنا، ہمیں پیاسا مار دینا ہے ، پھر میں کہوں گا تو خبر لگ جائے گی کہ حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھارہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹس مسترد کردیں اور قرار دیا کہ رپورٹس آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں، عملی طور پر متعلقہ صوبوں اور اسلام آباد انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا۔مزید برآں تین رکنی بنچ نے آئی پی پیز کو اضافی ادائیگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی تووزیر توانائی عمر ایوب عدالت میں پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمر ایوب صاحب ادائیگیوں کا معاملہ دیکھا ہے ، آئی پی پیز کے ساتھ کس طرح سے معاہدے ہوئے ، یکطرفہ معاہدے آئی پی پیز کے ساتھ ہوئے ، غریب لوگوں سے پیسے اکٹھا کر کے ان کو دئیے ہیں، بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ادائیگیاں ہونی ہیں۔ سپریم کورٹ نے آئی پی پیز معاہدوں سے متعلق مفصل رپورٹ طلب کرلی۔ 3رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کی سماعت کی۔سپریم کورٹ نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس نمٹاتے ہوئے کمیشن کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی۔ تین رکنی بنچ نے سکولوں میں منشیات سپلائی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے سکولوں میں منشیات کی روک تھام کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے وفاق و صوبوں کو ماہانہ بنیادوں پر رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی ۔ تین رکنی بنچ نے سندھ واٹر کمیشن سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا 25 دسمبر کو سندھ حکومت کی وجہ سے ٹریٹمنٹ پلانٹ کا افتتاح نہیں ہو سکا کیونکہ صوبائی حکومت نے پلانٹ کے لیے متعلقہ مشینری ہی فراہم نہیں کیْ جسٹس امیر ہانی مسلم نے مزید کام کرنے سے انکار کیا ہے ،سندھ حکومت چاہے تو اپنے طور پر جسٹس ہانی مسلم کو تعینات کر دے ۔ تین رکنی بنچ نے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 123 پیر محل کے انتخابات سے متعلق دونوں فریقین کی توہین عدالت کی درخواستیں خارج کر دیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا اس کیس میں توہین عدالت کیا ہے ،عدالتی حکم پر گنتی کرا کر دوبارہ الیکشن کمیشن میں جمع کرا دی۔ چیف جسٹس نے کہا ہم اس کو توہین عدالت نہیں سمجھتے ۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے قتل کیس میں سزایافتہ خضرحیات نامی ذہنی معذور شخص کی سزا پر عملدرآمد روکنے کا حکم جاری کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو بھجوانے کی ہدایات کر دیں اورکہا کہ فی الوقت سزایافتہ شخص کی میڈیکل رپورٹ مکمل واضح نہیں، کہیں ایسا نہ ہو سارے ملزم ایسی درخواستیں لے کر آ جائیں۔ جسٹس منظور ملک نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ٹرائل کے دوران خضر حیات کے ذہنی مریض ہونے کا نکتہ کیوں نہیں اٹھایا گیا، بعدازاں مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔