ترجمہ:عظیم گوہر،مبصرمحمود،ملک شفاعت، رانا شہزاد،عرفان ریاض، زید سوڈھی، ساجد محمود ، مسعود خان، اسامہ طیب،محمد ثاقب،اسرائیل ایوبی ،سردار احسان، محمد عمر ہاشمی، فیصل جاوید، ذیشان جاوید، ملک سعید اعوان، عارف اسلام، حفیظ ہاشمی، اختر حسین ، محبوب احمد، کامران عثمان،شعیب صدیقی، محمد زبیر، غلام مصطفی، فرید جمالی (g)کسی مالیاتی واقعہ کے حوالے سے کسی بیرونی تفتیشی ادارے کومطلوبہ معلومات فراہم کرنااٹارنی جنرل کی رضامندی سے مشروط ہوتاہے ۔ 4۔(4)کوئی شخص ذیلی دفعہ(2)(d)کے تحت مطلوبہ معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے یاانکار کردے کامرتکب ہوتاہے تواسے 20ہزار ڈالر تک جرمانہ یادوسال قید یادونوں سزائیں دی جائیں گی۔ اس نے MLAکی معلومات جوکہFIABVIسے حاصل کردہ درخواست پر معلومات کے الفاظ پرمشتمل تھی کو قابل اعتماد قرادردیاکہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے بھیجی گئی تھی۔بیررشیئرسرٹیفکیٹس FIABVIبزنس کمپنی ایکٹ 2004 کے تحت اپنی افادیت کھوچکے ہیں ۔اس نے s69 کاحوالہ دیاجوکہ شہادت کیلئے پیش کیاگیا۔ 69بیررشیئرکااجرا اوررجسٹر ڈشیئر کی منتقلی۔۔ (1)جب ایک کمپنی بیررشیئریاٹریژری شیئرجاری کرتی ہے تو وبیر ر شیئرہو تے ہیں ۔یہ شیئر کسی دوسرے شخص کو یااس کے شیئر رکھنے کیلئے رضامندنگران کو بھی مہیا نہیں کئے جاسکتے ۔ (2)ایک کمپنی کسی دوسری کمپنی سے منتقل رجسٹرڈ بیرر شیئر کسی شخص کو مہیا نہیں کرے گی،اس نگران کو بھی مہیا نہیں کرے گی جو شیئر کو لینے کیلئے رضامند ہو۔ (3)کسی کے نگران کوبیررشیئرکی فراہمی کے حوالے سے اس تفریق کاکوئی قانون نہیں ہے کہ شیئر ہولڈر کمپنی مالک ہے ۔بیررشیئر کے تعلق کے حوالے سے نگران اصل حقدار کی جگہ پر ووٹ اوردیگر حقوق کااستعمال کرسکتاہے ۔ (4)جب ایک کمپنی ایک یادوغلطیاں کرتی ہے تو وہ ایک جرم کاارتکاب کرتی ہے جس کاجرمانہ50000 ڈالرہوگا۔ S 70 کے BVI کاروبار کمپنیز ایکٹ 2004کے تحت نگران بیرر شیئر مہیا کرنے کاپابندہوتاہے اسے روک یامعطل نہیں کر سکتا۔ اور یہ کمپنی کے اصل مالک کانام ظاہر کرنے کاپابند ہوتاہے ۔ایک رجسٹر ڈ شیئر اصل مالک کے نام پر ہی رکھاجاسکتاہے ۔اگر مالک اپنے شیئر فروخت کرتاہے تو نیامالک ان شیئر کواپنے نام اور ذاتی معلومات پر رجسٹر ڈکرے گا۔ FIABVIکے لیٹر کے مطابق ملزم مریم صفدر نیلسن اینڈ نیسکول کمپنیز کی بینیفیشل مالک ظاہر کی گئی ہے ۔ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ان دو آف شور کمپنیز کے نام پر ہی ہیں۔اس کی اصل حقیقت 2006میں سامنے آئی تھی جب برٹش ورژن آئس لینڈقوانین کو تبدیل کیاگیا۔اس حوالے سے پراسیکیوٹرنے اینٹی منی ریگولیشن 2008 اوراینٹی منی لانڈرنگ اورٹیررسٹ فنانس کوڈ 2008 کاحوالہ دیا۔میاں محمد شریف اور ان کی فیملی نے جائیداد کو کرائے اور دیگر معاملات میں استعمال کیا۔حماد بن جاسم حامی بھرنے کے باجود جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے ۔اور مختلف اوقات میں پاکستان کی کسی بھی عدالت میں وہ پیش ہونے سے قاصر رہے ۔مہیاکی گئی دستاویزات کے مطابق اپارٹمنٹسن نیلسن اورنیسکول کمپنی نے یکم جون 1993 کو خریدے تھے ۔ان اپارٹمنٹس کی مہیا کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ بھی جعلی نکلی۔ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری میں میں کیلبری فونٹ کااستعمال کیاگیاجس سے ثابت ہواکہ یہ ڈیڈ 2006 میں تیار نہیں کی گئیں ۔اس حوالے سے ماہر رابرٹ ریڈلے نے بتایاکہ کیلبری فونٹ جنوری 2017 سے پہلے زیر استعمال نہیں تھا۔اس مقدمہ میں پراسیکیوشن کی طرف سے مہیا کردہ دستاویزات کے مطابق اپارٹمنٹس 1993 سے ملزم کے قبضہ میں تھے اور مریم صفدر نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل مالک تھیں۔اس میں مزید بتایاگیاکہ میاں محمد نوازشریف ،مریم صفدر ،حسن نوازاور حسین نوازشریف اپنی آمدنی کے ذرائع بتانے میں بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔عدالت میں پراسیکیوٹر نے حسین نوازشریف کا جے آئی ٹی کو دیاگیا بیان بھی پڑھ کرسنایاکہ وہ اپارٹمنٹس میں 1993 سے رہائش پزیر ہیں اورہمارے خاندان نے دوسرے فلیٹس کاقبضہ 1995 اور 1996 میں حاصل کیاتھا۔پراسیکیوشن نے مزید بتایاکہ قطر کے ولی عہدکی طرف سے 2006 کی تاریخ میں مہیا کیاگیاخط مجوزہ کمپنیز میں سرمایہ کاری کے حوالے سے دستاویزی ثبوت ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ کمپنیاں پہلے سے ہی 1993 میں شریف فیملی کے زیر قبضہ تھیں ۔ حماد بن جاسم 24-5-2017 اور 22-6-2017 کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جے آئی ٹی نے کہا وہ دوحہ کا دورہ کر سکتے ہیں کہ تاکہ بیان ریکارڈ کر سکیں، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ نہ تو سفارتخانے میں بیان ریکارڈ کرائیں گے اور نہ ہی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونگے ۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو وہ عدالت میں بطور گواہ پیش ہو سکتے تھے ۔ ملزم نے ویڈیو لنک کے ذریعے ان کا بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست کی۔ جے آئی ٹی نے طارق شفیع کے بیان حلفی کا بھی جائزہ لیا تاہم اسے 1980 میں گلف سٹیل کے 25 فیصد شیئرز فروخت کرنے کے ثبوت نہیں ملے ۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے اپنی رپورٹ میں تصدیق کی کہ وہ کسی بھی ماہر کی جانب سے تصدیق یا تردید نہیں کر سکے ۔ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق حسین نواز کی موت کی صورت میں پراپرٹی کی اتھارٹی مریم نواز کے پاس ہو گی۔ تاہم دستاویزات میں ملزم نے کوئی دستاویز پیش نہیں کی۔ وکیل صفائی مسٹر خواجہ حارث سینئر ایڈووکیٹ نے ملزم نمبر ایک کی ذمہ داری پر اپنے دلائل دئیے : جے آئی ٹی کے اختیارات 5-5-2017 کے آرڈر میں کئے گئے ہیں۔ جے آئی ٹی کو کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898 اور نیشنل اکاؤنٹبلٹی آرڈیننس 1999 اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ 1975 کے تحت تمام اختیارات حاصل ہیں ۔ تحقیقات کا مطلب ہے کہ شواہد اکٹھے کئے جائیں ، وفاقی حکومت تحقیقات کیلئے اور اپنے اہلکاروں کیے اختیارات کیلئے جرم کی تحقیقات کرے ، جے آئی ٹی اپنی تحقیقات کرے گی۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کی ہر جلد پر تحریر کیا ہے کہ انویسٹی گیشن رپورٹ آف دی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم، پانامہ کیس۔ عدالت کا 28-7-2017 کو حتمی حکم کے مطابق نیب کو ہدایت دی گئی کہ وہ احتساب عدالت راولپنڈی میں کیس دائر کی تیاری کرے ۔ ریویو پٹیشن ملزم کی جانب سے دائر کی گئی۔ کسی بھی کیس میں ٹرائل کورٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شواہد کا جائزہ لے بشمول اس مواد کے جو جے آئی ٹی نے جمع کیا ہے بغیر کسی دباؤ کے ۔ وکیل صفائی نے متعلقہ اتھارٹی کو ریفرنس دئیے ۔ 1۔ 1993 ایس سی ایم آر 550 عنوان سید سعید محمد شاہ اور دیگر بنام سی سٹیٹ پیرا 10 درج ذیل ہے : سیکشن 173 سی آر پی سی اس باب میں انتہائی اہم ہے کیونکہ پولیس آفیسر کی جانب سے فائنل انویسٹی گیشن رپورٹ مجسٹریٹ کو بھیجی گئی۔ اس رپورٹ میں تمام پارٹیوں کے نام اور ان کی معلومات اور کیس کے متعلق اعدادوشمار تھے ۔ اس کیس کی مخالفت میں راجہ محمد افضل بنام چودھری محمد الطاف حسین اور دیگر کے کیس کا حوالہ دیا جا سکتا ہے ۔ 2۔ پی ایل ڈی 2018 سپریم کورٹ 178 عنوان صوبہ پنجاب بذریعہ سیکرٹری پنجاب پبلک پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ اور دیگر بنام محمد رفیق اور دیگر پیرا 13 درج ذیل ہے : کونسل نے بنیادی طور پر جے آئی ٹی کی رپورٹ پر انحصار کیا اور رپورٹ کے پیراگراف پڑھے لیکن یہ رپورٹ جے آئی ٹی ارکان کی آرا ہے اور اسے رپورٹ کے تحت ہی لیا جا سکتا ہے جبکہ یہ بطور شواہد قابل قبول نہیں ہے ۔ جیسا کہ اس عدالت نے سید سعید محمد شاہ کے کیس میں لکھا ہے ۔ ٹرائل کورٹ قابل قبول مواد کی حوصلہ افزائی کرے گی کیونکہ عدالت کو یہ مواد دیکھنا پڑے گا اور وہ کسی پولیس آفیسر کی یا اعلیٰ عہدے کے حامل انسپکٹر جنرل آف پولیس کی رائے کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ پولیس آفیسرز ، حتی کہ آئی جی پولیس۔ 3۔ P L D 2011 Supreme Court 350 بعنوان محمد ارشد اور ووٹرز بنام ریاست و دیگر پیرا35یہاں دوبارہ لکھا جا رہا ہے ۔ ’’ عدالت محسوس کرتی ہے کہ شاید وقت آ گیا ہے کہ جب ہمیں خود کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ پولیس کا تفتیش کے عمل اور شواہد جو کسی مقدمہ میں ریکارڈ کئے جا سکتے ہیں، کی قبولیت اور مطابقت کو ریگولیٹ کرنے والے قوانین میں کیا قانونی کردار ہوتا ہے ۔‘‘ 4۔ M L D 2003 Karachiآصف جمیل و دیگر بنام ریا ست ’’مزید نشاندہی کی جاتی ہے کہ بہت سے دیگر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ جج عینی شاہدین کے بیانانت کے حوالے سے پولیس افسر یا تفتیشی افسر کے بیان ریکارڈ کرتے ہوئے یہ حقیقت نظرانداز کر جاتے ہیں کہ سیکشن 161 کے تحت استغاثہ یہ بیان کسی مقصد کیلئے استعمال نہیں کرسکتا۔ وکیل صفائی اسے گواہ کے بیان کے استرداد کیلئے استعمال کر سکتا ہے ۔ جیسا کہ دوران تفتیش تفتیشی افسر کو دئے گئے PWsکے بیانات کو شواہد میں ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ شواہد میں قابل قبول نہیں۔اسلئے استغاثہ کو بھی انہیں پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ ہی ججوں کو ریکارڈ کرنے یا ریکارڈ پر لانے کی ۔ ‘‘ 5- P Cr L J 1198 Lahore 199مقبول احمد بنام ایس ایچ او تھانہ چھانگا مانگا و دیگر 6۔ 1991 M L D 2005 Lahore منور احمد بنام ریاست 7۔2007 M L D 372 karachi عطاء اﷲ عرف قاسم و دیگر بنام ریاست 8۔1991 P Cr L J 62حاجی محمد جاوید بنام ریاست و دو دیگران 9۔1998 P Cr L J 56 Lahoreمسعود بیگم بنام محمد معروف و دو دیگران۔ 10۔ P L D 1958 Lahore 300درغاہی و دیگران بنام ریاست ۔ پیرا 22ایف اور 23ایف کا حوالہ دیا جا رہا ہے ۔ پیرا 22۔۔۔ عدالت نے معزز سیشن جج کے فیصلے کو بڑی احتیاط سے پڑھا اوریہ بے سود کوشش کی کہ کیا اس فیصلے کو مندرجہ بالا رولنگ میں وضع کئے گئے اصولوں پر عمدرآمد کی ضرورت ہے ۔مدعا علیہ کی بریت کا حکم متعلقہ نکات کے کسی عدالتی تعین کی بنا پر نہیں دیا گیا۔ معزز سیشن جج نے اس معاملے میں خود کو بے بس محسوس کیا۔ یہ قابل افسوس امر ہے کہ معزز جج تفتیشی افسر کی رائے سے متاثر ہوگئے جو کہ ہمارے خیال میں غیرمتعلقہ تھی اور کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں تھی۔ معزز جج کو سمجھنا چاہئے تھا کہ تفتیشی افسر کی رائے کوئی قانونی ثبوت نہیں تھا اور کوئی بھی عدالت اس کو تفتیش کی بنیاد نہیں بنا سکتی۔ اس کیس میں معزز جج کی طرف سے تفتیشی افسر کو پبلک پراسیکیوٹر کا کردار ادا کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ بظاہر اس کیس میں قانون شہادت کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ پیرا23۔۔۔۔عدالت کی خواہش ہے کہ اس بات پر زور دیا جائے کہ ہمارے جوڈیشسل افسرا ن اپنے جوڈیشل ضمیر کو تفتیشی افسران کی رائے سے متاثر نہ ہونے دیں۔کسی ملزم کے بے گناہ ہونے یا گناہگار ہونے کا فیصلہ مروجہ قوانین کے مطابق کیا جانا چاہئے ۔ کسی بھی کیس میں فیصلے کیلئے تفتیشی افسران کی رائے پر انحصارشدید نقصان دہ ہوگا اور ایسا کرنا اپنے آپ کو پولیس افسران کے ہاتھوں آلہ کار بننے کے مترادف ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ عدلیہ نے انصاف کے سرچشمہ کو صاف اور شفاف رکھنے کا عہد کیا ہے ۔ 11۔P L D 200 Lahore 2016 الطاف حسین و چار دیگران بنام ریاست۔ پیرا 17 کا حوالہ دیا جا رہاہے ۔ ’’ جیسا کہ مروجہ ہے اور جیسی کہ تربیت بھی ہے پولیس افسران ظالم پراسیکیوٹرز ہوتے ہیں اور ان کی تمام کوششیں پراسیکیوشن کو کامیاب بنانے کیلئے ہوتی ہیں۔ ملزم کو رعایت دینا روایتی تفتیشی افسران کی فطرت کے خلاف ہوتا ہے ۔ ایسے تفتیشی افسران کی رائے جو غیرمتعصب اور غیرجانبدار ہوں ، کو رد کرنا ٹھیک نہیں ہوگا ۔ 12۔P L D Supreme Court 472رائو عبدالجبار خان بنام لاہور ہائیکورٹ ۔ پیرا 4بی یہاں دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ معینہ قانون ہے کہ عدالت ملزم کے بے گناہ یا گناہگار ہونے کے بارے میں تفتیشی افسر کی رائے ماننے کی پابند نہیں ہوتی بلکہ یہ بطور ثبوت بھی قابل قبول نہیں لیکن عدالت عالیہ لاہور نے P L D 2000 Lahore 261 میں اس بات کا تعین کر دیا ہے کہ حتمی فیصلے میں پولیس افسر ان کے پیش کردہ ثبوت کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے ۔ 13۔ P L D 1992 Lahore 314حاجی حنیف بنام ریاست پیرا 25 اور 27بطور حوالہ پیش کئے جا رہے ہیں۔ اسی لئے تفتیشی افسر کا بیان کہ اس کی رائے میں ملزم بے گناہ ہے یا گناہگار محض ایک بیان یا رائے کا اظہار ہے جو کہ شواہد میں غیرمتعلقہ اور ناقابل قبول ہے ۔ 14۔ P L D 2015 Peshawar 157 صیار بنام ریاست پیرا 45 بطور حوالہ درج کیا گیا ہے ۔ سیکشن 161کے تحت ملزم یا کسی بھی گواہ کے ریکارڈ کئے گئے بیان کی کوئی شواہدی اہمیت نہیں اور اسے شریک ملزم کے خلاف ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ 15۔1997 M L D 1257اکمل بنام ریاست ۔ 16۔2010 SCMR 660محمود احمد و دیگرا ن بنام ریاست ۔ 17۔ 2011 P Cr L J 895 Lahoreعبدالحمید و 3 دیگران بنام ریاست و دیگران۔ پیرا 10اے اور بی یہاں بیان کیا جا رہا ہے ۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی ملزم کے بے گناہ یا گناہ گارہونے کے بارے میں کسی پولیس افسر کی رائے شواہد میں قابل قبول ہے ؟ جواب بہت سادہ ہے کہ کسی ملزم کے بے گناہ یا گناہ گارہونے کے بارے میں کسی پولیس افسر کی رائے شواہد میں ناقابل قبول ہے اور عدالت کو قانونی طور پر قابل قبول شواہد کی بنا پرکیس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے جو اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ محمود احمد و دیگرا ن بنام ریاست کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے مندرجہ ذیل آبزرویشن دی ۔ 76 سے 86۔۔۔۔۔۔ تمام متعلقہ فریقین کی رہنمائی اور فائدے کیلئے اس بات کا ذکر کیا جاسکتا ہے کہ کسی کے مجرم یا معصوم ہونے کا تعین کرنا صرف اور صرف عدالت کا دائرہ کار ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ عدالتوں کا یہ اختیارپولیس یا کسی اور کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور اگرتفتش کاروں کے ایسے تاثرات کی اجازت دینے کے رجحان کی بیخ کنی نہ کی گئی تو تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔ اگر تفتیشی افسر کسی کو بے گناہ قرار دیتا ہے تو اسے بری کردیا جائے تو پھر کیوں ناں اس اصول پر ایسا شخص جسے تفتیشی افسر گناہ گار قرار دے ، لٹکا دیا جائے ۔ 2005CMR1175(Supreme court of pakistan بعنوان: عباس وغیرہ بنام ریاست پاکستان و دیگر کے پیرا 13a،b اور 14a کو نقل کیا جارہا ہے ۔ 13a ہم نے بار کی جانب سے اعتراضات، ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ کورٹ کے فیصلے پر غور کیا ہے ۔ہماری رائے میں فیصلہ شہادتوں کے مناسب جائزہ پر مبنی ہے ۔ کاکا کشن چند، راج کمار، اسماعیل راہو اور اشعرجان کی رہائی کیلئے وجوہات قائل کرنیوالی ہیں۔یہ قانون کا طے شدہ اصول ہے کہ بریت کے نتائج کو صرف اسی صورت میں بدلا جائے گا اگر وہ غیرمناسب، احمقانہ،غلط فہمی یا شہادتوں کے نامناسب جائزے پر مبنی ہوں اور ریاست کا فاضل وکیل یہ ثابت نہیں کرسکا کہ بریت کے فیصلے میں ایسی کوئی چیز پائی جاتی ہے ۔ 13b مفرور ملزم محرومل جگوانی کی جانب سے چیئرمین نیب کوخط قابل قبول شہادت نہیں۔اسے آرڈر کے آرٹیکل 43 کے تحت اعترافی بیان کے طور پر لیا جاسکتا ہے نہ ہی آرڈر کے آرٹیکل 46 کے تحت لیا جاسکتا ہے ۔آرڈر کے آرٹیکل 43 کے تحت اگر ایک ہی جرم میں ایک سے زائد افراد کا ٹرائل ہورہا ہو اور ایک شخص اعتراف کرلے اور اس کیخلاف ثابت بھی ہوجائے تو اس کو دوسرے ملزموں کیخلاف واقعاتی شہادت کے طور پر لیا جاسکتا ہے ۔مفرور ملزم محرومل جگوانی کی جانب سے خط کو آرڈر کے تحت اعتراف قبول نہیں کیاجاسکتا، کیونکہ وہ ابھی تک مفرور ہے اور اس کا دیگر افراد کے ساتھ ٹرائل نہیں ہوا۔ آرڈر کے آرٹیکل 46 سے واضح ہے کہ اس کا تعلق ایسے شخص سے ہے جو مر چکا ہے یا مل نہیں سکتا،اس کیس میں مفرور محرومل جگوانی زندہ ہے اور بھارت میں موجود ہے ۔ پیرا 14 اس صورتحال میں اس بات کا ذکر بھی اہم ہوگا کہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 164 اور 364 میں ملزم کے اعترافی بیان کو ریکارڈ کرنے کا طریقہ کار طے کردیا گیا ہے جبکہ یہ خط ضابطہ فوجداری کے سیکشن 161 یا 162 کے تحت بھی نہیں آتا جس میں ایک ملزم کے زبانی بیان کو تفتیشی افسر تحریری طورپر پیش کرتا ہے ۔یہ خط قابل قبول شہادت نہیں کہ اسے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے اے ڈی خواجہ کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اور وہ اسے پیش کرنے کے مجاز نہیں تھے ۔یہ بتایا گیا ہے کہ خط بھارت سے موصول ہوا ہے ، اس کی انوائس اور لفافہ فیڈیکس آفس پاکستان سے وصول کیا گیا ہوسکتا ہے مگر اس کی ڈلیوری کو ثابت کرنے کیلئے آفس سے کسی کو ایگزامن نہیں کیا گیا۔یہاں تک کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے اے ڈی خواجہ کا ایڈریس بھی اس پر نہیں ہے ۔خط کو ممبئی کی نوٹری پبلک سے اٹیسٹ کرایا گیا ہے اور اس کی تصدیق مہاراشٹر کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکشن افسر نے کی مگر یہ ایک دوسرے ملک کا عدالتی ریکارڈ نہیں ہے ، اس لئے اس کے اصلی ہونے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔اس سے قطع نظر یہ خط بھارت میں پاکستانی سفارتخانے کے کسی افسر سے تصدیق شدہ ہے نہ ہی اسے پاکستان کے سفارتخانے کے ذریعے بھیجا گیا۔اس کے پیش نظر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ خط ایک قابل قبول شہادت بننے کے قابل ہے ۔ 2010CLC722 بعنوان :سید امداد حسین شاہ بنام سید مخدوم حسین رضا و 5 دیگر پیرا 11G تصدیق شدہ کاپی پبلک ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہے اور اصل دستاویزات اور رجسٹر سے موازنہ کرکے مجاز اتھارٹی کی جانب سے جاری کی جاتی ہے ، سیکرٹری یونین کونسل یا کاپی کرنے والے کے دستخط اس بات کیلئے کافی نہیں ہیں کہ اس کاپی کو قابل قبول شہادت تسلیم کرلیا جائے ، اس کیلئے تصدیق شدہ کاپی ریکارڈ پر لانا ہوتی ہے اور سیکرٹری یونین کونسل یا کاپی کرنے والے کا اصل ریکارڈ بھی لانا ہوتا ہے ۔ muhammad aslam,s case 2000MLD 1581 کے مطابق فاضل وکیل کے مطابق اصلاح ’’بے گھر‘‘ کا تعلق بالکل مختلف صورتحال سے ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک متاثرہ شخص ’’بے گھر‘‘ بھی ہو۔مدعاعلیہ کی جانب سے فاضل وکیل نے ترمیم کی درخواست پر جواب دیتے ہوئے سرٹیفکیٹ بتاریخ 7۔11۔1992 کی قانونی حیثیت، قابل قبول شہادت ہونے پر سوالات اٹھائے ہیں۔فاضل وکیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرٹیفکیٹ قانون شہادت 1984 کے آرٹیکل 87 اور 89 کی شرائط کے مطابق تصدیق شدہ نہیں۔ سی ایل سی 1991 صفحہ 1201 کے مطابق قانون شہادت کے تحت دستاویزات کی تصدیق لازمی ہے اور اگر کسی دستاویز کی تصدیق اس کے مطابق نہیں، اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔پی ایل ڈی 162 لاہور 492 کے مطابق قانون شہادت کے تحت تصدیق شدہ کاپی ہی صرف تصدیق شدہ کاپی ہے اور اس کاپی پر نوٹ بھی ہونا چاہئے کہ یہ اصل کی ٹھیک کاپی ہے ، صرف نقل کنندہ اور تصدیق کنندہ کے دستخط کافی نہیں۔ 1991CLC 1201(LAHORE بعنوان محبوب علی و دیگر بنام مسز شریفاں بی بی و دیگر PLD 1962(WP) LAHORE492 بعنوان خضرت محمد و دیگر بنام غلام محمد و دیگر Financial Investigation Agency act 2003 virgin islands 1995CLC 531(PESHAWAR) بعنوان جنرل مینجر ایچ بی ایف سی و دیگر بنام علی رحمٰن پیرا 13G اور 14 درج ذیل ہے اس کیس میں صرف ایک گواہ اور نقل کنندہ کو ایگزامن کیا گیا مگر اپیل کنندہ فضل محمود نے دونوں دستاویزات پر اپنے دستخط پر اعتراض نہیں کیا۔لفظ ’’ثابت شدہ‘‘ کی قانون شہادت میں تعریف لازمی ہے اور جب اس کا اطلاق دستاویزات پر ہوتا ہے تو اسے ایکٹ کے سیکشن 67 کے ساتھ ملا کر پڑا جائے گا۔اگر فضل محمود اپنے دستخط کو نہ مانتا تو اس کا فیصلہ قانون شہادت کے تحت کیا جاتا اور اس کے تحت مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ۔ شہادت ایکٹ کے مطابق دستخط اور لکھائی کی شناخت کے درج ذیل طریقے ہیں دستاویز پر لکھنے یا دستخط کرنے والے کو بلاکر کسی ایسے شخص کو بلاکر جس کی موجودگی میں دستخط کئے گئے ہینڈ رائٹنگ کے ماہر کو بلاکر جس شخص نے دستاویز پر دستخط کئے یا لکھا، اس کی لکھائی پہچاننے والے کو بلاکر عدالت میں متنازعہ دستخط یا لکھائی کا کسی تصدیق شدہ دستخط یا لکھائی سے موازنہ کرکے جس شخص پر دستخط یا لکھنے کا الزام ہو،اس کے اعتراف کے ذریعے کسی ماہر نقل کنندہ کی مدد سے دیگر واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر 1996CLC79(KARACHI( بعنوان: نیشنل بینک آف پاکستان بنام جنرل ٹریکٹر اینڈ مشینری کمپنی لمیٹڈ و دیگر کسی دستاویز کو ثابت کرنے کا اصول یہ ہے کہ سب سے پہلے قانون شہادت کے آرٹیکل 72 اور 76 کے تحت دستاویز کے مواد کو بنیادی یا ثانوی شہادت کے ذریعے ثابت کیا جائے ، پھر دستاویز کے مواد کے ثابت کرنے کا مطلب اس کے اصل ہونے کو ثابت کرنا نہیں، اس کو الگ سے دستخط اور لکھائی سے ثابت کرنا ہوگا۔ دستاویزات کے اصل ہونے کو قانون شہادت میں درج طریقہ کار کے مطابق ثابت کیا جائے گا۔ 2004PCr L J371(FEDERAL SHARIAT COURT( بعنوان محمد ارشد نسیم بنام ریاست پیرا 8a and b درج ذیل ہے ۔ دونوں پارٹیز کے فاضل وکلاء کے دلائل پر غور کیا گیا اور دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا۔ درخواست میں شکایت کنندہ پر زنا کے الزامات کو ٹرائل کے دوران سامنے نہیں لایا گیا، قانونی طور پر ٹرائل میں ایک شخص جس دستاویز پر انحصار کررہا ہے ،اسے ثابت کرنا ضروری ہے اور جب تک اسے ثابت نہیں کیا جاتا اور ٹرائل میں سامنے نہیں لایا جاتا، اسے ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ (8) پی ایل ڈی 2016لاہور ٹائٹل مسز ریحانہ انجم بنام 5 دستاویزات کی پیداوار اور پروف دو علیحدہ چیزیں ہیں ۔ اگر کوئی دسترویز کا انحصار کسی پارٹی سے ہے اور اس کی رسمی نمائش کی گئی ہو ا اور قانون کے مطابق ثابت نہ ہو تو پھر اسے حالات کے مطابق جانچا جا سکتا۔ اگر ایک میڈیکل افسر کو میڈیکل رپورٹ بیان کرنی ہو تو تو اسے ہر مندرجات کو ثابت کرنا پڑتا ہے ۔اسی لئے اوپر بیان کردہ حقائق کو ثابت کرنے کیلئے کہ وہ جو رپورٹس تیار کی گئی ہیں سی آپی سی کے سیکشن 510 سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔ حکومت سکیورٹی پرنٹنگ کاپوریشن ،فنگر پرنٹنگ کے ماہر اور دیگر اداروں کو جو فرائض سونپتی ہے اسے اسی کوڈ کے تحت فرائض سرانجام دینا ہوتے ہیں تو کیا انہیں بغیر کسی بلاوے کے گواہ بنا یا جا سکتا ہے ۔ ا گر عدالت انصاف کیلئے کسی چیز کو ضروری سمجھتی ہے تو وہ رپورٹس بنانے والے کو بلا سکتی ہے اور پوچھ گچھ بھی کر سکتی ہے ۔ 9۔۔۔پی ایل ڈی سپریم کورٹ 160ٹائٹل خان محمد یوسف خٹک بنام ایس ایم ایوب اور 2دیگر ۔۔۔۔ ’’فارم ای (ای ایکس ایچ۔پی۔ای ) کمپنی کی اپنی جانب سے فائل کردہ انڈر سیکشن آف کمپنیز ایکٹ جس میں دکھایا گیا کہ خان محمد جو کہ دسمبر 1970تک کمپنی کے ڈائریکٹرز میں سے ہیں نے بتلایا کہ میں محمد یوسف خان خٹک اس کی گواہی دیتا ہوں کہ مزکورہ بالا لسٹ میں بیان کردہ حقائق درست ہیں ۔ جب میں کہتا ہوں کہ یہ دستاویزات غیر منظور شدہ ہیں تو مجھے ایکٹ کی دفعہ کے تحت ثبوت چاہیئے ۔ اگر کسی شخص نے غیر قانونی طریقے سے کاغذات پر دستخط کئے ہیں تو اس صورت میں اس کے دستخط کو ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ اگر مدعا علیہ نے خود (ای ایکس ایچ ۔پی ای ) پر سائن کئے ہوں تو اسے یہ سب ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ بنگال فرینڈز اینڈ کو بنام گوربنوڈ سہا کارپوریشن میں کورٹ اس پر اظہار خیال کر چکی ہے ۔ ایسی دستاویزات جو عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے وہ بطور ثبوت دستخط کے بغیر وصول نہیں کی جاسکتی ۔اگرچہ ایسے دستاویزات ریکارڈ پر لائے جاتے ہیں اور اور ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تو انہیں ریکارڈ کا ہی حصہ رہنا چاہیئے لیکن انکو بطور ثبت پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ای ایکس ایچ ۔پی ای جو کہ ای کی اصل حالت میں ہے اسے ہی پرائمری ثبوت مانا جا تا ہے اور بغیر کسی نمائش کے اسے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جا تا ہے ۔ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ ای ایکس ایچ ۔پی ای جعلی دستاویز ہے جو مشکوک انداز میں ریکارڈ میں سمگل کی گئی ہے اور اسے قانون کے مطابق ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔ اور اسے کسی کیس میں اپیل کنندہ کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ یہ شہادتی ایکٹ کی دفعہ 145سے مطابقت نہیں رکھتا۔چیف جسٹس نے تمام متنازعہ مندرجات کونکال دیا ہے جہاں سجاد احمد اسے قبول کر چکا تھا۔نتیجہ واضح ہے کہ ای ایکس ایچ ۔پی ای اپیل کنندہ کے خلاف بطور ثبوت استعمال نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ دستاویزات قانون کے مطابق ثابت نہیں ہوتے ۔ میں نے پایا ہے کہ شہادتی ایکٹ کی دفعہ 67اور 47کی تعمیل نہیں ہے کیونکہ ہینڈ رائٹنگ اور اور شناخت سے متعلق کوئی ریکارڈ بغیر ثبو ت نہیں مان جاتا۔یہ درست ہے کہ جو دستاویزات جوائنٹ سٹاک کمپنیز کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں اس لئے ان کی نمائش کی جا سکتی ہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکام نے اپیل کنندہ کے دستخط اور ہینڈ رائٹنگ سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں بولا۔دستاویزات پیش کرتے وقت اپیل کنندہ عدالت میں موجود نہیں تھا۔تاہم فروری 1972میں دلائل کے مکمل ہونے کے بعد اپیل کنندہ کی درخواست کہ ای ایکس ایچ کو ریکارڈ سے علیحدہ کر دیا جائے ۔ ٹربیونل نے اسکی درخواست کو رد کر دیا اورکہا کہ اپیل کنندہ نے غیر قانونی طریقہ سے دستخط کئے ہیں ۔ اس لئے شہادتی ایکٹ کی دفعہ 145دلچسپی کا باعث نہیں ہے ۔ یہ درست ہے کہ گوپل داس بنام شری ٹکر جی کیس میں اعتراضات کو ٹرائل کے موقع پر دیکھا جائے گا اس کیس میں دیکھا جائیگا کہ کہ دستاویزات الیکشن کمیشن میں پیش کئے گئے ۔اصل دستاویزات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اپیل کنندہ کے دستخط کو اوور رائٹ کیا گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے ریکارڈ کیا ہے کہ یہ ر جسٹریشن اسسٹنٹ کے پاس ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ مجھے یہ احساس نہیں رکھتا کہ کہ ٹربیونل واضح طور پر اپنی ڈیو ٹی سر انجام دینے میں ناکام رہا ہے ۔ ان حالات میں جب الیکشن کمیشن کے لئے اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ اپیل کنندہ کہ سیکشن 67کے تحت اسکو ثابت کرے لیکن اس نے یہ نہیں کیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ اپیل کنندہ نے اس وقت ایسی دستاویز پر اعتراض نہیں کیا ۔ حقیقت میں ای ایکس ایچ۔ پی ای سیکشن 73کے تحت ایک عوامی دستاویز ہے ۔اس کیس میں دکھائی دیتا ہے کہ متعلقہ کونسل سچی دکھائی دیتی ہے ۔ ای ایکس ایچ ۔پی ای کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ باضابطہ طور پر ثابت ہوئی ہے ۔ (10)1999 ایس سی ایم آر (سپریم کورٹ آف پاکستان ) ٹائٹل عبدالمجید اور چھ دیگر بمقابلہ محمد سبحان اور دیگر ،،،،،،،، پیرا نمبر 2کی پھر تشریح کی جاتی ہے ۔ فاضل وکیل نے مزید دلائل دیتے کہا کہ اپیل کنندہ کی درخواست کو تمام دستاویزات سے مطابقت رکھتی ہے ۔ہائیکورٹ انہیں مکمل طریقہ سے ختم نہیں کر رہی۔ (11) 1992ایم ایل ڈی (کراچی) ٹائٹل صدر پاکستان بمقابلہ بے نظیر بھٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ اچھی طرح واضح ہو چکا ہے کہ جہاں دستاویز بطور ثبوت جمع کرائے گئے ہوں اور اور ان کی دوبارہ نمائش کی گئی ہو پھر اسے سچ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جب دستاویز بطور اسکے لکھاری پیش کی جائی توا اس پر جوابی سوالات کئے جا سکتے ہیں اور سوالات کے مندرجات کی توصیح کی جا سکتی ہے ۔ (8) پی ایل ڈی 2016لاہور ٹائٹل مسز ریحانہ انجم بنام 5 دستاویزات کی پیداوار اور پروف دو علیحدہ چیزیں ہیں ۔ اگر کوئی دسترویز کا انحصار کسی پارٹی سے ہے اور اس کی رسمی نمائش کی گئی ہو ا اور قانون کے مطابق ثابت نہ ہو تو پھر اسے حالات کے مطابق جانچا جا سکتا۔ اگر ایک میڈیکل افسر کو میڈیکل رپورٹ بیان کرنی ہو تو تو اسے ہر مندرجات کو ثابت کرنا پڑتا ہے ۔اسی لئے اوپر بیان کردہ حقائق کو ثابت کرنے کیلئے کہ وہ جو رپورٹس تیار کی گئی ہیں سی آپی سی کے سیکشن 510 سے مطابقت نہیں رکھتیں ۔ حکومت سکیورٹی پرنٹنگ کاپوریشن ،فنگر پرنٹنگ کے ماہر اور دیگر اداروں کو جو فرائض سونپتی ہے اسے اسی کوڈ کے تحت فرائض سرانجام دینا ہوتے ہیں تو کیا انہیں بغیر کسی بلاوے کے گواہ بنا یا جا سکتا ہے ۔ ا گر عدالت انصاف کیلئے کسی چیز کو ضروری سمجھتی ہے تو وہ رپورٹس بنانے والے کو بلا سکتی ہے اور پوچھ گچھ بھی کر سکتی ہے ۔ 9۔۔۔پی ایل ڈی سپریم کورٹ 160ٹائٹل خان محمد یوسف خٹک بنام ایس ایم ایوب اور 2دیگر ۔۔۔۔ ’’فارم ای (ای ایکس ایچ۔پی۔ای ) کمپنی کی اپنی جانب سے فائل کردہ انڈر سیکشن آف کمپنیز ایکٹ جس میں دکھایا گیا کہ خان محمد جو کہ دسمبر 1970تک کمپنی کے ڈائریکٹرز میں سے ہیں نے بتلایا کہ میں محمد یوسف خان خٹک اس کی گواہی دیتا ہوں کہ مزکورہ بالا لسٹ میں بیان کردہ حقائق درست ہیں ۔ جب میں کہتا ہوں کہ یہ دستاویزات غیر منظور شدہ ہیں تو مجھے ایکٹ کی دفعہ کے تحت ثبوت چاہیئے ۔ اگر کسی شخص نے غیر قانونی طریقے سے کاغذات پر دستخط کئے ہیں تو اس صورت میں اس کے دستخط کو ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ اگر مدعا علیہ نے خود (ای ایکس ایچ ۔پی ای ) پر سائن کئے ہوں تو اسے یہ سب ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ بنگال فرینڈز اینڈ کو بنام گوربنوڈ سہا کارپوریشن میں کورٹ اس پر اظہار خیال کر چکی ہے ۔ ایسی دستاویزات جو عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے وہ بطور ثبوت دستخط کے بغیر وصول نہیں کی جاسکتی ۔اگرچہ ایسے دستاویزات ریکارڈ پر لائے جاتے ہیں اور اور ان پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تو انہیں ریکارڈ کا ہی حصہ رہنا چاہیئے لیکن انکو بطور ثبت پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ای ایکس ایچ ۔پی ای جو کہ ای کی اصل حالت میں ہے اسے ہی پرائمری ثبوت مانا جا تا ہے اور بغیر کسی نمائش کے اسے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا جا تا ہے ۔ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ ای ایکس ایچ ۔پی ای جعلی دستاویز ہے جو مشکوک انداز میں ریکارڈ میں سمگل کی گئی ہے اور اسے قانون کے مطابق ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔ اور اسے کسی کیس میں اپیل کنندہ کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ یہ شہادتی ایکٹ کی دفعہ 145سے مطابقت نہیں رکھتا۔چیف جسٹس نے تمام متنازعہ مندرجات کونکال دیا ہے جہاں سجاد احمد اسے قبول کر چکا تھا۔نتیجہ واضح ہے کہ ای ایکس ایچ ۔پی ای اپیل کنندہ کے خلاف بطور ثبوت استعمال نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ دستاویزات قانون کے مطابق ثابت نہیں ہوتے ۔ میں نے پایا ہے کہ شہادتی ایکٹ کی دفعہ 67اور 47کی تعمیل نہیں ہے کیونکہ ہینڈ رائٹنگ اور اور شناخت سے متعلق کوئی ریکارڈ بغیر ثبو ت نہیں مان جاتا۔یہ درست ہے کہ جو دستاویزات جوائنٹ سٹاک کمپنیز کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں اس لئے ان کی نمائش کی جا سکتی ہے ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکام نے اپیل کنندہ کے دستخط اور ہینڈ رائٹنگ سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں بولا۔دستاویزات پیش کرتے وقت اپیل کنندہ عدالت میں موجود نہیں تھا۔تاہم فروری 1972میں دلائل کے مکمل ہونے کے بعد اپیل کنندہ کی درخواست کہ ای ایکس ایچ کو ریکارڈ سے علیحدہ کر دیا جائے ۔ ٹربیونل نے اسکی درخواست کو رد کر دیا اورکہا کہ اپیل کنندہ نے غیر قانونی طریقہ سے دستخط کئے ہیں ۔ اس لئے شہادتی ایکٹ کی دفعہ 145دلچسپی کا باعث نہیں ہے ۔ یہ درست ہے کہ گوپل داس بنام شری ٹکر جی کیس میں اعتراضات کو ٹرائل کے موقع پر دیکھا جائے گا اس کیس میں دیکھا جائیگا کہ کہ دستاویزات الیکشن کمیشن میں پیش کئے گئے ۔اصل دستاویزات دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اپیل کنندہ کے دستخط کو اوور رائٹ کیا گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے ریکارڈ کیا ہے کہ یہ ر جسٹریشن اسسٹنٹ کے پاس ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ مجھے یہ احساس نہیں رکھتا کہ کہ ٹربیونل واضح طور پر اپنی ڈیو ٹی سر انجام دینے میں ناکام رہا ہے ۔ ان حالات میں جب الیکشن کمیشن کے لئے اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ اپیل کنندہ کہ سیکشن 67کے تحت اسکو ثابت کرے لیکن اس نے یہ نہیں کیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ اپیل کنندہ نے اس وقت ایسی دستاویز پر اعتراض نہیں کیا ۔ حقیقت میں ای ایکس ایچ۔ پی ای سیکشن 73کے تحت ایک عوامی دستاویز ہے ۔اس کیس میں دکھائی دیتا ہے کہ متعلقہ کونسل سچی دکھائی دیتی ہے ۔ ای ایکس ایچ ۔پی ای کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ باضابطہ طور پر ثابت ہوئی ہے ۔ (10)1999 ایس سی ایم آر (سپریم کورٹ آف پاکستان ) ٹائٹل عبدالمجید اور چھ دیگر بمقابلہ محمد سبحان اور دیگر ،،،،،،،، پیرا نمبر 2کی پھر تشریح کی جاتی ہے ۔ فاضل وکیل نے مزید دلائل دیتے کہا کہ اپیل کنندہ کی درخواست کو تمام دستاویزات سے مطابقت رکھتی ہے ۔ہائیکورٹ انہیں مکمل طریقہ سے ختم نہیں کر رہی۔ (11) 1992ایم ایل ڈی (کراچی) ٹائٹل صدر پاکستان بمقابلہ بے نظیر بھٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ اچھی طرح واضح ہو چکا ہے کہ جہاں دستاویز بطور ثبوت جمع کرائے گئے ہوں اور اور ان کی دوبارہ نمائش کی گئی ہو پھر اسے سچ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ جب دستاویز بطور اسکے لکھاری پیش کی جائی توا اس پر جوابی سوالات کئے جا سکتے ہیں اور سوالات کے مندرجات کی توصیح کی جا سکتی ہے ۔ 12۔ 2017 سی ایل سی 1090 (سندھ، سکھر بنچ) عنوان محمد اریس بنام زوار حاجی اور تین دیگرا۔ پیرا 13 (سی) اور (ڈ) کو دوبارہ لکھا گیا: قانون شہادت آرڈر 1984 کے آرٹیکل 72 کے مطابق دستاویزات کا متن یا تو پرائمری اور یا سکینڈری شواہد کے ذریعے ثابت ہو گا۔ پرائمری شواہد کی تعریف آرٹیکل 73 میں بیان کی گئی ہے اور یہ دستاویزات عدالت کے مشاہدے کیلئے ہے ۔ سکینڈری شواہد آرٹیکل 74 میں بیان ہوئے ہیں جن میں اصل دستاویزات کی فوٹوکاپیاں بھی شامل ہیں۔ قانون شہادت کے آرٹیکل 78 کے مطابق اگر کسی شخص نے کوئی دستاویز لکھی ہے یا اس کا کوئی حصہ لکھا ہے یا اس پر دستخط کئے ہیں تو وہ دستخط یا تحریر اس کے اپنے ہاتھ کی تحریر سے ملنے چاہئیں۔ آرٹیکل 79 کے مطابق اگر کسی دستاویز کو تصدیق کرانے کی ضرورت ہے تو وہ بطور شواہد پیش نہیں کی جا سکتی جب تک دو گواہ اس دستاویز کے شواہد ہونے کی گواہی نہ دے دیں۔ اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ جرم کی نوعیت جو ریفرنس 9 (اے ) (چار) (پانچ) (بارہ) کے مطابق دی گئی ہے ، دستاویزات کے ساتھ منسلک ہے ۔ اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ سپلمنٹری ریفرنس میں بنیادی تبدیلی ہوئی ہے ۔ متعلقہ اتھارٹیز کو ریفر کیا گیا ہے کہ پراسیکیوشن کی ذمہ داری جرم کے تمام پہلوؤں کی تحقیق کرنا ہے ، جو درج ذیل ہے ۔ یہ ثابت کیا جانا ضروری ہے کہ ملزم عوامی عہدہ رکھتا تھا۔ مالیاتی ذرائع اور پراپرٹی کی نوعیت اور اقسام جو اس کی ملکیت میں پائی گئی ہیں۔ یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کے ذرائع آمدن کیا ہیں یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ یہ وسائل اور پراپرٹی جو ملزم کی ملکیت میں ہیں، اس کے ذرائع آمدن کے مطابق نہیں ہیں۔ 2011 ایس سی ایم آر 136 بعنوان خالد عزیز بنام دی سٹیٹ میں یہ ذکر ہے کہ کیس کو ثابت کرنے کیلئے پراسیکیوشن کو جرم کے پہلو ثابت کرنے کی ضرورت ہے جو یہ ہیں کہ ملزم عوامی عہدہ رکھتا ہے ، مالیاتی ذرائع اور پراپرٹی کی نوعیت اور اقسام جو اس کی ملکیت میں پائی گئی ہیں اور یہ یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ اس کے ذرائع آمدن کیا ہیں، جب یہ پہلو واضح ہو جائیں گے جو متذکرہ بالا ریفرنس کی شقوں کی مطابق جرم کا تعین مکمل ہو چکا ہے ۔ ملزم کی ملکیت میں مالیاتی وسائل اور پراپرٹیز کا ہونا جرم نہیں ہے بلکہ ان وسائل اور پراپرٹیز کی ملکیت ثابت نہ کرنا جرم ہے ۔ اگر وہ وضاحت نہیں دے سکتا تو اس پر کرپشن اور غلط کاموں کے الزامات عائد کئے جا سکتے ہیں۔ مقدمہ بسوا بھوشن نائیک بنام سٹیٹ (ایئر 1954 ایس سی 350) کا ریفرنس موجود ہے جس میں پریونشن آف کرپشن ایکٹ 1947 کی تشریخ اور وضاحت کی گئی ہے ۔ ایسے ہی خیالات اور آرا فرخ جاوید گھمن اور سٹیٹ آف مہاراشٹر کے مقدمے میں بھی موجود ہیں۔ اسی لئے یہ واضح رہے کہ پراسیکیوشن کو مندرجہ بالا چاروں پہلوؤں کو ثابت کرنا پڑے گا پھر اس کے بعد ذمہ داری مدعی کی ہو گی کہ وہ آرڈیننس کے سیکشن 14 (س) کے تحت اپنی ملکیت ثابت کرے اور اس کی وضاحت دے ۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ پی ایل ڈی 2011 غنی الرحمٰن کے نیب کے خلاف مقدمہ میں اسی اصول کا اطلاق کیا گیا، اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ این اے او 1999 کے سیکشن 9 اے فائیو کے مطابق جرم کے ثابت کرنے کیلئے استغاثہ نے ثابت کرنا ہے کہ ملزم کے ذرائع آمدن اور اس کی ملکیت میں اثاثوں اس کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے ، اور جب استغاثہ کی جانب سے ایسے ثبوت اور ضروری تفصیل دے دی جائے تو ذمہ داری ملزم کی جانب منتقل ہوجاتی ہے کہ وہ ان ذرائع اور اثاثوں کا ثبوت پیش کرے ، اثاثوں کا رکھنا بذات خود جرم نہیں ہے مگر ان پر قبضہ کے بعد ان کے حصول کا ثبوت پیش نہ کرنا قابل اعتراض ہے اور متعلقہ جرم کی تائید کرتا ہے ۔ اس کیس میں درخواست گزار کی جانب سے آمدن کے ذرائع نہیں بتائے گئے لہٰذا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی جائیداد و اثاثے اور آمدن میں مطابقت ہے ۔ اس کیس میں اپیل کنندہ کی اہلیہ اور بیٹا بے نامی دار ہیں۔ دائر کردہ ریفرنس کے مطابق ملزم نے کرپشن کی اور بدعنوانی کے عمل میں شامل رہا۔ ملزم اور اسکی اہلیہ کے نام پر ظاہر کردہ اثاثوں کی مالیت 5153500 روپے ہے جو کہ اسکی آمدن سے کہیں زیادہ ہے ۔ تاہم اپیل کنندہ کی اہلیہ اور بیٹے کو اپنے اثاثہ جات کی ملکیت کا ثبوت پیش کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ میں طلب نہیں کیا گیا۔ 2010 کا ایس سی ایم آر 1697 مقدمہ محمد ہاشم بابر بنام ریاست و دیگر کے مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کی یہ ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ یہ چیزیں ثابت کرے کہ ملزم سرکاری ملازم ہے ، اس کے قبضہ میں موجود جائیداد و اثاثوں کی ملکیت ثابت کرے ، اس کے معلوم ذرائع آمدن کیا ہیں، اور یہ کہ اس کی جائیداد و اثاثے اس کی معلوم آمدن کے ذرائع سے مختلف ہیں۔ اگر یہ سب حاصل ہوجائے تو جرم ثابت ہوگیا ہے ورنہ ملزم کو اپنے ذرائع و جائیداد کا ثبوت اور دستاویز پیش کرنا ہونگی۔ 2009 کا ایس سی ایم آر 790 مقدمہ سید قاسم شاہ بنام ریاست مقدمہ میں بھی کہا گیا ہے ، ثبوت کا ابتدائی بار استغاثہ پر ہے اور یہ کسی صورت ملزم کی طرح منتقل نہیں ہوگا جو مقدمہ ختم ہونے تک بے گناہ ہونے کی درخواست دے سکتا ہے جس کا استحقاق اسے قانون نے دیا ہے ، دوسرے الفاظ میں جب تک مشتبہ حالات کے باعث اس کی معصومیت کا فرضیہ ختم نہ ہوجائے اس کو بار ثبوت لانے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، ملزم پر بار ثبوت صرف اسی صورت میں منتقل ہوگا جب استغاثہ اس کے مجرم ہونے کا فرضیہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔ لاہور میں مقدمہ پی ایل ڈی 2017 بریگیڈئیر (ر) امتیاز احمد بنام ریاست مقدمہ میں دیگر تفصیل کے بعد کہا گیا کہ جن حالات میں بے نامی دار معاملات کئے گئے انہیں استغاثہ کی جانب سے عدالت کے سامنے ظاہر کرنا چاہئے ۔ 2016 کا مقدمہ وائے ایل آر 2547 اس مقدمہ میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ استغاثہ پر یہ بار ہوگا کہ وہ ثابت کرے کے حاصل کئے گئے اثاثے آمدن کے ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ 2016 کا مقدمہ سردار محمد نسیم بنام ریاست مقدمہ میں Ss۔5(da)& 9(a) (v) آمدنی کے معروف ذرائع سے باہر اثاثے ، ثبوت کی تعریف، بینامی جائیداد، آمدنی کے ذرائع، ثبوت ، الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ سرکاری دفتر کے حامل ہیں اور انہیں جائیداد کی ضبط کرنے سے پہلے صرف سات سال قید کی عدالت نے سزا دی ہے ،یہ درست ہے ، مبینہ بنامر کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا،اسی طرح پراسیکیوجیو کیس میں مہلک تھا ، آرڈر یا،اثاثوں کے معاملے سے باہر، وسائل اور اثاثوں پر تبادلہ خیال کرنے سے پہلے ، قانونی اور غیر قانونی طور پر بھی آمدنی کا معروف ذریعہ ریکارڈ پر لایا جانا پڑا۔مقدمے کی سماعت عدالت نے جائیداد کی مقررہ قیمت پر گزشتہ 41 سالوں کے لئے الزام عائد کی کہیں بھی تنخواہ ظاہر نہیں کی، اس کی بچت اور ان کے دیگر مواقع پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ عدالت نے درخواست کرنے کے لئے کوئی فارمولہ نہیں کیا تھا۔ہائی کورٹ نے مقدمے کی سماعت کورٹ کے نتائج سے اختلاف کیا اور اس کے نتیجے میں سزا دی ،انہوں نے الزام لگایا تھا، حالات میں اپیل کی اجازت دی گئی تھی۔ 2016 پی سی آر، ایل ، جے 1343 غلام سرور خان لعل وانی بنام سرکار 2013پی سی آر ایل جے 1697 2007 پی سی آر ایل جے 1972(کراچی) محمداکرم ندیم بنام نیب اس قانون کے تحت، مندرجہ ذیل نکات ثابت کرنے کے لئے پراسیکیوشن ضروری ہے ۔ (1) الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ عوامی دفتر کے حامل تھے ۔ (2) غیر ملکی وسائل کی نوعیت اور حدجائیداد جو اپنے قبضہ میں پایا گیا تھا۔ (3) کیا ان کی آمدنی میں سے تھے ،تحقیقات کے بعد پراسیکیوشن کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ (4)اس طرح کے وسائل یا جائیداد کا قبضہ مل گیامبینہ آمدنی کے معروف ذریعہ ذرائع کے مطابق غیر قانونی تھے ۔ 2007 پی سی آ ر،ایل جے 1957 (کراچی) محمدارشد خان بنام چیئرمین نیب ودیگر 2007ایم ایل ڈی 910(کراچی) حاکم علی زرداری بنام سرکار "مقدمہ ثابت کرنے کے لئے ، پراسیکیوشن جرم کے اجزاء کو ثابت کرنے کی ضرورت ہے ، جس میں (1) یہ لازمی طور پر قائم ہونا چاہیے کہ وہ عوامی دفتر کے حامل ہیں، (2) غیر ملکی وسائل کے فطرت اور اخراجات۔ جائیداد جو جو اپنے قبضے میں پایا گیا تھا۔ (3) یہ ان کی آمدنی کے ذریعہ کیا معروف ذریعہ تھا، جیسا کہ مکمل تحقیقات کے بعد پراسیکیوشن کے نام سے جانا جاتا ہے اور (4) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ، اس طرح کے وسائل یا مالک کے قبضہ میں جائیداد کے حصول میں ان کی آمدنی کے ذریعہ غیر معقول ذریعہ تھا۔ ان چار اجزاء کو قائم کرنے کے بعد، جرم 9 (ا) (v) کے تحت بیان کردہ جرم مکمل ہوجاتا ہے ، جب تک کہ مجرم اس طرح کے وسائل کیلئے حساب نہیں کرسکتا یا جائیداد، اس طرح، کسی بھی غیر قانونی وسائل یا ملکیت کا مالک خود ہی ایک جرم نہیں ہے ، لیکن یہ خود کو کسی جرم کیلئے مطمئن طور پر اکاؤنٹ میں ناکام ہونے میں ناکام رہا ہے ، لیکن یہ غیر ملکی وسائل کے اس قسم کے قبضہ کے لئے اکاؤنٹ میں تسلیم کرنے میں ناکام ہے ملکیت یا ملکیت جو ملکیت قبضے اور سازش پیدا کرتی ہے ، اگر وہ وضاحت نہیں کرسکتا تو، اس آرڈیننس کے سیکشن 14 (سی) کے تحت فرض ہے جو الزام عائد کر کے مجرمانہ مجرمانہ ہے اور بدعنوانی کے طریقوں کو تیار کیا جاسکتا ہے ۔جرم کے تیسرے اور چوتھا اجزاء اور آمدنی کے معروف ذرائع کے بارے میں ہے ،کیس کی مکمل تحقیقات کیلئے "آمدنی کے معروف ذرائع" کی مکمل تحقیقات کرنی چاہیے ، عام طور پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پراسیکیوشن چیزوں کی فطرت میں نہیں ہے ، ایک مجرم شخص کے معاملات کو معلوم کرنے کی توقع ہے ، جو لوگ قانون شاہادات کے آرٹیکل 122 کے معنی میں مبینہ طور پر "علم کے اندر خاص طور پر ختم ہو جائیں گے ۔1984 کے قانون کے مطابق نیچے درج کیا گیا ہے ۔جب کوئی حقائق کسی فردکے علم میں ہوں تواس کو ثابت کرنے کا باراسی پر ہے ،اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ پراسیکیوشن آمدنی کے ذرائع کے بارے میں کسی بھی انکوائری یا تحقیقات کو برقرار رکھنے سے مطمئن ہے ،سرکاری ملازم اورپبلک آفس ہولڈر دوقسم کے لوگ آرڈیننس کے تحت عوامی آفس کے ہولڈر کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ 2006پی سی آر ایل جی 1409 جمیل اختر کیانی ودیگر بنام سرکار نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 (ا) (v) کے مطابق۔ پراسیکیوشن کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ (i) ملزم پبلک آفس کاملازم ہے (ii) غیر ملکی وسائل ان کے قبضے میں پایا جاتا ہے (iii) ان کی آمدنی والے ذرائع کیا ہیں (iv) ان الزامات کے قبضے میں پائے گئے ایسے غیر ملکی وسائل یا ملکیت جو ان کے آمدنی کے معروف ذریعہ سے غیر معمولی ہیں سیکشن 9 (ا) (v) مکمل ہو جاتا ہے جب تک کہ مجرم اس طرح کے وسائل کے لئے معقول طور پر اکاؤنٹ میں نہیں پا سکے جس سے جائیداد خریدا گیا۔ پی ایل ڈی 2004 لاہور155 فرخ جاوید گھمن بنام سرکار اظہار "آمدنی کے معروف ذرائع" کا مطلب یہ ہے کہ تحقیقات کے ذریعے پراسیکیوشن کو آمدن کی ذرائع جاننے کی ضرورت ہے ،ظاہر ہے کہ پراسیکیوشن تمام معلومات جاننے کی ضرورت نہیں ہے لیکن قانون کے تحت آمدن کے ذرائع جاننے کیلئے پراسیکیوشن کو تمام ذرائع آمدن کے حوالوں کے بارے میں بتاناضروری ہے تاکہ اثاثہ وغیرہ کے ساتھ معقول طور پر اس کا موازنہ کریں، اور صرف مؤخر کی صورت میں غیر متوازن ہونے کی صورت میں یہ حوالہ ساتھ جوڑ سکتے ہیں،ملزم ایک عوامی دفتر کے حامل ہیں، نقل و حمل وغیرہ جیسے بونس اور دیگر امتیازات اصلی آمدنی کے معروف ذرائع کا حصہ ہیں،اگر لینڈ اونرزمیندارہے ، تو اس کی آمدنی میں زرعی آمدنی شامل ہوتی ہے ۔ یہ تحقیقاتی آفیسر کا فرض اچھی طرح سے ہے کہ اپنے ذرائع آمدن کے بارے میں بتانے کیلئے ملزم کو مکمل موقع دے ، زرعی آمدنی کا تعین تحقیقاتی آفیسر کے لئے ایک سے زیادہ وجہ سے آسان کام نہیں ہوسکتا ہے ، سب سے پہلے ہمارے دیہی ثقافت کتاب میں رکھناکم از کم کیا جاتا ہے ،دوسرا وہاں کوئی مجبور نہیں ہے کیونکہ یہ ٹیکس قابل آمدنی نہیں ، تیسرا یہاں تک کہ اگر کوئی ایسا کرے تو اس کے لئے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کی توقع نہیں ہے ۔ 2016 پی سی آر ایل جے 1343(لاہور)غلام سرور خان بنام سرکار بے نامی ٹرانزیکشن کی نوعیت ثابت کرنے کے لئے پشاور ہائی کورٹ کے سیکرٹری ڈویژن بنچ کی طرف اشارہ کرنے والے اجزاء کو ثابت کرنے کے لئے پراسیکیوشن فرض کیا گیا تھا۔ (1)غورکا ذریعہ (2)دستاویزات کے مالک کا نام (3)جائیداد پر جس کا قبضہ تھا (4)بے نامی جائیداد پراعتراض (b) دوہزارتیرہ پی سی آر ایل جے 1607 (پشاور) سیدانوربادشاہ بنام چیئرمین نیب اعتراض یہ دیکھا گیا تھا درخواست گزار کی آمدنی کا ذریعہ کسی بھی فہرست میں نہیں تھا،کیس کی تحقیقات یا مقدمے کی سماعت کے دوران این اے او 1999 کے ایک جرم ٹائم 9 (اے ) (v) کمیشن کی کمی کو ثابت کرنے کے لئے قانون اب قائم ہے ، اس کے مطابق پراسیکیوشن کی طرف سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ متعلقہ افراد کو متعلقہ متعلقہ آمدنی کے بارے میں معلوم کیا گیا تھا،وقت اور اس کے ذریعہ شخص کے وسائل یا جائیداد ان کی آمدنی کے ذریعہ غیر معقول ذریعہ تھے ، کیونکہ کسی بھی غیر ملکی وسائل یا ملکیت کا مالک خود ہی ایک جرم نہیں ہے ، لیکن یہ تسلیم شدہ طور پر غیر ملکی وسائل یا ملکیت کے اس قبضہ کے لئے اکاؤنٹس کرنے میں ناکام ہے اس کا قبضہ قابل اعتراض بناتا ہے اور متعلقہ جرم کی تشکیل کرتا ہے ۔ (c) پی ایل ڈی 2009 ایس سی ایم آر 202 احمدریاض شیخ ودیگر بنام سرکار بے نامی جائیدا دکا مطلب ہے کہ کسی بھی فرد جائیداد ہے اوراس نے کسی اورکواس کا مالک ظاہرکیا ہوا ہ