ترجمہ:عظیم گوہر،مبصرمحمود،ملک شفاعت، رانا شہزاد،عرفان ریاض، زید سوڈھی، ساجد محمود ، مسعود خان، اسامہ طیب،سردار احسان، محمد عمر ہاشمی، فیصل جاوید، ذیشان جاوید، ملک سعید اعوان، عارف اسلام، حفیظ ہاشمی، اختر حسین ، محبوب احمد، کامران عثمان،شعیب صدیقی، محمد زبیر، غلام مصطفی، فرید جمالی مقدمہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس زیر دفعہ 18(g) جسے سیکشن 24(d) کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے 5ملزمان(میاں نواز شریف ،مریم نواز،کیپٹن(ر) محمد صفدر،حسین نواز شریف اور حسن نواز ) کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ان میں حسین نواز اور حسن نواز بار بار سمن کے باوجود عدالت کے رو برو پیش نہیں ہوئے جس پرسی پی آرسی 87/88 کے تحت ان کے وارنٹ جاری کئے گئے اور تمام عمل مکمل ہونے پر انہیں اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ مبینہ دستاویزات پاناما پیپر ز پاناما کی ایک قانونی فرم "موساک فونسیکا" سے لیک ہوئے جس میں ان5 ملزمان نواز شریف،مریم نواز،کیپٹن(ر) صفدر،حسین نواز اور حسن نواز پر مبینہ طور پر آف شور کمپنیوں سے تعلق کا الزام لگایا گیا۔اس معاملے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں اٹھا یا گیا جہاں سماعت کے دوران الزام علیہان نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کچھ خطوط اور دیگر دستاویزات پیش کیں۔سپریم کورٹ نے چند سوالات اٹھائے اور اس ضمن میں کیس کی تحقیقات اور شواہد اکٹھے کرنے کیلئے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی۔پٹیشن نمبر 29/2016 میں 5 مئی 2017 کو ایک حکم نامے میں جے آئی ٹی کو سی پی آرسی1898، قومی احتساب آرڈیننس 1999اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایکٹ کے تحت کیس کی تحقیقات کیلئے تمام اختیارات دے دیئے گئے ۔جے آئی ٹی نے تحقیقا ت کیں اور اپنی تحقیقاتی رپورٹ 10 جلدوں کی صورت میں سپریم کورٹ کو پیش کر دی۔سپریم کورٹ نے نیب کو ہدایت کی کہ الزام علیہان کیخلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سامنے آنے والے ایون فیلڈ فلیٹس نمبر 16،16A،17،17A جو ایون فیلڈ ہاؤس،پارک لین لندن میں واقع ہیں پر ریفرنسز 6ہفتوں میں تیار کرکے پیش کئے جائیں ۔ (a)۔نیب نواز شریف (مدعا علیہ نمبر 1)،مریم نواز شریف(مدعا علیہ نمبر 6)،حسین نواز(مدعا علیہ نمبر 7)،حسن نواز (مدعا علیہ نمبر 8)اور کیپٹن (ر) صفدر(مدعا علیہ نمبر 9 ) کے خلاف ریفرنس کی تیاری میں جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے مواد کو بھی مدنظر رکھے ۔ (b)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (c)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (d)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (e)۔نیب اپنی کارروائی میں تما م افراد شیخ سعید،موسیٰ غنی ،کاشف مسعود غنی،جاوید کیانی اور سعید احمدسمیت ان تمام افرادکو شامل کرے جن کا مدعا علیہ نمبر 1۔6۔7 ۔8 اور 10 کے ان اثاثوں اور فنڈز کے افعال سے بالواسطہ یا بلا واسطہ گٹھ جوڑ یا تعلق ملتا ہو جو ان کے ذرائع آمد سے منتبق ہو۔ (f)۔نیب ضمنی ریفرنس بھی دائر کر سکتا ہے (g)۔احتساب عدالت اگر مدعا علیہان سے متعلق کسی بھی شخص کی کوئی دستاویز ،معاہدہ یا بیان حلفی جعلی پاتی ہے تو متعلقہ افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت الیکشن لے گی۔ مدعا علیہ نمبر 1اور دیگر کیخلاف ان ہی الزامات پر 2000میں تحقیقات کی گئیں تھیں مگر 3اگست 2017 کے خط پر سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں تازہ تحقیقات شروع کی گئیں اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب لاہور محمد عمران کو یہ ٹاسک سونپا گیا۔ یہ بھی الزام ہے کہ مدعا علیہان کو تحقیقات کے دوران سمن بھیجے گئے مگر انہوں نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے 28جولائی 2017 کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی ہوئی ہے لہٰذا نظر ثانی پٹیشن کے فیصلے تک نیب تحقیقات موخر کی جائیں۔ 7ستمبر 2017 کو عبوری ریفرنس دائر کردیا گیا۔جس میں ملزمان کے خلاف الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کرپشن کی ہے اور جن کی تعریف زیر دفعہ 9(iv)(a)(v)اور(xii) میں کی گئی ہیں اور اورجرم جو سیریل نمبر 2 میں ہے قومی احتساب آرڈیننس کے زیر دفعہ 10 کے تحت قابل سزا ہے ۔ عدالت ہذا نے ملزمان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی شروع کی۔دو ملزمان (حسین نواز اور حسن نواز ) پیش نہیں ہوئے جس پر انہیں اشتہاری قرار دے دیا گیا جبکہ باقی 3ملزمان کو جو عدالت پیش ہوئے کو ریفرنس کی کاپی اور تمام دستاویزات فراہم کر دی گئیں۔ تینوں ملزمان پر مشترکہ فرد جرم عائد کی گئی ۔دریں اثناء مدعا علیہ نمبر 2اور 3 کی طرف سے پیش کی گئی درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے اس میں ترمیم کردی گئی۔ملزمان پر عائد آخری الزام سے متعلقہ حصہ کو درج ذیل میں دوبارہ پیش کیا گیا۔ "آپ ملزم میاں محمد نوازشریف کے پاس ایک سرکاری عہدہ تھا۔آپ اور آپ کے خاندان کے افراد ایون فیلڈ مے فیئر پراپرٹی کے فلیٹ نمبر 16،16A،17،17Aپارک لین لندن کے مالک ،قابض ہیں۔یہ فلیٹس 1993 سے آپ اور کے خاندان کے قبضہ میں ہیں ۔مذکورہ جائیداد آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کے ذریعے خریدی گئیں۔ملزمان ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی خریداری پر عدالت کومطمئن نہیں کرسکے " ۔ یہ کہیںسے ثابت نہیںہوتا کہ مذکورہ کمپنیوں کے شیئرزکی فروخت سے پراپرٹی حاصل کی گئی۔آپ ،مریم نواز ان کمپنیوں کی بینیفشل اونر ہیں جن کی ملکیت ایون فیلڈ پراپرٹیز ہیں۔کلیبری فونٹ میں 2فروری 2006کی تاریخ کوٹائپ کی گئی ایک جعلی اورمن گھڑت ٹرسٹ ڈیڈجمع کرائی گئی لیکن اس سال کلیبری فونٹ اس مقصد کیلئے موجود ہی نہیںتھا۔وہ ٹرسٹ ڈیڈ ملزمہ مریم نواز اور گواہ کے طور پر ساتھی ملزم کیپٹن (ر) محمد صفدر کی دستخط شدہ تھی ۔ایسی جعلی اورمن گھڑت ٹرسٹ ڈیڈجمع کرا کے آپ نے تحقیقاتی ایجنسی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ۔مریم نواز آپ نے جان بوجھ کر مذکورہ پراپرٹیز اور کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے حقائق کو چھپایااور ان پراپرٹیز کو خریدنے کیلئے آپ تمام ملزمان رقم کی بیرون ملک قانونی منتقلی ثابت کرنے میںناکام رہے ،مفرور ملزمان کا بھی اس عرصہ کے دوران بیرون ملک آمدن کا کوئی اور ذریعہ ثابت نہیں ہوتا۔چنانچہ ملزمان میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدرکے جرائم جن کی تفصیلات پہلے بیان کی جا چکی ہیں جوسیکشن 9(a)(iv)(v)اور (xii)کے تحت اورقومی احتساب آرڈیننس 1999 کی سیکشن 10کے سیریل نمبر02 کے تحت شیڈولڈ اور قابل سزا جرم ہیں کے تحت مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں۔مجرمان قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شیڈول 3 (a)میںبیان کردہ جرم کے مرتکب ہوئے ۔ملزمان نے ٹرائل کے دوران اپنے اوپر لگے الزامات سے انکار کیا۔ استغاثہ نے ضمنی ریفرنسز مورخہ 18جنوری 2018اور22جنوری 2018کے دوران 8گواہ پیش کئے ۔کیس کے دوران کل 18 گواہوں کی گواہیاںریکارڈ کی گئیں اور استغاثہ نے 8مئی 2018کو پراسکیوشن مکمل کی۔کریمنل پینل کوڈ 343کے سیکشنز کے تحت ٹرائل میںشامل ہونے والے تینوں ملزمان کے بیانات ریکار ڈ کئے گئے جبکہ ملزمان نے اپنے دفاع میںگواہ پیش نہ کرنے اورکریمنل پینل کوڈ240(2)کے تحت تحقیقات میںپیش ہونے کا آپشن اختیار کیا۔ میںنے تمام دلائل سنے اور مہیا کئے گئے ریکارڈ کا بغور معائنہ کیا ہے ۔استغاثہ کے پیش کردہ گواہان کے بیانات ذیل میںدیئے جاتے ہیں۔استغاثہ کی گواہ نمبر ایک جوائنٹ رجسٹرارآف کمنپنیز، ایس ای سی پی کمپنی رجسٹریشن آف لاہور،مسز سدرہ منصور،چیئر مین ایس ای سی پی کو مورخہ 15اگست 2017کو لکھے گئے نیب کے مراسلہ پر و ہ نیب کے انویسٹی گیشن آفیسر کے سامنے 23اگست2017 کو پیش ہوئیں اور ریکارڈ کی تصدیق شدہ کاپیاں بھی جمع کرائیں۔آئی او نے ریکارڈ کو سیز کر دیا اوران کے دستخط اور انگوٹھے کے نشانات بھی لئے گئے ۔جو دستاویزات ان کی طرف سے مہیا کی گئی تھیں ان میں30جون 2000ء تک حدیبیہ پیپر ملز کے سالانہ آڈٹ اکاؤنٹس کی تصدیق شدہ کاپیاں(صفحہ نمبر 62تاصفحہ نمبر72 ) ، 30جون2001ء تک حدیبیہ پیپر ملز کے سالانہ آڈٹ اکاؤنٹس کی تصدیق شدہ کاپیاں(صفحہ نمبر76تا82) 30جون 2002 تک حدیبیہ پیپر ملز کے سالانہ آڈٹ اکاؤنٹس کی تصدیق شدہ کاپیاں صفحہ نمبر83تا89،( 30جون2003ء تک حدیبیہ پیپر ملز کے سالانہ آڈٹ اکاؤنٹس کی تصدیق شدہ کاپیاں صفحہ نمبر90تا96، ) 30جون 2004ء تک حدیبیہ پیپر ملز کے سالانہ آڈٹ اکاؤنٹس کی تصدیق شدہ کاپیاں صفحہ نمبر97تا103، 30جون2005ء تک حدیبیہ پیپر ملز کے سالانہ آڈٹ اکاؤنٹس کی تصدیق شدہ کاپیاں صفحہ نمبر104تا110 ، گواہ مسز سدرہ منصور اپنے ساتھ اصل ریکارڈ بھی لائی تھیں۔ 494960000روپے کاایک کثیر المدتی قرض لیا گیا جس کا سٹیٹس 30جون 2000ء سے 30جون 2005ء تک تبدیل نہیںہوا۔انویسٹی گیشن افسر نے گواہ کا بیان بھی ریکارڈ کیا۔ استغاثہ کے گواہ نمبر دو محمد رشید ولد کورٹ کلرک ،آر ڈگنام اینڈ کمپنی ،میرنا ہائیٹس،109،سیکنڈ فلور،ایسٹ جناح ایونیو ،بلیو ایریا اسلام آباد،کے مطابق ایک مراسلہ بتاریخ 5ستمبر 2017ئبنام مسٹر ظہیرریاض ،سینئر پارٹنر آر اینڈ ڈگنام کمپنی کو نیب لاہور کی طرف سے موصول ہواجس میں کچھ دستاویزات مانگی گئی تھیں،وہ دستاویزات کے ساتھ مورخہ 6ستمبر 2017ء کو نیب لاہور میںپیش ہوئے ۔نیب لاہور کے انویسٹی گیشن افسر محمد عمران ڈوگر نے ان سے ملاقات کی۔انہوںنے ایک لفافے میںبند دستاویزات انویسٹی گیشن افسر کے حوالے کئے جن میں ایک کورنگ لیٹر،کوئین بینچ کے آرڈر کی فوٹوکاپیاں،مظہر خان بنگش کے بیان حلفی کی فوٹو کاپیاں موجود تھیں جنہیں انویسٹی گیشن افسر نے گواہ کے دستخط اور انگوٹھوں کے نشانات لینے کے ساتھ سیز کردیا۔ استغاثہ کے تیسرے گواہ مظہر خان بنگش ایڈوکیٹ، ہاؤس نمبر 68،ناظم الدین روڈ ایف ایٹ فور اسلام آبادکے بیان کے مطابق وہ مورخہ30 اگست 2017کو نیب لاہور کے انویسٹی گیشن افسر کے سامنے پیش ہوئے ۔انہوں نے کوئین آرڈر بینچ 1999کی کاپی ،شیزی نقوی کے بیان حلفی کی فوٹو کاپی اور آر ڈگنام اینڈ کمپنی کی ملازمت کا بیان حلفی پیش کیا۔استغاثہ کے چوتھے گواہ نیب پولیس سٹیشن لاہور کے سب انسپکٹرمختار احمد کو نیب کے انویسٹی گیشن افسر عمران افضل نے کال کر کے کیس نمبر 20.2017 شمیم فارمز ،رائے ونڈ روڈ ،جاتی عمرہ ،لاہور کے معاملے میںکال اپ نوٹس بنام میاںمحمد نواز شریف، بی بی مریم ، حسن نواز ،حسین نواز بھیجا اور میںجاتی عمرہ کے سکیورٹی افسرعطاء اﷲ کو ملاا ور تین کال اپ نوٹس اس کے حوالے کئے جبکہ حسن نواز اور حسین نواز کے دو کال اپ نوٹس یہ کہہ کر واپس کر دیئے گئے کہ ملزمان ملک سے باہر4 رہتے ہیں۔جس پر استغاثہ کے کونسل نے اعتراض بھی اٹھا یا تھا۔انویسٹی گیشن افسر نے مختار احمد کا بیان بھی ریکارڈ کیا۔استغاثہ کے گواہ نمبر 5محمد عدیل مختار کے مطابق حدیبیہ پیپر ملز کے اکاؤنٹس کے کیس میں انہوں نے 23اگست 2017کو تفتیش شروع کی اور مسز سدرہ منصور جوائنٹ رجسٹرار آف کمپنی نے حدیبیہ پیپر ملز کی تصدیق شدہ کاپیاں ان کو پیش کیں اور ان کا بیان مورخہ 23اگست 2017کو ریکارڈ کیا گیا۔6ستمبر 2017 کو کورٹ کلرک محمد رشید کا بیان بھی انہوںنے ریکارڈ کیا اورانہوں نے دستاویزات کو ان کے دستخط اور انگوٹھوں کے نشانات لیتے ہوئے سیز کیا۔استغاثہ کے چھٹے گواہ شکیل انجم ناگرہ ،ایڈیشنل ڈائریکٹرکوآرڈینیشن آپریشنز ڈویژن نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کے مطابق نیب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن کی رجسٹرار سپریم کورٹ کے نا م ایک درخواست میںجے آئیٹی کے والیم نمبر ایک تا 9کے حوالے سے درخواست کی گئی۔15اگست 2017 کو والیم 10کی مصدقہ نقل مہیا کرنے کیلئے ایک اور درخواست لکھی گئی ۔ 17اگست 2017کو سپریم کورٹ کے اسسٹنٹرجسٹرار محمد مجاہد نے جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم ایک تا 9کے تین جبکہ والیم 10کے 4 مصدقہ سیٹس فراہم کئے ، انہوںنے اسی روز والیم ایک تا 10 کی مصدقہ نقل کا ایک سیٹنیب لاہور کے حوالے کیا ۔ 25اگست 2017 کو وہ نیب کے تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوئے اور بیان ریکارڈکرایا۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب لاہور زوار منظور نے بیان ریکارڈ کرایا کہ 23اگست 2017 کو انہوںنے ملزم میاںنوازشریف کیخلاف تحقیقاتی افسر محمد عمران کے ساتھ تحقیقات شروع کی ۔جوائنٹرجسٹرار آف کمپنیزسدرہ منصور نے 2صفحات کے کورنگ لیٹر اورمختلف سالوںکے 46آڈٹ صفحات پیش کئے جنہیںتفتیشی افسر نے ان کی موجودگی میںسیز کر دیا ۔استغاثہ کے آٹھویں گواہ عمر دراز ،سب انسپکٹر ،نیب پولیس سٹیشن لاہورکا بیان16اگست 2017 کو ریکارڈ کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ وہ کال اپ نوٹس دینے کیلئے لاہور ماڈل ٹاؤن میں طارق شفیع کے گھر گئے ۔وہاں ان کی ملاقات سکیورٹی گارڈ عبدالطیف سے ہوئی جس نے بتایا کہ طارق شفیع مورخہ 20جولائی 2017ء سے خاندان سمیت بیرون ملک جا چکے ہیں۔سکیورٹی گارڈ لطیف نے نوٹس وصول کرنے سے انکار کردیا۔اسی روز وہ گلبرک میں واقع موسیٰ غنی کے گھر گئے جہاں ہیڈ کانسٹیبل عامر سے ان کی ملاقات ہوئی جس نے انہیں بتایا کہ وہ انچارج پولیس گارڈ کے طور پر وہ 2013سے وہاں تعینات ہیں اور یہ رہائش سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہے اور یہاں پر موسیٰغنی نام کا کوئی شخص نہیں رہتا۔وکیل دفاع نے اس حصے پر اعتراض لگا یا کا یہ افواہ ہے اور ثبوت میں یہ حصہ قابل قبول نہیں۔کریمنل پینل کورٹ میں انویسٹی گیشن آفیسر نے اسی دن انکا بیان ریکارڈ کر دیا تھا۔ 6ستمبر 2017ء کو پیش ہونے سے پہلے انویسٹی گیشن آفیسر محمد عمران نے ملزم میاں محمد نواز شریف سے تفتیش کی تو کلرک محمد رشید پیش ہوئے اور اس نے عدالت کے کورنگ لیٹر کے ساتھ کچھ کاغذات پیش کئے ، اورمظہر رضا خان بنگش کے حلفنامہ سمیت 6صفحات کا جائزہ لیا۔ تمام دستاویزات کو قبضے میں لے لیا گیا اس پر ان کے بطور گواہ دستخط موجود تھے ۔استغاثہ کے نویں گواہ محمد عبدالواحد خان ڈائریکٹر جنرل الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلکیشن کو 5 جنوری 2018ء کو نیب کے دو افسران محمد عمران اور محمد نذیر کے ہمراہ تمام دستاویزات کے ساتھ پیش ہوئے جو ان سے مانگی گئی تھیں، ان میں تمام چیزوں کو ظاہر کیا گیا، انہوں نے 26دسمبر 2017ء کے خط کے تحت حسن نواز کے ایکسپریس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو کی سی ڈی بھیجی۔سابقہ استغاثہ گواہ کے مطابق گواہ نے منشی سے عملدرآمد کرایا اور نہ ہی کا غذات دیئے گئے پتہ پر پہنچائے ۔28دسمبر 2017ء کے مطابق کل تک پروگرام کے انٹرویو کی سی ڈی دستخط کیساتھ وصول کی۔ 30دسمبر 2017ء کے خط کے تحت محمد نواز شریف کے قوم سے خطاب کی دوسی ڈیز اور دوٹرانسکرپشن نیب لاہور کو بھیجی گئیں۔28دسمبر 2017ء کو ڈائریکٹر عاصم کھچی نے جیو اور پی ٹی وی کو ویڈیو کلپس اورٹرانسکرپشن کیلئے یاددہانی کیلئے دوبارہ خط لکھے ۔(وکیل دفاع نے اعتراض لگایا کہ گواہ نے منشی سے عملدرآمد کرایا اور نہ ہی کا غذات دیئے گئے پتہ پر پہنچائے ، اس لئے یہ گواہی کیلئے ناقابل قبول ہے )27دسمبر 2017ء کو ڈائریکٹر محمد عاصم کھچی کی طرف سے بی بی سی کے بیورو ہارون الرشید کو بھیجنے کیلئے ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ کو خط لکھا گیا۔( اعتراض لگایا ہے کہ گواہ نے منشی سے عملدرآمد کرایا اور نہ ہی کا غذات دیئے گئے پتہ پر پہنچائے ، اس لئے یہ گواہی کیلئے ناقابل قبول ہے )استغاثہ کے گواہ 7کے مطابق نواز شریف کے قوم سے خطاب کی ٹرانسکرپشن چار صفحات پر مشتمل ہے ۔استغاثہ کے گواہ 8 کے مطابق محمد نواز شریف کی قومی اسمبلی سے خطاب کی ٹرانسکرپشن کے دوران (اعتراض لگایا گیا کہ محمد نواز شریف کے قومی اسمبلی میں خطاب کو پاکستان کے آرٹیکل 66 کے تحت بطور ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا)۔ وہ ٹرائل کے دوران اس عدالت میں پیش ہونا والا ملزم ہے )۔ (فاضل پراسیکیوٹر نے اس بات پر زور دیا کہ حسین نواز شریف مفرور ملزم ہے اور اور وکیل صفائی کی طرف سے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا) X۔اوپر ذکر کئے گئے پروگرام کل تک کی سی ڈی Ex۔PW-9/10 ہے ۔جبکہ قوم سے کئے گئے خطاب کی سی ڈی Ex۔PW-9/11 ہے ۔ اسی طرح قومی اسمبلی سے خطاب کی سی ڈیEx۔PW-9/12ہے (اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 66کے تحت اس سی ڈی کو بطور ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا)۔ (فاضل پراسیکیوٹر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ قوم سے خطاب تھا اور اس آرٹیکل کا اس بات نفاذ نہیں ہوتا) ۔ اس اعتراض کو مسترد کر دیا گیا جس کی وجہ یہاں بحث میں دی گئی ہے ۔ تمام متذکرہ مواد تفتیشی افسر(آئی او) ڈپٹی ڈائریکٹر نیب لاہور محمد عمران نے محمد نذیر سلطان کی موجودگی میں قبضے میں لیا اور انہوں نے ایک ضبطی میمو پر دستخط بھی کئے ۔ ان کے دستخظEx۔PW-9/13 (سپلٹری ریفرنس کا صفحہ20) ہیں۔ آئی اونے اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا۔ استغاثہ کا گواہ نمبر10۔ تب وزارت اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ زیروپوائنٹ اسلام آباد سید مبشر توقیر شاہ نے بیان ریکارڈ کرایا کہ 5-01-2018کو وہ ایون فیلڈ سے متعلق تحقیقات میں شریک ہوئے ۔ تفتیشی افسر ان کے دفتر میں آئے اور درج ذیل چیزیں پیش کیں۔ i۔وصولی کا تصدیقی خط جو آئی او کے نام پر Ex۔PW-10/1 (صفحہ60)ہے ۔ ii۔نیب کا خط جو Ex۔PW-10/2ہے ۔ iii۔حسن نواز کی بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں ٹم سبسٹین سے کی گئی گفتگو کی سی ڈی جو Ex۔PW-10/4 جبکہ اسی انٹرویو کا متن جو Ex۔PW-10/5ہے (صفحہ63سے صفحہ74تک )۔ متذکرہ بالا دستاویزات اور چیزوں کے حوالے سے مذکورہ آئی او نے ایک ضبطی میمو تیار کیا جس پر اس نے دستخط کئے ۔ استغاثہ کا گواہ نمبر11۔ تب جیو نیوز بلیو ایریا اسلام آباد آفس کے سینئر کوآرڈینیٹر وقاص احمد نے بتایا کہ 8جنوری2018کو نیب کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں دو پروگراموں کیپیٹل ٹاک اور لیکن کے حوالے سے معلومات مانگی گئیں۔10جنوری2018کو وہ تفتیش میں شامل ہوئے اور DVDپر ان دونوں پروگراموں کے تصدیق شدہ ٹرانسکرپٹ آئی او کو دیئے ۔اس کے ساتھ ایک کورنگ خط بھی دیا گیا جس کے بعد ایک ضبطی میمو تیار کیا گیا جس پر اس نے گواہ کی موجودگی میں دستخط کئے جو Ex۔PW-11/2(صفحہ76)ہے ۔ کیپیٹل ٹاک کا متن13صفحات پر مشتمل ہے ۔جوEx۔PW-11/3(صفحات77سے 89تک )ہے ۔اسی طرح پروگرام لیکن کا متن دو صفحات پر مشتمل ہے جوEx۔PW-11/4(صفحات90اور91 تک )ہے ۔ جبکہ دونوں پروگراموں کی ڈی وی ڈی Ex۔PW-11/5ہے ۔ آئی او نے اس کا بیان ریکارڈ کیا۔ استغاثہ کا گواہ نمبر12۔ نیب لاہور کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر زوار منظور جنہوں نے پہلے عبوری ریفرنس میں بھی بیان دیا اور اس کے بعد سپلمنٹری ریفرنس میں بتایا کہ 10جنوری 2018کو وہ شامل تفتیش ہوئے اور ان کی موجودگی میں جیو نیوز کے سینئر کوآرڈینیٹروقاص احمد پیش ہوئے اور ریکارڈ جمع کیا۔یہ ریکارڈ ضبطی میمو کے ذریعے قبضے میں لیا گیا جس پر انہوں نے بطور گواہ دستخط کئے ۔ اسی روز آئی او نے ان کا بیان بھی لیا۔ استغاثہ کا گواہ نمبر13۔ڈپٹی ڈائریکٹر نیب لاہور محمد سلطان نذیر نے بتایا کہ 5جنوری2018کو ڈائریکٹوریٹ الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکیشن کے ڈی جی عبدالواحد خان نے خطوط، متن اور تین سی ڈیز پیش کیں جو آئی او نے اپنی تحویل میں لے لیں۔ اسی طرح اسی تاریخ کو سید مبشر توقیر شاہ کی طرف سے دیئے گئے تین خطوط، 12صفحات پر مشتمل متن اور ایک سی ڈی آئی او نے اپنی تحویل میں لیں جس کے ضبطی میمو پر اس نے بطور گواہ دستخط کئے ۔ آئی او نے اس کا بیان بھی ریکارڈ کیا۔ استغاثہ کا گواہ نمبر14۔ رابرٹ ولیم ریڈلے جو فورنزک ہینڈ رائیٹنگ ایگزامینیشن کا ماہر ہے اور ریڈلے فورنزک لیبارٹری کا پرنسپل ہے نے بیان دیتے ہوئے بتایا کہ وہ 1976سے کام کر رہا ہے ۔ اس کی خدمات کوئسٹ وکلا نے لے رکھی ہیں۔ سب سے پہلے اس سے 29جون2017کو رابطہ کیا گیا اور باضابطہ طور پر اس کی خدمات30جون2017کو لے گئیں۔ اس نے کوئسٹ وکلا سے دو ٹرسٹ ڈکلرینشنز کی کاپیاں وصول کیں۔ اس نے ان کاپیوں کو دستاویزات کے ساتھ موازنے کیلئے وصول کیا اور یہ بھی دیکھنا تھا کہ جرمی فری مین کے دستخطوں کے ساتھ موجود اس دستاویز میں بظاہر تاریخ کی تبدیلی کی گئی ہے ۔ اس نے ان کا تجزیہ کرنے کے بعد4جولائی2017کو رپورٹ تیار کی۔جس کی کاپی صفحہ نمبر93سے 121پر موجود ہے ۔(گواہ نے اپنے دستخطوں کی بھی تصدیق کی۔) متذکرہ دونوں ڈکلریشن کے حوالے سے ان کے تجزیئے کے مطابق دونوں ڈکلریشن کا دوسرا اور تیسرا صفحہ ایک جیسا ہے ۔ نتیجے کے طور پر ان صفحات کا ایک سیٹ دوسرے کی کاپی تھا اور مجموعی طور پر دونوں ایک اور ڈاکومنٹ کی کاپی تھے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ڈاکومنٹ علیحدہ علیحدہ نہیں بنے تھے ۔دوسرے اور تیسرے صفحات دوبارہ بنائے گئے ۔ ان کاپیوں سے یہ نہیں پتا چلتا تھا کہ کونسی کاپی اصل دستاویز کی درست کاپی ہے اور کون سی کاپی وہ ہے جس کے دو صفحات تبدیل کئے گئے ۔ دوسرے اور تیسرے صفحات پر وکیل کے دستخط کے ساتھ موجود تاریخ میں درج سال کا آخری ہندسہ تبدیل کیا گیا۔ دراصل6کو 4سے بدلا گیا ، اس طرح2006کو2004کیا گیاہے ۔ دونوں ڈاکومنٹس کے صفحہ2اور3میں ایسی ہی تبدیلی کی گئی ہے ۔ نوٹری پبلک مائیکل لنڈسے نے اس کی تصدیق کی تھی۔ یہ دونوں ڈاکومنٹ ٹرسٹ نیسکول اور نیلسن کے تھے ۔ دوسرے ڈکلریشن کو کومبر ڈکلریشن قرار دیا گیا۔ان ڈاکومنٹس کو ایک سبز کارنر پیس کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔گواہ نے ویڈیو لنک پر دکھائی گئی ان دستاویزات کی تصدیق کی۔ گواہ کے مطابق کومبر کے ڈکلریشن میں2 سٹیپل پنوں کے سوراخ جبکہ نیسکول اور نیسلن کے ڈکلریشن میں چار سیٹ سٹیپل پنوں کے سوراخ ہیں۔(اگر عدالت چاہے تو ان ڈاکومنٹس کو کھول سکتی ہے )۔ اس رپورٹ کے صفحہ5اور 6تبدیل کئے گئے ۔ گواہ کے مطابق اس دستاویز میں اچھی کوالٹی کے رنگین صفحات ہیں۔ گواہ کے مطابق یہ ڈاکومنٹس کیلبری فونٹ میں ٹائپ کئے گئے ۔ یہ فونٹ ونڈوز کے وسٹا پروگرام کیلئے بنایا گیا تھا۔یہ فونٹ31جنوری2006سے قبل کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں تھا۔ گواہ کے مطابق اس کی رائے میں یہ ڈاکومنٹس31جولائی2007کے بعد ہی تیار کئے گئے ۔ اس گواہ کا بیان15دسمبر2017کو ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے مطابق جے آئی ٹی نے اس کے ساتھ 12مئی2017کو رابطہ کیا۔ اس کے مطابق ان ڈاکومنٹس میں بہت زیادہ تبدیلیاں اور ے ضابطگیاں پائی گئیں۔ اسکے خط کے ساتھ جیرمی فری مین کا خط منسلک تھا اور اس کے ساتھ دو بیان حلفی کی کاپیاں لف تھیں۔ (پہلی ضمنی میں 5 جنوری 2017 کا خط شامل تھا جو کہ پہلے ہی Ex۔PW-15:1 کے طور پر پیش کر دیا گیا تھا۔ (اس حوالے سے مطلوبہ وجوہات یہاں ملاحظہ کر دی گئیں ہیں) صفحہ نمبر 106 سے 111 تک کے صفحات پر جو دستاویزات بتائے گئے ہیں ان تمام دستاویزات کی نقول اس نے ذمنیوں کے ساتھ منسلک کر دی ہیں جبکہ خط حوالہ نمبر Ex۔PW-15:1 بذریعہ ای میل بھیجا گیا تھا۔ انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا اور اس نے اگلے ہی دن دستی چیزر کو بھیج دیا۔ اس چیزر کے پاس 27 جون 2017 کو بھیجی گئی ای میل کی مکمل نقل موجود تھی۔ اگلے دن 29 جون 2017 کو فری مین باکس کے ذریعے جیرمی فری مین کا جواب بذریعہ ای میل موصول ہوا۔ اس خط میں فری مین کا کہنا تھا کہ حسین نواز شریف مکمل دستاویزات کے ساتھ انکے دفتر آئے ۔ وہ تمام دستاویزات بالکل انہی دستاویزات بشمول ٹرسٹ ڈکلیریشن کے ساتھ کے تھے جو 26 جون 2017 کو بھیجے گئے خط کے ساتھ منسلک تھے ۔والیم 4 کے صفحہ نمبر 89 بحوالہ Ex۔PW-15:2، اس خط میں جیرمی فری مین نے حسین نواز شریف اور اور وقار کے بطور گواہان دستخطوں کی تصدیق کی۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ 05 جنوری 2017 کو لکھے گئے خط کا متن بالکل درست تھا۔ اسی دوران 29 جون 2017 کو اس نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی ہدایات پر رابرٹ ریڈلے تک رسائی حاصل کیاس نے ہی ریڈلے کا نام جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم کو تفویض کیا۔ اس نے ایک ماہر کے طور پر بطور گواہ اسے تحقیقات کے عمل میں شامل کیا۔ یہ تمام عمل اگلے دن 30 جون 2017 تک جاری رہا۔ اس نے ریڈلے کو نیلسن اینڈ نیسکول اور کوومبر ٹرسٹ ڈکلیئریشن کی کاپیاں فراہم کیں۔ اس نے جے آئی آٹی کی ہدایت سے متعلق ریڈلے کو آگاہ کیا۔ اس نے 04 جولائی 2017 کو جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کو رپورٹ کی نقل فراہم کی۔ 05 جولائی 2017 کو اسے جے آئی ٹی کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ وہ مزید ڈکلیئریشنز کا ان کے ساتھ تبادلہ کر رہے ہیں۔ مزید ورژن 06 جولائی 2017 کو لندن پہنچا دیے گئے ۔ وہ دستاویزات ہیتھرو ایئرپورٹ سے براہ راست ریڈلے کی لیبارٹری منتقل کر دیے گئے ۔ ان دستاویزات کی مزید تحقیق اور جانچ پڑتال کے بعد ریڈلے نے 08 جولائی 2017 کو اپنی رپورٹ تیار کی۔ ان دونوں رپوٹوں کی دو کاپیوں کو ریڈلے کے دستخطوں کے بعد سیل کر دیا گیا۔ اس نے صفحہ نمبر 227 اور 235 کا بغور مشاہدہ کیا اور ان پر اپنے تاثرات قلمبند کیے جو کہ مارک PW-15/A کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں مزید دستاویزات کا حوالہ دیا۔ اس میں 1999ء میں حدیبیہ کیس میں شہاباز شریف اور ان کی فیملی کے دیگر دو افراد کے خلاف آنے والے فیصلے کا بھی حوالہ سیا گیا۔ مارچ کے مہینے میں آنے والے عدالتی فیصلے میں 20 ملین امریکی ڈالر کے معاملے پر تفصیلی فیصلہ دیا گیا۔ اس فیصلے کی نقول ریفرنس کے والیم 4 کے صفحہ نمبر 201 سے 226 تک کے صفحات پر موجود ہیں۔ جسے PW-15/B سے مارک کیا گیا ہے ۔ صفحہ نمبر 205سے 2011 تک ایک وکیل کی جانب سے تحریر لف کی گئی ہے جبکہ صفحہ نمبر 189 سے 191 تک کنسنٹ آرڈر کی تحریر ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔ اس کے تاثرات اور حقائق میں ڈان میں چھپنے والے آرٹیکلز کا حوالہ دیا گیا ہے جو کہ والیم کے صفحہ 236 سے 240 پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اور اسے کسی طور پر بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ نیب تحقیقات کا حصہ نہیں تھا ۔ یہاں عمران نے اپنے بیانات قلمبند کروائے ۔ PW-16 واجد ضیاء ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے امیگریشن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے احکامات پر 20 اپریل 2017 کو جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی تشکیل کی گئی۔ واجد ضیاء کو جے آئی ٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ ان کے ذمہ داری کا کیا ہو اس کی فروخت کا عمل کہاں ختم ہوا ۔وہ جدہ ، قطر اور یوکے کیسے پہنچی کیا جواب دہندہ نمبر سات اور آٹھ ( حسین نواز اور حسن نواز بالترتیب)نے ان کے عمر کے حساب سے نواے کی دہائی کے شروع میں فلیٹس خریدے ۔ کیا اچانک ظاہر ہونے والا حماد بن جازم کا خط تصوراتی تھا یا حقیقی ان کے شئیر کیسے فلیٹ میں تبدیل ہوئے ۔ نیلسن پرائیویٹ لیمیٹڈ اور نیسکول لیمیٹڈ کا کون حقیقی بینی فیشل مالک کون تھا ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کو کب قائم کیسے قائم ہوا۔ حسن نواز کی فلیگ شپ انویسٹمنٹ لیمیٹڈ اور دیگر کے قیام کے لئے رقم کہاں سے آئی اور ان کمپنیوں کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا ۔ حسین نواز نے نواز شریف کو ملین رپوں کے تحائف کہاں سے دیئے ۔ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ عدالت حکم اپنے پیرا تین میں کہتا ہے کہ جے آئی ٹی کیس کی تحقیقات جاری رکھے اور شواہد جمع کرے کہ کہیں ظاہر ہوتا ہو کہ نواز شریف یا اس کے زیر کفالت کوئی فرد یا بے نامی دار کے زیر ملکیت اثاثے یا پھر اس نے خریدے ہوں لیکن وہ اس کی زرائع آمد ن سے مطابقت نہ رکھتے ہوں ۔اسی پیرا میں عدالت کی جانب سے دی گئی ایک اورہدایت کے مطابق کہا گیا ہے کہ نیب کے پاس پہلے سے ہی ایون فیلڈ فلیٹس سے متعلقہ کوئی شواہد ہوں تو اس کی تحقیق کی جائے ۔ جے آئی ٹی سے کہاگیا تھا کہ وہ اپنا کام ساٹھ دن میں پورا کرے ۔ سپریم کورٹ نے پانچ مئی 2017 کو اپنے حکم نامے میں جے آئی ٹی کی تشکیل کی ہدایت کی تھی اور اس کے ممبران نے شامل افراد میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گریڈ21 کے افسر عامر عزیز اور ایس ای سی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال رسو ل اور نیب کے گریڈ20 کے ڈائریکٹر عرفان نعیم منگی او رآئی ایس آئی کے برگیڈئیر نعمان سعید ، ایم آئی کے برگیڈیئر کامران خورشیداور واجد ضیاء جے آئی ٹی کے سربراہ کے طور پر شامل تھے ۔ عدالت نے مزید ہدایت دی تھی اور ان تمام اختیار ات کی تشریح کی تھی جو جے آئی ٹی کو تفویض کئے گئے تھے جن کا ذکر پیرا تین کی سیکشن ایک سے پیر تین کی سیکشن نو تک ہے اس نے پانچ مئی 2017 کے حکم کی تصدیق شدہ کاپی پیش کی ۔جے آئی ٹی نے اپنا کام 8مئی 2017 کو شروع کیا اور دس والیم پر مشتمل اپنی حتمی رپورٹ پیش کی تاہم دو والیم آٹھ اور نو کے دو پارٹ تھے ۔ جے آئی ٹی نے ان تمام دستاویزات کو حاصل کیا جو کہ پٹیشنرز نے آئینی پٹیشن 29 اور دیگر کے تحت جمع کئے تھے ۔ ا س پٹیشن کے جوابدہندگان کی طرف سے بیان اور دستاویزات جمع کرائے گئے جن کا عدالت نے حکم دیا تھا اور ان کا مشاہدہ کیا گیا ۔ جے آئی ٹی نے مختلف اداروں جن میں ایس ای سی پی ، بینک ، ایف آئی اے ، نیب اور دیگر شامل ہیں سے بھی مواد جمع کیا ۔ جے آئی ٹی کو اس بات کا احساس تھا کہ بہت ساری دستاویزات اور اثاثے بیرون ملک ہیں اس لئے اس نے درخواست کی کہ اسے این اے او کے سیکشن اکیس کے تحت اختیارات دیئے جائیں ۔ جے آئی ٹی نے باہمی قانونی معاونت (ایم ایل ایز )کی ابتداء کی ، برطانیہ برٹش ورجن آئیر لینڈ ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کو خطوط لکھے گئے اس کے علاوہ جے آئی ٹی نے ایسے افراد جو کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے کیس سے متعلقہ حقائق سے واقفیت رکھتے تھے کے شواہد پر مبنی بیانات ریکارڈ کروانا شروع کئے ۔ انہوں نے عدالتی حکم نامے کی مصدقہ کاپی پیش کی جسے شہادت 16/1(ملزم نے اس پر اعتراض اٹھایا کہ یہ حکم نامہ عدالتی ریکارڈ پر دستیاب ہے اور نہ ہی ان کو زیردفعہ265-C ,سی آر پی سی کے تحت اس کی کاپی فراہم کی گئی )سپریم کورٹ نے اپنے 5مئی 2017کے فیصلے میں ایک جے آئی ٹی تشکیل دی جس میں سٹیٹ بنک کے گریڈ 21 کے افسر عامر عزیز،ایس ای سی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال رسول،نیب کے منیجنگ ڈائریکٹر عرفان نعیم ، آئی ایس آئی کے بریگیڈیئرنعمان سعید ، ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئرکامران خورشیداور واجد ضیاء سربراہ جے آئی ٹی شامل ہیں، عدالت نے جے آئی ٹی کو اس کے فرائض کی انجام دہی کیلئے مختلف اختیارات تفویض کئے جو پیرا نمبر3(i)سے پیرا نمبر3(ix)ہیں، انہوں نے 5مئی 2017کے فیصلے کی مصدقہ کاپی پیش کی جوشہادت نمبر16/2ہے ،(ملزم نے اس پر اعتراض اٹھایا کہ یہ حکم نامہ عدالتی ریکارڈ پر دستیاب ہے اور نہ ہی ان کو زیردفعہ265-C ,سی آر پی سی کے تحت اس کی کاپی فراہم کی گئی )جے آئی ٹی نے 8مئی 2017کو اپنے کام کا آغاز کیااور10جلدوں پر مشتمل ایک حتمی رپورٹ جمع کرادی سوائے جلد نمبر8اورجلد نمبر9کے ،جے آئی ٹی نے آئینی درخواست نمبر29کے پٹیشنر کی طرف سے پیش کردہ تمام دستاویزات اکٹھی کرلیں،اس کے علاوہ مدعاعلیہ کے بیانات اور انکی پیش کردہ دستاویزات بھی اکٹھی کرلیں،عدالت نے ان دستاویزات کو ازخود ترتیب دیا اور ان کا جائزہ لیا دریں اثنا جے آئی ٹی نے مختلف اداروں (ایس ای سی پی،بنکس،ایف آئی اے ،نیب اور دیگر)سے مواداکٹھا کرنا شروع کیا، جے آئی ٹی کو اندازہ ہوا کہ بہت سی دستاویزات اور اثاثے بیرون ممالک میں موجودہیں جس کے باعث اس نے مواد اکٹھا کرنے کیلئے برطانیہ،برٹش ورژن آئی لینڈ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اور دیگرکو خطوط لکھے ، جے آئی ٹی نے میاں نوازشریف،شہباز شریف،طارق شفیع،حسین نواز،حسن نواز،مریم صفدر،کیپٹن (ر)صفدر سمیت ان تمام لوگوں سے جو اس کیس سے تعلق رکھتے تھے ان کے بیان ریکارڈ کرنا شروع کردیئے ۔ سال 2006میں حسین نواز اور قطری شہزادے حماد بن جاسم کے درمیان ہونے والی سیٹلمنٹ کے مطابق بیئرر شیئرز کی منتقلی کے بعد فلیٹس کے بینیفشل اونر حسین نواز ہیں۔بعد ازاں2006میںہی ایک ٹرسٹ ڈیڈ سائن کرنے کے بعد سے ملزمہ مریم صفدر ان فلیٹس کی بینیفشل اونر بن گئیں۔اس سلسلے میں منی ٹریل کیلئے کئی دستاویزات پیش کی گئیں جو گلف سٹیل مل اور قطری خاندان کے ساتھ پارٹنر شپ کے حوالے سے پہلے بھی پیش کی جا چکی تھیں ۔اس سلسلے میں طارق شفیع کا بیان حلفی بھی جمع کرایا گیا جس کی فوٹوکاپیاںبھی موجود ہیں۔ اورگلف سٹیل مل 1978اور1980میں اہلی سٹیل کوفروخت کی گئی،12ملین اماراتی درہم قطری شہزادے کے حوالے کر دئے اورجے آئی ٹی نے بیان حلفی کے تجزیے کے بعد والیم تھری کے صفحہ نمبر 5سے 21تک گلف سٹیل ملز کے حوالے سے تضاد بیان کیا ،طارق شفیع کے جے آئی ٹی کے سامنے بیان میں بھی تضاد پایا گیا اور یہ گواہ کی ذاتی رائے ہے ،سپریم کورٹ آف پاکستان نے جے آئی ٹی کو ہدایت کی کہ وہ یہ دیکھے کہ گلف سٹیل ملزکیسے بنی،پیرا نمبر7میں دیئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ یہ سیٹ اپ سوفیصد قرض ہے جبکہ پیرا نمبر 3کا حلف نامہ کے تحت بیان حلفی بتاتا ہے کہ اس کاحصہ دارمحمدحسین ہے جو برطانیہ کا شہری اور رہائش پذیر ہے اور کبھی بھی گلف سٹیل ملز کاحصہ نہیں رہا ۔طارق شفیع اوردیگر گواہ اس بات کی وضاحت میں ناکام رہے ،اور نہ ہی وہ یہ بتا سکے کہ ان کاگلف سٹیل ملز بنانے میں کیا کردار تھا، محمد حسین کوبنک قرض اور دیگردستاویزات پیش کرنے کا کہا گیا مگر وہ اس حوالے سے کوئی ریکارڈ پیش نہیں کرسکے ،انہوں نے شیئرز کی فروخت کی مصدقہ کاپیا ں پیش کیں جو فوٹو کاپیاں صفحہ 20سے 39پرلف ہیں،پٹیشن نمبر7531/2016اورشہادت نمبر16/7جس میں تین فریقین محمد شفیع ،اہلی اوربی سی سی آئی ہیں ،36ملین امارتی درہم مالیت کی کمپنی بی سی سی آئی کو21ملین کی ادائیگی کے بعد14ملین کی رہ گئی اوریہ واجبات مسٹر طارق شفیع کے ذمہ تھے جو یہ چلا رہے تھے جس کے اصل مالک محمد شریف تھے اور اس میں بی سی سی آئی کے پانی اور بجلی کی مد6ملین کے بقایاجات بھی شامل ہیں اور 1978میں طارق شفیع اور عبداﷲ اہلی کے درمیان شراکت داری کا معاہدہ طے پایا جس کے مطابق 25فیصد شیئرطارق شفیع اور 75فیصد مسٹراہلی کے تھے ،اس شراکت داری کی نقول پٹیشن نمبر7531/2016کی جلدکے صفحہ نمبر40سے 51پرلف ہیں اور یہی شہادت نمبر16/8ہے ،صفحہ نمبر52سے 58پر14اپریل 1980کا کیا گیا ایک اور معاہدہ بھی لف ہے جس پردونوں فریقین کے دستخط موجود ہیں،شہباز شریف اور عبداﷲ اہلی یہاں شہادت نمبر16/9ہیں، ان سے جب اس حوالے سے استفسارکیا گیا تو انہوں نے دستخط کے حوالے سے انکار کیا۔ 10مارچ1999 کوہونے والے کوئین بنچ کے فیصلے کی کاپی ،کانسٹیٹوشن پٹیشن 29.2016 ( 113والیوم10بھی لف ہے ) جبکہ والیوم فوربطورمارک استغاثہ کے گواہ 15/Bبھی صفحہ 201پردستیاب ہے )اوران کی تصدیق شدہ کاپی بھی فائل میں موجودہیں۔وزارت خارجہ کے ذریعے جے آئی ٹی اورشہزادہ حامدبن جاسم کے درمیان ہونے والی بات چیت اورمیری طرف سے سیکرٹری خارجہ امورکو لکھے گئے لیٹر کی فوٹوکاپی عارضی ریفرنس کے والیوم 5کے صفحہ 60پرموجودہے ۔میری طرف سے 12.5.2017 کوشیخ حامدبن جاسم کولکھ گئے دوسرے لیٹرکی فوٹوکاپی بھی دکھائی گئی تھی جو موجودہے ۔آفاق احمدڈائریکٹرایس ایس پی کے بیان کی فوٹوکاپی جوکہ ex۔pw-16/16(پیج 65والیوم 5)پرتھی بھی دکھائی گئی اورواپس کی گئی ۔میری طرف سے 16/5.2017کو خارجہ امورکے سیکرٹری کولکھ گئے خط کی فوٹوکاپی موجودہے ۔ایس ایس پی آفاق احمدکے آفس کوموصول لیٹرکو سربمہرکیاگیاتھا جوex۔pw-16/21 پیج 62 سیلڈلفافے کے ساتھ منسلک ہے ۔انہوں نے وہ لفافہ کھلی حالت میں پیش کیاجبکہ اس لفافے سے حاصل کئے گئے لیٹرکی فوٹوکاپی بھی پیش کی گئی ۔سربمہردستاویزات جوکہ کورنگ لیٹر کی تصدیقی کاپی کے ساتھ ہے کو جے آئی ٹی کے ایک ممبرکی موجودگی میں فرام کی گئی ۔سربمہردستاویز کی فوٹوکاپی ex۔pw16/24 پیج 85پرموجودہے ۔ 23.62017کوڈائریکٹرآفاق احمدکی جانب سے جے آئی ٹی کے چیئرمین کولکھاگیا لیٹربھی یہاں منسلک ہے جبکہ فیکس کی ترسیل کی ڈلیوری رپورٹ اورڈسپیچ کی گئی کوریئرکی رسید بھی موجودہے ۔22.6.2017کوشیخ حامدبن جاسم کوبھیجے گئے لیٹرکی فوٹوکاپی بھی موجودہے ۔22.6.2017کوہمارے آفس کوموجودفیکس رپورٹ کی فوٹوکاپی بھی ex۔pw-16/25 کے لیٹرکیساتھ منسلک ہے ۔22.6.2017کودستاویزکی ترسیل سے متعلق ڈی ایچ ایل کی رپورٹ کی فوٹوکاپی pw-16/B(page63 پرہی موجودہے ۔حامدبن جاسم کی جانب سے جے آئی ٹی کولکھے گئے لیٹرکی فوٹوکاپی بھی موجود ہے (اصلی دستاویزدیکھی گئی اورواپس کی گئی )۔دوہامیں پاکستانی سفیرشہزادکے ڈائریکٹر وزارت خارجہ کولکھے گئے لیٹرکی فوٹو کاپی موجودہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ حامدبن جاسم کولیٹرموصول ہواہے یہ بھی ساتھ منسلک ہے ۔28.6.2017کوسفیرشہزاداحمدکی جانب سے اسلام آبادمیں خارجہ امورکی وزارت کے سلمان شریف کولکھے گئے خط کاپی بھی موجودہے ۔26.6.2017کوحامدبن جاسم کی جانب سے جے آئی ٹی کولکھے گئے لیٹرکی کاپی دیگرلیٹرکے ہمراہ بھی منسلک ہے ۔ڈائریکٹراورایس ایس پی آفاق احمدکی جانب سے دوہامیں ہمارے سفارتخانے کی جانب سے موصول کئے گئے سربمہرلفافے کی بابت وزارت خارجہ کو لکھے گئے لیٹرجس میں جے آئی ٹی کے سربراہ کومخاطب کیاگیا ہے کی بھی فوٹوکاپی بھی موجودہے ۔4.7.2017کوجے آئی ٹی سربراہ کی جانب سے وزارت خارجہ کے ذریعے حامدبن جاسم کولکھے گئے لیٹرکی فوٹوکاپی بھی موجودہے ۔ حماد بن جاسم کے 6جولائی 2017کے مراسلہ جو کہ سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا جو عربی اور انگریزی دونوں میں لکھا گیا تھااور اس سے قبل موصول مراسلہ سے مختلف تھا۔ یہاں ایون فیلڈ پراپرٹیز کی اصل رجسٹریشن مہیا کی گئی تاہم جو دستاویز مہیا کی گئی وہ فوٹو کاپی کی تصدیق شدہ کاپی نکلی۔ملزمہ مریم صفدر اور ملزم حسین نواز کی کومبر کمپنی کی ٹرسٹ ڈیڈ بھی فوٹو کاپی کی تصدیق شدہ کاپی نکلی جو ناقابل قبول تصور کی گئی ۔ نیسکو ل اور نیلسن کمپنیوںکی ملزمہ مریم صفدر اور حسین نواز کے درمیان سائن کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی کی تصدیق شدہ کاپی جمع کراوائی گئی ۔سٹیفن مارلے سمتھ کی تجاویز کی بھی مصدقہ نقول جمع کرائی گئیں ۔جس پر یہ اعتراض لگایا گیا کہ گواہ کی طرف سے پیش کردہ کاپی بھی فوٹو کاپی کی مصدقہ کاپی ہے اور درست ثبوت کے بغیر کسی ایکسپرٹ کی رائے قابل قبول تصور نہیںہوگی ۔ ڈوئچے بینک کی پیش کردی مورٹگیج ڈیڈ کی کاپیاں بھی قانون شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیںتھی کو بھی ثبوت کے طور پر قبول نہیںکیا جا سکتا تھا۔فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کی دستاویزات بھی درست قانونی طریقہ سے تصدیق شدہ نہیں تھیں۔فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کی موزیک فونیسکا سے متعلقہ دستاویز بھی قابل قبول نہ نکلی۔ انہوں نے 22جون 2012کو فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کو مونسیک فونسیکااینڈکمپنی لمیٹڈکو فراہم کیے گئے نیلسن انٹرپرائززسے منسلک خط کی تصدیق شدہ کاپی فراہم کی جو صفحہ نمبر 38 پرہے ۔سی پی نمبر 292016pt-1۔انہوں نے سی ایم اے کی تصدیق شدہ کاپی نمبر3942017پیش کی جوپیٹیشن نمبر 292016میں ہے ۔فوٹوکاپی والیم سی ایم اے نمبر 394/17میں موجودہیں۔عدالت نے آبزرو کیاکہ فوٹوکاپی کاپہلاصفحہ سی ایم اے نمبراوردستخط کے بغیر تھاجبکہ گواہ کی جانب سے پیش کی گئی کاپی میں آخری صفحے پردستخط موجودہے ۔(پراسیکیوٹر کی جانب سے کہاگیاکہ آفس کاپی فراہم کردی گئی ہے )۔انہوں نے مینروافنانشل گروپ کوجنرل مینیجر سامبھافنانشل گروپ کے دستخط سے مورخہ 3دسمبر 2015کو لکھے گئے خط کی تصدیق شدہ فوٹوکاپی فراہم کی جوصفحہ نمبر18پرہے ہے ،والیم سی ایم اے نمبر 75112016۔انہوں نے شازی نقوی کے ایک حلف نامے کی تصدیق شدہ کاپی فراہم کی جوصفحہ نمبر75سے 77 پرہے ،والیم نمبر 4322017۔انہوں نے جرمی فریمین کابھی خط جمع کرایاجوصفحہ نمبر 106نمبر پرپہلے ہی موجودہے (سی ایم اے 43222017)۔ 31مارچ،مالی سال 2007 کااسٹیٹمنٹ صفحہ نمبر 261پر۔31مارچ ،مالی سال 2008 کااسٹیٹمنٹ صفحہ نمبر 278پر۔31مارچ ،مالی سال 2009 کااسٹیٹ مینٹ صفحہ نمبر 291پر۔31مارچ ،مالی سال 2010کااسٹیٹ مینٹ صفحہ نمبر305پرہے جوگواہ کی جانب سے ثبوت کے طور پرپیش کیے گئے ہیں (یہ ثبوت کے طورپر قابل قبول نہیں)۔پیش کردہ تصدیق شدہ کاپی برائے مالی سال اسٹیٹمنٹ برائے فلیگ شپ سیکیورٹیزلیمٹڈ،مورخہ31مارچ 2010،صفحہ 311 پرہے (جسے غیرضروری سمجھاجاتاہے )۔ اختتامی سال 31 مارچ 2010 کیلئے مالی گوشوارے (جاری)قوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹد ۔ یہ Ex۔pw-16/63( صفحہ 313) ( زیراعتراض کہ دستاویز فوٹو کاپی کی ایک تصدیق ہے جو کہ شہادت کیلئے قابل قبول نہیں ہے ۔گواہ نہ تو منشی اور نہ ہی دستاویزکا عینی شاہد ہے ۔دستاویز ناقابل قبول ہے چونکہ یہ کیس سے غیرمتعلق ہے ۔مالی گوشواروں(جاری) برائے اختتامی سال 31 مارچ 2011 کیو ہولڈنگز لمیٹڈ کے نوٹس کی تصدیق شدہ نقول۔یہ Ex۔pw-16/64( صفحہ 325 والیم ہفتم) (زیراعتراض کہ دستاویز فوٹو کاپی کی ایک تصدیق ہے جو کہ شہادت کیلئے قابل قبول نہیں ہے ۔گواہ نہ تو منشی اور نہ ہی دستاویزکا عینی شاہد ہے ۔دستاویز ناقابل قبول ہے چونکہ یہ کیس کے حوالے سے غیرمتعلق ہے ۔مالی گوشواروں(جاری) برائے اختتامی سال 31 مارچ 2012 قوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹدکے نوٹس کی تصدیق شدہ نقول۔یہ Ex۔pw-16/65(صفحہ 328 والیم ہفتم) (زیراعتراض کہ دستاویز فوٹو کاپی کی ایک تصدیق ہے جو کہ شہادت کیلئے قابل قبول نہیں ہے ۔گواہ نہ تو منشی اور نہ ہی دستاویزکا عینی شاہد ہے ۔دستاویزناقابل قبول ہے چونکہ یہ کیس کے حوالے سے غیرمتعلق ہے ۔مالی گوشواروں(جاری) برائے اختتامی سال 31 مارچ 2012 کیو ہولڈنگزلمیٹد کے نوٹس کی تصدیق شدہ نقول۔یہ Ex۔pw-16/66( صفحہ 339 والیم ہفتم) (زیراعتراض کہ دستاویز فوٹو کاپی کی ایک تصدیق ہے جو کہ شہادت کیلئے قابل قبول نہیں ہے ۔گواہ نہ تو منشی اور نہ ہی دستاویزکا عینی شاہد ہے ۔دستاویزناقابل قبول ہے چونکہ یہ کیس کے حوالے سے غیرمتعلق ہے ۔مالی گوشواروں(جاری) برائے اختتامی سال 31 مارچ 2012 فلیگ شپ سیکیورٹیزلمیٹد کے نوٹس کی تصدیق شدہ نقول۔یہ Ex۔pw-16/67( صفحہ 336 والیم ہفتم) (زیراعتراض کہ دستاویز فوٹو کاپی کی ایک تصدیق ہے جو کہ شہادت کیلئے قابل قبول نہیں ہے ۔گواہ نہ تو منشی اور نہ ہی دستاویزکا عینی شاہد ہے ۔دستاویزناقابل قبول ہے چونکہ یہ کیس کے حوالے سے غیرمتعلق ہے ۔چارٹ کی تصدیق شدہ نقل بہت سی چیزوں بشمول رقم اور فنڈز کے فلونیزکمپنی کے نفع نقصان بھی ظاہرکررہی ہے ۔Ex۔pw-16/68( صفحہ 400 والیم ہفتم کی تصدیق شدہ کاپی ( اوریجنل چارٹ دکھا کر واپس کر دیا گیا) (زیراعتراض کہ چارٹ باقاعدہ جے آئی ٹی کی جانب سے تیارکیا گیا جو کہ قانوناً درست نہیں چونکہ یہ تفتیشی رپورٹ کے حصے کے طور پرتشکیل دیا گیا اور یہ شہادت کیلئے قابل قبول نہیں)۔(گواہ نے جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم ہفتم میں اوریجنل چارٹ دکھایا جو کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرایا گیا۔گواہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ ملزم کیلئے اس کی اسی حجم میں نقل فراہم کرے )۔مراسلہ بتاریخ 28-06-2017 متحدہ عرب امارات ایم/ او جسٹس کی جانب سے وصول کیا گیا،جس کی تصدیق شدہ کاپی Ex۔pw-16/69( صفحہ 236اورصفحہ237 والیم سوئم) ہے ۔ (اصل ملاحظہ کر کے واپس ارسال کر دی گئی ہے )۔(زیراعتراض کہ ملزم کو265 سی آر پی سی کے تحت بطور والیم سوئم کی جو نقل فراہم کی گئیں اس کے صفحات ان کے والیم میں دستیاب نہیں ہیں جو کہ صفحہ 235 پرختم ہوتا ہے ۔اور اس کا مذکورہ والیم کے انڈیکس میں ذکرنہیں کیا گیا)۔جبکہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کی نقول صفحہ نمبر80 و 81 والیم سوئم میں دستیاب ہیں ۔جس کے جواب میں معزز وکیل مدعا علیہ نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔(مزید برآں اعتراض کہ مبینہ موصولہ مراسلہ جس کے جواب میں مراسلہ جاری کیا گیا ،اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے ،جس کی کاپی ملزم کو فراہم نہیں کی گئی)۔دستاویزNAO-1999کی دفعہ 21 کی شرائط پرپورا نہیں اترتی۔ مزید برآں یہQSO1984 کے تحت قابل قنول نہیں ہے ۔اس نے مذکورہ موصولہ مراسلے کی انیگژر فراہم کی ہیں ۔جس کی تصدیق شدہ نقول صفحہ نمبر 118 سے 121 پر موجود ہیں ۔یہEx۔pw-16/70ہے ۔( زیر اعتراض کہ کہ یہ گواہ مصنف اور نہ ہی خط کو تحریر کرنے والا ہے ۔ خط عربی میں ہے جس کا ترجمہ ریکارڈ پرموجود نہیں ہے ۔دستاویزNAO-1999کی دفعہ 21 کی شرائط اور QSO1984 کے مندرجات پرپورا نہیں اترتی۔ اس نے عربی اسکرپٹ میں اصل خط پیش کیا۔جبکہ اس خط کا انگلش ورژن Ex۔pw-16/70 پر پہلے ہی موجود ہے اور عربی ورژن کی تصدیق شدہ نقول Ex۔pw-16/71 صفحہ 78 تا 79 والیم سوئم میں موجود ہے )۔(زیر اعتراض کہ Ex۔pw-16/69 اورEx۔pw-16/71 کے جواب میں درخواست پر لیٹر کی نقل فراہم نہیں کی گئی )۔ اس نے ڈائریکٹرایف آئی اے کی جانب سے برٹش ورجن آئس لینڈ کی جانب سے جے آئی ٹی کے نام اصل لیٹر بتاریخ 12-06-2012 پیش کیا۔جس کی تصدیق شدہ کاپی Ex۔pw-16/72 صفحہ 52 والیم چہارم ہے )۔( زیر اعتراض کہ مذکورہ لیٹر کے جواب میں پیش کیاگیا لیٹر ریکارڈ میں موجود نہیں جبکہ اس کی کاپی بھی ملزم کو پیش نہیں کی گئی۔ مزید برآں لیٹرNAO-1999کی دفعہ 21 کی شرائط یا QSO1984 کی مندرجات پر بھی پورا نہیں اترتا۔(زیراعتراض کہ گواہ نہ تو منشی اور نہ ہی دستاویزکا عینی شاہد ہے مزیدبرآں خط NAO-1999کی دفعہ 21 کی شرائط اور QSO1984 کے مندرجات پرپورا نہیں اترتا۔اس نے موسیکا فونسیکا(نیلسن انٹر پرائزز پرائیویٹ لمیٹڈ) سے خط بتاریخ 22-06-2012 پیش کیا۔یہ Ex۔pw-16/75 ہے ۔(اصل ملاحظہ کر کے واپس کر دیا گیا)۔(زیراعتراض کہ گواہ نہ تو منشی اور نہ ہی دستاویزکا عینی شاہد ہے ۔ مزیدبرآں خط NAO-1999کی دفعہ 21 کی شرائط اورقانون شہادت آرڈیننس QSO1984 کے مندرجات پرپورا نہیں اترتا۔مذکورہ لیٹر کے جواب میں پیش کیاگیا لیٹرریکارڈ میں موجود نہیں جبکہ اس کی کاپی بھی ملزم کو پیش نہیں کی گئی۔اس نے کیپیٹل FZE کے ضمن میں اوریجنل سرٹیفکیٹ پیش کیا جس کی تصدیق شدہ کاپی صفحہ312 والیم ششم پر موجود ہے جو کہ Ex۔pw-16/76 ہے ۔( زیر اعتراض کہ یہ پبلک دستاویز نہیں ہے ۔مزید برآں یہ قانون شہادت آرڈیننس 1984 کے آرٹیکل 89 کی ذیلی شق 5 مطابق تصدیق شدہ بھی نہیں ہے اور یہ JIT یا کسی پاکستانی عدالت کے نام بھی نہیں ہے ،سرٹیفکیٹ NAO-1999کی دفعہ 21 کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔فارم9 JAAFZA کی کاپی اور ملازمت کا ریکارڈ مذکورہ سرٹیفکیٹ کے ساتھ منسلک ہے جو کہ صفحہ 316 ، 318 اور317 پر دستیاب ہے اور یہ Ex۔pw-16/77 ہے ۔( زیر اعتراض کی یہ سرٹیفکیٹ پبلک دستاویز نہیں ہے )۔ مزید یہ کہ گواہ نے نہ ان دستاویزات کا جائزہ لیا اور نہ ان پر عملدرآمد کیا۔نہ ہی ان دستاویزات کا اصل متن جسے ثبوت کے طور پر لیا گیا۔ نوٹس نمبر یو ایس 265 سی آف سی آر پی سی ملزم کو دیا گیا