مستقبل کا مورخ جب پاکستان کی تاریخ لکھے گا، اسے ایچ بلاک(ماڈل ٹائون لاہور) پر ایک علیحدہ باب(Chapter)لکھنا پڑے گا۔ اس باب کے کئی عنوان ہو سکتے ہیں، مثلاً ایچ بلاک۔ ماضی اور حال کے آئینے میں۔ ایچ بلاک کی تاریخی اہمیت، ایچ بلاک جہاں قوم کی تقدیر کے فیصلے ہوئے تھے۔ ایچ بلاک کا عروج و زوال، ایچ بلاک۔ تاریخی عمارتیں اور شخصیتیں، ایچ بلاک دورِ شریفی میںپاکستان اور پنجاب کا مشترکہ دارالخلافہ۔ ایچ بلاک جس کی پیشانی کو آسمان بھی جھک کر چومتا تھا، عبرت کا نشان کیسے بنا وغیرہ وغیرہ۔ ماڈل ٹائون لاہور کا نقشہ 1884ء کے لگ بھگ غالباً سرگنگارام نے بنایا تھا جس میں آٹھ بلاک تھے، اے سے لے کر ایچ تک۔ 1970ء تک ایچ بلاک ویران تھا۔ اکثر پلاٹ خالی تھے۔ زمین کی قیمت دو ہزار روپے کنال تھی(اب تین کروڑ ہے)1970-71ء میں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف(مرحوم) نے یہاں چھ چھ کنال کے چودہ پلاٹ خریدے اور ایک سال کے اندر بارہ بارہ کنال کی سات عظیم الشان کوٹھیاں بنا کر، اپنے چھ بھائیوں کے ساتھ ان کوٹھیوں میں آن بسے۔ یہاں سے ایچ بلاک کا عروج شروع ہوا۔ بعد ازاں جب بھٹو(مرحوم) نے اتفاق فونڈری کو نیشنلائز کر لیا، اس خاندان کو زندگی کا پہلا زبردست دھچکا لگا۔ انہی دنوں ہم نے بھی ایک کنال زمین خرید کر، اس پر ایک معمولی سا مکان تعمیر کر لیا۔ مکان بن گیا تو ہم بھی میاں صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایچ بلاک میں اپنے غریب خانے میں منتقل ہو گئے۔ میں نے محاورۃً غریب خانہ نہیں کہا، ہمارا گھر واقعی غریب خانہ تھا۔ میاں فیملی کی شاندار کوٹھیوں کے سامنے تو یہ بہت ہی زیادہ غریب خانہ لگتا تھا۔ میں اور میری مرحومہ بیگم محکمہ تعلیم سے منسلک تھے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اتفاق فونڈری کے قومیائے جانے کے بعد ،میاں فیملی بھٹو کی بدترین دشمن بن گئی۔ جب جنرل ضیاء الحق، بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کے حکمران بن گئے تو پیپلزپارٹی کے زوال اور بھٹو کے دشمنوں کے عروج کا دور شروع ہو گیا۔ بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ شروع ہو گیا۔اس مقدمے کے بارے میں ایک بات سن لیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج مولوی محمد مشتاق(مرحوم) ماڈل ٹائون ہی کے Bبلاک میں رہتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے چند سال بعد وہ بہت لاغر ہو گئے تھے۔ چلنے پھرنے سے معذور تھے۔ حکومت کی طرف سے ججوں کو جو سکیورٹی گارڈ ملتا ہے۔ اس میں میرا ایک عزیز کانسٹیبل منیر(مرحوم) بھی تھا۔ اس کی وساطت سے میں مولوی صاحب سے ملا۔ اپنا تعارف کروایا کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھاتا ہوں۔ بڑے تپاک اور محبت سے ملے، باتوں باتوں میں بھٹو مرحوم کا ذکر آ گیا۔ وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ چہرے پر اداسی کا تاثر تھا۔ پھر فرمایا’’پروفیسر صاحب! چند دن کا مہمان ہوں۔ سوچتا ہوں اللہ کا سامنا کیسے کروں گا۔ بھٹو صاحب کے معاملے میں مجھ سے انصاف نہیں ہوا۔ دراصل میں کسی وجہ سے بھٹو صاحب سے ناراض تھا۔ اسی انتقامی جذبے کے تحت میں نے وہ فیصلہ دیا، جس کی یاد میرے لیے عذاب بن چکی ہے‘‘۔ میں نے ان کی یہ کیفیت دیکھ کر بات کا رخ بدل دیا۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد مولوی صاحب فوت ہو گئے۔میں ان کے جنازے میں بھی شریک تھا جہاں میں نے جنرل ضیاء الحق کی کمی محسوس کی۔ ان کے اقتدار کا راستہ مولوی صاحب ہی نے ہموار کیا تھا۔ غالباً جنرل صاحب قوم کی خدمت کے کام میں اتنے مصروف تھے کہ مولوی صاحب کے جنازے میں شرکت نہ کر سکے۔ جنازے میں انہوں نے کیا خاک آنا تھا۔ انہی کے دور میں ایک بار مولوی صاحب سے شدید زیادتی کی گئی۔ یہ کہانی پھر کبھی سہی۔ مولوی صاحب نے بھٹو کیس کے بارے میں جو بات کہی تھی، اس سے ملتی جلتی بات بعد میں جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی کی تھی۔ ایک جج مولوی، دوسرا سید، اللہ تیرے کام! خیر، قصہ مختصر جنرل ضیاء الحق کی شبانہ روز کاوشوں اور حکومت پاکستان کے کروڑوں روپے کی بربادی کے بعد بھٹو صاحب کو بذریعہ عدالت قتل کر دیا گیا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی پر سارا ملک اداس تھا لیکن چند لوگ خوش تھے۔ میاں فیملی تو اس قدر خوش ہوئی کہ انہوں نے اس خوشی میں دیگ پکائی اور پھر ایک روز جنرل صاحب ایچ بلاک تشریف لائے۔ جنرل صاحب کے مبارک اور اسلامی ہاتھوں سے اتفاق مسجد کا افتتاح ہونا تھا۔ وہاں میں نے پہلی بار جنرل صاحب کو دیکھا۔ اگرچہ اس سے پہلے جب بھی ٹی وی کھولتے تھے جنرل صاحب کا روئے مبارک نظر آ جاتا تھا۔ آج ہم لوگ پاکستان میں اسلام کا جو عروج دیکھتے ہیں یہ جنرل صاحب ہی کی وجہ سے ہے۔ اسی روز پتہ چلا کہ جنرل صاحب نے میاں فیملی کو 35کروڑ روپے صرف ڈیڑھ فیصد مارک اپ پر دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریلوے کا بیسوں ٹن لوہا سوا روپیہ سیر کے حساب سے اتفاق فونڈری کو بخش دیا۔ اس فیملی پر جنرل صاحب کی نوازشات کی بارش ہونے لگی۔ ضیاء الحق تک بھٹو فیملی کی رسائی کیسے ہوئی۔ یہ کہانی بھی بعد میں بیان کروں گا اور پھر کچھ عرصے بعد جنرل صاحب دوبارہ ایچ بلاک تشریف لائے۔ اس بار وہ اتفاق ہسپتال کا افتتاح کرنے آئے تھے۔ ہسپتال کے سامنے والی گرائونڈ میں ایک چھوٹا سا عظیم الشان جلسہ ہوا۔ جنرل صاحب نے تقریر میں یہ تاریخی جملہ کیا۔ میں تو کہتا ہوں اپنا کلہ مضبوط کرو۔ اس کے بعد لاہور کے ہسپتالوں کا ذکر فرماتے ہوئے انہوں نے کہا ’’گنگا دیوی ہسپتال‘‘ ،لوگ ہنس پڑے۔ جنرل صاحب حیران ہوئے کہ لوگ کس بات پر ہنس رہے ہیں لیکن چالاک آدمی تھے۔ بات دوسری طرف لے گئے۔جنرل صاحب کی مہربانی سے اتفاق فیملی دن دُونی، رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔ جنرل صاحب اور میاں محمد شریف ایک مثالی دوستی کے رشتے میں بندھ گئے۔ جنرل صاحب میاں نواز شریف کی صلاحیتوں کے بہت معترف تھے۔ انہیں پہلے وزیر بنایا، پھر وزیر اعلیٰ بنایا اور پھر جنرل صاحب نے اپنی وفات کے بعد بھی نواز شریف کو ملک کا حکمران بنا دیا۔ دراصل جب میاں نواز شریف حکمران بنے، اصولاً اس وقت جنرل صاحب ہی کو حکمران ہونا تھا لیکن انہوں نے تو اپنی عمر نواز شریف کے نام کر دی تھی تو گویا حکمرانی نواز شریف کی تھی لیکن عمر ضیاء الحق کی تھی۔ یعنی میاں صاحب اب تک جنرل ضیاء کی عمر بسر کر رہے ہیں۔ جنرل صاحب کی صحت ماشاء اللہ بہت اچھی تھی۔ لہٰذا فی الحال نواز شریف کی عمر کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ جب یہاں پاکستان میں شور مچ رہا تھا کہ میاں نواز شریف کو چند معمولی۔ چند غیر معمولی اور چند پراسرار بیماریاں لگ چکی ہیں، تو میں کہتا تھا کہ سب بکواس ہے۔ سب غلط ہے۔ میرے اندازے میں اگر جنرل صاحب اپنی عمر میاں نواز شریف کو نہ دیتے، تو اب بھی صحت مند ہوئے۔ لہٰذا نواز شریف کی جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ ذکر ہو رہا تھا میاں محمد شریف(مرحوم) کا۔ وہ ایک وضعدار بزرگ تھے۔ نمازی اور ملنسار تھے۔ اپنے بیٹوں کے برعکس متکبر نہیں تھے اور اپنی فیملی میں غالباً آخری صاحب کردار مرد تھے۔ جب وہ اپنے گھر سے نکلتے تو ان کی نظر میرے غریب خانے پر پڑتی۔ میں گھر سے نکلتا تو میری نظر ان کے رئیس خانے پر پڑتی۔ یہی بات ہماری دوستی کا باعث بن گئی۔ میں ان کا احترام کرتا تھا، وہ مجھ سے بڑی شفقت فرماتے تھے۔(جاری ہے)