سرائیکی زبان وادب کے عظیم ناول نگاراور معروف افسانہ نویس اور ماہر تعلیم صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیب ظفر محمود لاشاری گزشتہ روز 16 مارچ 2019ء کو وفات پا گئے ۔ مرحوم ظفر لشاری صاحب 9 دسمبر 1948ء کو احمد پور شرقیہ کے نواحی علاقے محراب والا میں پیدا ہونے والے ظفر محمود لاشاری کے والد محمد ابراہیم خان ویٹرنری ڈاکٹر تھے، ظفر محمود لاشاری نے ابتدائی تعلیم احمد پور شرقیہ سے حاصل کی اور پڑھائی کے دوران ان کا شمار بہترین طالب علموں میں ہوتا تھا ۔ 1967ء میں میٹرک کیا، ایس ای کالج بہاول پور میں ایف ایس سی کے لئے داخلہ لیا لیکن بیماری کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دی، میٹرک کے بعد چنی گوٹھ میں پی ٹی سی ٹیچر کے طور پر اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ پرائیویٹ طور پر ایم اے پنجابی، ایم اے سرائیکی اور ایم ایڈ کیااور ایس ایس ٹی کے طور پر 2008ء میں ریٹائرڈ ہوئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے قرطاس و قلم سے رابطہ نہ توڑا اور وسیب کو بہترین تحریریں عطا کیں ۔ ظفر محمود لشاری دوران ملازمت سکول کے طالب علموں کو پڑھاتے تھے ، بعد میں ان سے سرائیکی تعلیم کے حوالے سے کالج اور یونیورسٹیوں کے طلباء نے رہنمائی حاصل کی ۔ ان کی تعلیم کا فیض اپنے گھر سے شروع ہوا ، انہوں نے اپنے بیٹوں کو سائنس کی تعلیم کے ساتھ ساتھ لٹریچر کی تعلیم دلائی ۔ انہوں نے اپنے صاحبزادے اطہر لشاری کو ایم اے سرائیکی کرنے کے بعد سرائیکی میں ایم فل کرایا، اب وہ سرائیکی ٹی وی چینل میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور والدکی طرح ان کا بھی وسیب میں بہت بڑا نام ہے ۔یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ محراب والا دیرہ نواب صاحب سے ملحقہ علاقہ ہے ۔ بلا شک نوابوں کے محلات کھربوں روپے مالیت کے ہیں اور صادق گڑھ پیلس کی لائبریری کا شمار دنیا کی بہترین لائبریریوں میں ہوتا ہے ، مگر افسوس کہ ان محلات میں کوئی بڑا دانشور ،شاعر یا ادیب پیدا نہیں ہوا جبکہ اس سے ملحقہ چھوٹی سی بستی محراب والا میں سفیر لشاری ، انجم لشاری ، شاہد عالم لشاری و دیگر سرائیکی ادب کے اتنے بڑے نام ہیں کہ ان کی کتابیں سرائیکی نصاب میں پڑھائی جا رہی ہیں ۔ ظفر محمود لاشاری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سرائیکی نثر میں انہوں نے اپنی ایک منفرد پہچان بنائی اور آج ان کی کتابوں کو وسیب میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہے ۔کسی بھی لکھاری کے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے کہ وہ کسی صنف ادب کا اولین لکھاری شمار کیا جائے، سرائیکی زبان میں سب سے پہلا ناول نگار ہونے کا اعزاز ظفر محمود لاشاری کو حاصل ہے، ظفر محمود لاشاری کا پہلا ناول نازو1971ء میں سرائیکی ادبی مجلس بہاول پور کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ تقسیم ہند کے پس منظر میں لکھا گیا یہ ناول 1975ء سے 1985ء تک پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ایم اے پنجابی کے نصاب میں پڑھایا جاتا رہا۔ ظفر محمود لاشاری کا دوسرا سرائیکی ناول پہاج 1987ء میں پنجابی ادبی بورڈ کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ اس ناول کا آدھا حصہ بی اے کے سرائیکی نصاب میں شامل ہے جبکہ مکمل ناول اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے ایم اے سرائیکی کے نصاب میں شامل ہے۔ظفر محمود لاشاری کا ناول پہاج 1974ء سے 1980ء تک ماہنامہ سرائیکی ادب ملتان میں 40 اقساط میں بھی شائع کیا گیا۔ سرائیکی زبان میں بہت سے اہل قلم نے ناول لکھے ، جن میں مرحوم اسماعیل احمدانی کا ناول چھولیاں ، دیرہ اسماعیل خان کے حفیظ گیلانی کا ناول نت کرلاوے کونج ، حفیظ خان کا ناول ادھ ادھورے لوک ، جمشید کلانچوی کا ناول وسدیاں جھوکاں ، ڈاکٹر اسلم انصاری کا ناول بیڑی وچ دریا ، حبیب موہانہ کا ناول اللہ لہیسی مونجھاں و دیگر بہت سے نام ہیں مگر ظفر لشاری کے ناول نازو اور پہاج کو آج بھی انفرادیت حاصل ہے ۔ ظفر محمود لاشاری نے سرائیکی افسانہ نویسی سے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز کیا، ان کا افسانوں کا مجموعہ تتیاں چھاواں کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ خطے کے نامور سرائیکی شاعر حضرت جانباز جتوئی پر ان کی کتاب جانباز جتوئی: حیاتی تے فن کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ظفر محمود لاشاری نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ایم ایڈ کے لئے جو مقالہ لکھا، اسے بھی پنجابی ادبی بورڈ نے خواجہ فرید کے تعلیمی نظریات کے نام سے شائع کیا۔ سرائیکی لوک سہرے ظفر محمود لاشاری کی مرتب کردہ ایسی کتاب ہے جس میں صدیوں پرانے سرائیکی سہرے شامل کئے گئے ہیں۔ اہم ترین ثقافتی مواد پر مشتمل اس گرانقدر کتاب کو لوک ورثہ اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب بھی اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے ایم اے سرائیکی کے نصاب میں شامل ہے۔ ظفر لشاری بہت اچھے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے دوست اور بہت اچھے انسان بھی تھے ۔ اس کے ساتھ اس میں سیاسی بصیرت بدرجہ اُتم موجود تھی ۔انہو ںنے بہاولپور صوبہ تحریک میں بھی اپنا حصہ ڈالا ، جب 1975ء میں ملتان میں عالمی سرائیکی کانفرنس ہوئی اور بہاولپور کے اکابرین سیٹھ عبید الرحمن اور ریاض ہاشمی نے بہاولپور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کر دیا تو سفیر لشاری اور ظفر لشاری نے وسیب کے حقوق کے لئے علمی سطح پر کام کیا ۔ سفیر لشاری مرحوم نے شاعری اور ظفر لشاری نے نثر میں اپنے قلمی جوہر دکھائے۔ سرائیکی اخبار روزنامہ جھوک سے انٹرویو کے دوران انہوں نے بتایا کہ سابق ریاست بہاولپور بھی ملتان کا ہی حصہ تھی اور ہمارے ریاست کے نواب جب شکار پور سے جھگڑوں کے نتیجے میں ملتان کے علاقوں میں آئے تو ملتان کے فرمانروا نے پناہ دینے کے ساتھ رقبے اور جائیدادیں بھی دیں ، جہاں بعد ازاں ریاست بہاولپورکا وجود سامنے آیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ تاریخی ، ثقافتی ،جغرافیائی طور پر صادق آباد سے ڈی آئی خان تک پورا خطہ ایک ہی تہذیب کا وارث ہے ۔ ظفر لشاری نے ایک مرتبہ سرائیکی اخبار جھوک سے انٹرویو کے دوران بتایا کہ میرے لئے وہ حیران کن خوشی کا لمحہ تھا جب امتحان کے دوران مجھ سے میرے ناول کے بارے میں پوچھا گیا ۔ وہ بتا تے ہیں کہ 1989ء میں ایم اے سرائیکی کا امتحان دیا تو ایک سوال میں ناول ’’نازو‘‘کے کرداروں پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا۔ اسی طرح 1990ء میں ایم اے پنجابی کیا تو اس بار بھی امتحان میں ایک سوال ان کے ناول کے حوالے سے ہی کیا گیا تھا ۔ یہ سوال دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں اشک بار آنکھوں کے ساتھ امتحانی پرچہ حل کر رہا تھا ۔